حمایت علی شاعر بانوے برس کے ہوگئے آخری حصہ
سرور بارہ بنکوی ایک ناکام ترین فلمساز ثابت ہوئے اور تقریباً ایسی ہی صورتحال حمایت علی شاعر کے ساتھ پیش آئی تھی۔
فلم '' لوری'' اپنی خوبصورت کہانی، عمدہ ہدایت کاری ، زیبا ، محمد علی کی خوبصورت اداکاری اور حمایت علی شاعر کے دل میں اترجانے والے گیتوں کی وجہ سے باکس آفس پر ہٹ ثابت ہوئی تھی، لوری کی کامیابی سے حمایت علی شاعر کے حوصلے اور بڑھتے گئے اور پھر انھوں نے '' گڑیا '' کے نام سے دوسری فلم کا آغاز کیا۔ دوسری فلم میں بھی زیبا اور محمدعلی ہی مرکزی کردار میں تھے مگر اس بار اداکارہ زیبا فلم '' گڑیا '' کو وقت نہیں دے رہی تھی اور اس طرح فلم ''گڑیا'' تعطل کا شکار ہوتی چلی گئی۔ پروڈکشن کے اخراجات بڑھتے چلے گئے اور حمایت علی شاعر نے فلم لوری سے جو کچھ کمایا تھا وہ بھی گڑیا کی نذرکردیا مگرگڑیا کسی طرح بھی گرفت میں نہیں آرہی تھی۔ محمد علی نے بھی چپ ہی سادھ لی تھی اور وہ زیبا پر زیادہ دباؤ ڈالنے میں بھی ناکام رہے تھے۔
اس صورتحال سے حمایت علی شاعر اور زیادہ پریشان ہوتے چلے گئے۔ کافی دنوں تک یہ رسہ کشی جاری رہی مگر گڑیا کا کام مزید آگے نہ بڑھ سکا تو پھر حمایت علی شاعر نے مجبور ہوکر گڑیا کی پروڈکشن سے ہی ہاتھ اٹھا لیا اب انھیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ فلم اسٹارز کا اپنا ایک الگ انداز ہوتا ہے یہاں دوستی کی نہ قدر ہوتی ہے اور نہ ہی خاص اہمیت، فلمسازی ایک خالص کاروباری کام ہوتا ہے، اس ہاتھ لو اور اس ہاتھ دو کے اصول ہی سے گاڑی پٹری پر چلتی رہتی ہے ورنہ کسی بھی گاڑی کوکامیابی کا اسٹیشن میسر نہیں ہوتا یہاں مجھے پھر حمایت علی شاعر کے دیرینہ دوست اور لیجنڈ شاعر سرور بارہ بنکوی یاد آگئے وہ جب تک فلمساز نہیں بنے تھے توکامیاب ترین نغمہ نگار تھے۔ ہر فلمساز اور ہر آرٹسٹ کی وہ گڈ بک میں تھے پھر جب انھوں نے بطور فلمساز اپنی فلم ''آخری اسٹیشن'' شروع اور ندیم کے ساتھ شبنم کوکاسٹ کیا وہ پہلی فلم تھی جلدی بن گئی۔ ریلیز ہوئی تو کامیاب بھی ہوئی تھی۔
سرور بارہ بنکوی نے پھر یکے بعد دیگرے دو اور فلمیں ''تم میرے ہو'' اور ''آشنا'' شروع کیں یہ دونوں فلمیں کسی نہ کسی طرح مکمل بھی ہوگئیں اور پھر ریلیز بھی ہوگئیں مگر ان دونوں فلموں میں سارا وہ سرمایہ صرف ہوگیا ، جو سرور بارہ بنکوی نے اپنی پہلی فلم آخری اسٹیشن سے کمایا تھا اور بد قسمتی یہ رہی کہ سرور بارہ بنکوی کی دونوں فلمیں بری طرح فلاپ ہوگئیں اور جتنا بھی سرمایہ تھا وہ ان دو فلموں نے ڈبو دیا ۔ سرور بارہ بنکوی ایک ناکام ترین فلمساز ثابت ہوئے اور تقریباً ایسی ہی صورتحال حمایت علی شاعر کے ساتھ پیش آئی تھی۔
حمایت علی شاعر نے لاہور چھوڑ دیا وہ کراچی واپس آگئے اور پھر انھوں نے ٹیلی ویژن اور شعر و ادب کے دنیا سے اپنا رشتہ استوار کرلیا۔ وہ یہ بھول گئے تھے کہ وہ کبھی فلمساز بھی بنے تھے اور انھوں نے فلمسازی کا سارا نشہ اپنی ذات سے جدا کردیا تھا پھر انھوں نے کراچی، لاہور اور اسلام آباد ٹیلی ویژن کے لیے خوب دل لگاکرکام کیا وہ ایک اچھے رائٹر اور براڈ کاسٹر تھے اور ریڈیو کے ساتھ ساتھ ٹیلی ویژن پر بھی پھر سے ان کی دھاک بیٹھتی چلی گئی۔ انھوں نے بے شمار پروگرام کیے۔
ادبی پروگراموں کے ساتھ موسیقی کے پروگراموں کو بھی بڑے معیاری انداز سے پیش کیا ۔ چند پروگراموں کو تو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی جن میں موسیقی کا ایک خوبصورت پروگرام تھا محبتوں کے سفیر ، لب آزاد اور پھر کچھ عرصہ تک ٹیلی ویژن کے مقبول ترین پروگرام 'کسوٹی' سے بھی وابستہ رہے اور پھر اپنے تمام شعری مجموعوں کو یکجا کرکے ایک ضخیم کتاب کی صورت میں مرتب کیا اور اس کتاب کو ''کلیات شاعر'' کا نام دیا اور 960 صفحات پر مشتمل اس کلیات کو حمایت علی شاعر نے اپنی زندگی کا سرمایہ قرار دیا تھا ۔
میں پندرہ سال پہلے پاکستان چھوڑ کر امریکا آگیا تھا، کافی عرصے تک میری حمایت علی شاعر سے نہ کوئی ملاقات ہوئی اور نہ ہی کوئی رابطہ رہا پھر یوں ہوا کہ ہندو پاک کے نامور شاعر احمد فراز کے انتقال کے بعد امریکا میں ایک ادبی ادارے نے جو خوشبوئے سخن کے نام سے ریاست مشی گن میں قائم تھا ۔ اس نے احمد فرازکی پہلی برسی کا اہتمام کیا اور بیاد احمد فراز ایک مشاعرہ کا بھی انعقاد کیا ۔ اس مشاعرے میں نیو جرسی سے مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا اورکینیڈا سے حمایت علی شاعر بھی تشریف لائے تھے۔
خوشبوئے سخن سے وابستہ مشاعرہ ناہید ورک اور پرویزچوہدری کا میں بھی مشی گن میں مہمان تھا۔ ''بیاد احمد فراز'' کی تقریب اور مشاعرے کی صدارت حمایت علی شاعر نے کی تھی۔ مذکورہ مشاعرے میں امریکا کی مختلف ریاستوں سے بہت سی ادبی شخصیات کو بھی مدعوکیا گیا تھا۔ اکثر شاعروں نے احمد فرازکی کسی نہ کسی غزل کی ردیف اور زمین پر اپنی غزلیں پیش کی تھیں ۔ میں نے بھی ان کی ایک مشہور ترین غزل کی زمین میں ایک غزل کہی تھی جو وہاں پیش کی تھی اس کے چند اشعار قارئین کی نذر ہیں ۔
وقت ایسا نہ کبھی آئے کہ خوابوں میں ملیں
کھلتی کلیوں میں ملیں ہنستے گلابوں میں ملیں
آؤ دنیا سے کہیں دور چلے جائیں ہم
کب تلک ہم یہاں دنیا کے عذابوں میں ملیں
کیسے پہچان کریں دوست اور دشمن کی
سامنے جب بھی وہ آئیں تو نقابوں میں ملیں
حمایت علی شاعر نے احمد فراز کی شخصیت پر کافی دیر تک ایک مدلل گفتگو کی اور احمد فراز کو اپنے خوبصورت الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا، مشاعرہ کی یہ محفل امریکی ریاست مشی گن کی ایک کامیاب ترین تقریب تھی ۔ اس رات جس ہوٹل میں ہمارا قیام تھا میرے اور حمایت علی شاعر کے کمرے برابر برابر ہی تھے۔ حمایت علی شاعر کی یہ محبت اور شفقت تھی کہ وہ اپنا کمرہ چھوڑ کر میرے ہی کمرے میں آگئے تھے اور پھر رات گئے تھے کمرے میں شعر و ادب کی باتیں ہوتی رہیں اور سرور بارہ بنکوی، ڈھاکا کے مشاعرے اور لاہور فلم انڈسٹری کی بے شمار یادیں تازہ ہوتی رہیں اس دوران حمایت علی شاعر نے فلسطین اور فلسطین کے عظیم رہنما یاسر عرفات سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے جو منفرد اشعار کہے تھے وہ بھی سنائے۔ ہائیکو کے انداز میں جو تین مصرعوں پر مشتمل نظم ہوتی ہے، حمایت علی شاعر نے اسے اردو میں ایک نیا نام دیا ہے ''ثلاثی'' پھر انھوں نے اپنی کئی نظمیں جو ثلاثی کی صورت میں تھیں وہ سنائیں اور ہر نظم کو ایک عنوان بھی دیا۔
نمونے کے طور پر ان کی چند ثلاثیاں بھی قارئین کی نذر ہیں۔
جیسے ''الہام'' کے عنوان سے یہ ثلاثی ہے
کوئی تازہ شعر اے ربِ جلیل
ذہن کے غار حرا میں کب سے ہے
فکر محو انتظار جبرائیل
یا پھر ''زاویہ نگاہ'' کے عنوان سے یہ ثلاثی بھی بڑا وزن رکھتی ہے۔
یہ ایک پتھر جو راستے میں پڑا ہوا ہے
اسے محبت تراش لے تو یہی صنم ہے
اسے عقیدت نواز دے تو یہی خدا ہے
حمایت علی شاعر کے ساتھ یہ ایک یادگار ملاقات رہی تھی دوسرے دن وہ کینیڈا کے لیے روانہ ہوگئے تھے اور میں شام کی فلائٹ سے نیو جرسی واپس آگیا تھا۔