خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
دیکھا جائے تو ہر مذہب کے ٹھیکے داروں اور استحصالی طبقے میں ایک بات مشترک ہے
ایک محتاط اندازے کے مطابق احمد ندیم قاسمی صاحب کی مندرجہ بالا مصرعے سے شروع ہونے والی دعائیہ نظم ہمارے قومی ادب میں قومی ترانے کے بعد سب سے زیادہ پڑھی جانے والی نظم بنتی جا رہی ہے۔ احباب کی ایک محفل میں اس کی وجوہات پر غور کیا گیا تو اس کی دیگر خوبیوں سے قطع نظر سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا گیا کہ اگرچہ اس نوع کی بیشتر نظموں میں دعا کا رنگ شامل یا غالب ہوتا ہے مگر اس نظم میں کی جانے والی دعاؤں کی نوعیت اور انداز میں کچھ ایسی کشش ہے کہ اس کا ایک ایک مصرعہ دلوں کو چھوتا اور آنکھوں کو نم کرتا چلا جاتا ہے۔
اب دعا کا معاملہ تو یہ ہے کہ جو اس کائنات کو ایک حادثہ اور اتفاق سمجھتے ہیں اور کسی خالق کائنات کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتے وہ بھی وقت پڑنے پر اس کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور جہاں تک مذاہب اور ان کے ماننے والوں کا تعلق ہے تو ان کی تو ساری عبادات ہی کسی نہ کسی حوالے سے دعا کا کوئی روپ ہوتی ہیں اور اس میں بندے اور اس کے رب کے سوا کوئی تیسرا موجود نہیں ہوتا۔ اب رہی یہ بات کہ اثر کے حوالے سے کچھ صاحبان دعا کی دعائیں زیادہ زود اثر اور مستجاب ہوتی ہیں تو یہ وہ علاقہ ہے کہ جہاں معاملہ عقل کی حدوں سے نکل کر عقیدے کے ایک ایسے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے جہاں یقین اور گمان کی سرحدیں ایک ہو جاتی ہیں اور شاعر کو کہنا پڑتا ہے کہ
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے
دیکھا جائے تو ہر مذہب کے ٹھیکے داروں اور استحصالی طبقے میں ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ کہ ان سب نے ''قبول دعا'' کی آڑ میں اپنے آپ کو خدا کا مقرب قرار دے کر ایک ایسے مقام پر فائز کر لیا ہے کہ جیسے ان کی وساطت سے کی جانے والی دعا کو ''شرطیہ منظوری'' کا لائسنس حاصل ہو اور باقی خلق خدا کا مسئلہ کسی لاٹری نما چانس پر منحصر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اصلاح مذہب کی تمام تحریکوں میں خدامست درویش ان صاحبان جبہ و دستار کی مذمت کرتے نظر آتے ہیں جو اپنی ''فضیلت دعا'' کا دعویٰ کر کے بزعم خود جنت کے گیٹ کیپر بن جاتے ہیں اور یوں ان کے دام میں گرفتار ہونے والی خلقت خدا اور دعا دونوں سے دور اور مایوس ہو جاتی ہے۔ کچھ ایسی ہی ایک کیفیت میں بہت سال پہلے ایک حمدیہ نظم لکھنے کے دوران مجھے بھی ''دعا'' کے بارے میں پھیلائے گئے اس غبار نے اپنی لپیٹ میں لے لیا کہ اگر ہماری شہ رگ سے بھی قریب موجود اور ہماری نیت اور ارادوں سے بھی ہمارا رب واقف ہے تو پھر وہ کیوں ہم سے ہماری دعاؤں اور التجاؤں کا طالب ہوتا ہے اور کیوں یہ کہتا ہے کہ مجھ سے کہہ کر مانگو ۔ابھی میں اسی خیال کے حصار ہی میں تھا کہ کہیں غیب سے خود بخود اس کا جواب سامنے آ گیا جو کچھ یوں تھا کہ
دعا میرے محمدؐ کی بہت محبوب سنت ہے
دعا میری نہیں بندے' دعا تیری ضرورت ہے
اور اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی سمجھ میں آ گئی کہ دعا مانگنے والے کے روحانی درجات کی کمی بیشی دعا کی تاثیر اور قبولیت پر بھی کسی نامعلوم طریقے سے اثرانداز ہو سکتی ہے اور یہ کہ اللہ کے نیک بندے اور اصلی صاحبان دعا ہمیشہ کی طرح آج کے دور میں بھی موجود ہیں، یہ اور بات ہے کہ ہماری آنکھیں اصل اور نقل میں پہچان نہ کر سکیں یا حقیقی صاحبان دعا خود کوشش کر کے اپنے آپ کو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رکھیں۔ پاکستان کے خواب اور اس کی تعبیر کے تمام تر معلوم اسباب اپنی جگہ مگر مجھے یقین کامل ہے کہ اس میں ان دعاؤں کا بھی ایک بہت بڑا حصہ ہے جن کے کرنے والوں میں کروڑوں دلوں کے ساتھ ساتھ وہ صاحبان دعا بھی شامل تھے جن پر رب کریم کی خاص نظر اور رحمت ہوتی ہے۔
جب محترمہ زینب رضوان نے فون پر مجھے بتایا کہ وہ اپنی تنظیم آئی پاکستان (I pakistan) کے تحت یوم آزادی کے حوالے سے ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کر رہی ہیں جس کی صدارت سید سرفراز احمد شاہ صاحب کریں گے اور جس میں مجھے وطن کے حوالے سے کچھ کلام بھی سنانا ہے تو یک دم میرا ذہن خود بخود قیام پاکستان کے روحانی پہلو کی طرف مڑ گیا کہ فی زمانہ سرفراز احمد شاہ صاحب کا شمار بھی ان گنتی کی چند روحانی شخصیات میں ہوتا ہے جن کی سچائی اور بڑائی نہ صرف ان کے قول و فعل سے بیک وقت ظاہر ہوتی ہے بلکہ جن سے مل کر ہر بار آپ ذہنی اور روحانی ہر اعتبار سے اپنے آپ کو پہلے سے بہتر اور توانا محسوس کرتے ہیں۔
میں نے زینب بی بی سے مزید تفصیل پوچھے بغیر ہاں کر دی اور دل میں سمجھ لیا کہ غالباً اس روز شاہ صاحب اپنے درس نما لیکچر میں قیام پاکستان کے روحانی پہلوؤں پر بات کریں گے اور اس حوالے سے دعا کے ساتھ اس کا تعلق بھی اجاگر کریں گے کہ وہ صاحب علم بھی ہیں اور صاحب دعا بھی۔ تقریب میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ صاحب صدر یعنی سرفراز شاہ صاحب نے اسٹیج پر خود بیٹھنے کے بجائے ان قومی ہیروز کو بٹھوایا ہے جنہوں نے اپنے اپنے شعبے میں ملک کا نام اور وقار بلند کیا ہے اور خود سامنے حاضرین میں بیٹھے ہیں کہ تقریب کا اصل مقصد نوجوان نسل کے دل و دماغ میں آزادی اور وطن کی محبت کو جاگزین کرنا اور ان شاندار لوگوں کو ہدیہ تعظیم پیش کرنا ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں خدمت وطن میں صرف کر دیں۔
تمام ہیروز کی گفتگو میں ایک خوبصورت اور مشترک بات یہ تھی کہ ہر ایک نے اپنی کامیابیوں اور کامرانیوں کا ذکر انتہائی عاجزی اور انکساری سے کیا اور اس بات کا شدت سے اظہار کیا کہ یہ عزت انھیں اس وطن' اللہ کی رحمت اور بزرگوں کی دعاؤں سے ملی ہے ورنہ شاید آج ان کا کوئی نام بھی جاننے والا نہ ہوتا۔ سرفراز شاہ صاحب کی گفتگو کا مرکزی نقطہ انفرادی اور قومی کردار کی تعمیر اور اس کا طریقہ کار تھی انھوں نے بڑے دل نشین اور سادہ انداز میں نوجوان نسل کو اسٹیج پر موجود ہیروز کی مثالیں دے کر سمجھایا کہ محنت' خلوص نیت اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے استقامت ہی وہ جوہر ہیں جو ان کو اور ان کے وطن کو آگے لے کر جائیں گے اور یہ کہ ''ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا''۔
تنظیم کا نام اور نعرہ آئی پاکستان بہت پسند کیا گیا کہ اس سے ہر شخص کو owner ship کا ایسا روح پرور احساس اور شعور ملتا ہے جس سے ان تمام تفرقوں کو جڑ سے کاٹا جا سکتا ہے جو رنگ' نسل' برادری' صوبے' تعلیم' معاش' مذہب اور زبان کے نام پر ہمارے چاروں طرف پھیلا دیے گئے ہیں کہ اس میں امید بھی ہے اور ارادہ بھی سو میں نے بھی اس کیفیت کو بڑھاوا دینے کے لیے اپنی حاضری اس طرح سے لگوائی کہ
یہ رات اپنے سیاہ پنجوں کو جس قدر بھی دراز کر لے
میں تیرگی کا غبار بن کر نہیں جیؤں گا۔
کرن ہو کتنی نحیف لیکن کرن ہے پھر بھی
یہ ترجماں ہے کہ روشنی کا وجود زندہ ہے
اور جب تک
یہ روشنی کا وجود زندہ ہے
رات اپنے سیاہ پنجوں کو جس قدر بھی دراز کر لے
کہیں سے سورج نکل پڑے گا!!