بہاولپور جنوبی پنجاب
ووٹوں کی سیاست یا عوامی مسائل حل کرنے کی حقیقی کوشش.
محمدحیات بے چارے پر بڑی افتاد آن پڑی تھی۔ وہ بہاولپور کے دور دراز دیہاتی علاقے کا رہنے والا تھا ۔
علاقے کے بااثر زمیندار نے اس کی زمین اور مکان پر قبضہ کر لیا تھا ، اس کے پاس اراضی تھی ہی کتنی،صرف تین ایکڑ زمین اور چند مرلے کا دو پختہ اور مٹی کے دو کچے کمروں پر مشتمل مکان تھا۔ اس کی برادری والے بھی غریب تھے اور زمیندار کے ڈر سے اسے پناہ دینے سے انکاری تھے۔ تھانے میں شکائت کی تو انھوں نے مدد کرنے کی بجائے طرح طرح کے سوال پوچھنا شروع کر دئیے کہ تم نے ایسا کیا کیا ہے جو زمیندار صاحب نے تمھاری زمین پر قبضہ کر لیا ہے۔ حیات نے بتایا کہ زمیندار اس کی زمین خریدنا چاہتا ہے جبکہ وہ اسے بیچنے کے لئے تیار نہیں، زمیندار نے پٹواری سے مل کر جعلی کاغذات بنوا کر اس کی زمین پر قبضہ کر لیا۔
تھانے والوں نے اس کی مدد کرنے کی بجائے یہ کہہ کر جان چھڑوا لی کہ یہ تو عدالتی معاملہ ہے اس لئے وہاں جائو۔ چارو ناچار اس نے اپنی بیوی اورتین بچوں کو ساتھ لیا اور بہاولپور شہر کا رخ کیا ۔ اس کا ارادہ تھا کہ بیوی بچوں کو رشتہ داروں کے ہاں ٹھہرا کر قانون کے دروازے پر دستک دے گا۔ بہاولپور میں دو تین ہفتے کمشنر اورڈی سی او کے دفاتر کے دھکے کھانے کے بعد وہ بالکل مایوس ہو گیا ، کیونکہ سارا سارا دن دفتر کے باہر گزارنے کے باوجود وہ افسران بالا سے ملنے میں کامیاب نہ ہو سکا تھا اور دفتر کے بابو اسے کل آنے کا کہہ کر ٹرخا دیتے تھے۔
تب اسے اس کے ایک رشتہ دار نے مشورہ دیا کہ وہ لاہور وزیر اعلیٰ یا گورنر سے جا کر ملے اس کی داد رسی ضرور ہو گی۔ مشورہ دینے والے نے تو مشورہ دے دیا تھا مگر حیات بے چارے کے لئے سوچوں کا ایک نیاجہاں آباد ہو گیا ، اب وہ یہی سوچتا رہتا تھا کہ لاہور کیسے پہنچے ، کیوں کہ لاہور وہاں سے تقریباً سوا چار سو کلومیٹر دور تھا اور اچھی بس سروس کے ذریعے وہاں پہنچنے میں کم از کم چار سے پانچ گھنٹے لگتے تھے، اگر نان اے سی یا عام بس کے ذریعے سفر کیا جائے تویہی وقت دو گھنٹے مزید بڑھ جاتا تھا جبکہ کرایہ اے سی بس سروس سے دو سو روپے کم یعنی چار سو روپے تھا۔وزیر اعلیٰ یا گورنر سے ملنے لاہور جانے میں حیات کے لئے سب سے بڑا مسئلہ کرائے کی رقم کا بندوبست کرنا تھا اور پھر مشورہ دینے والے نے یہ بھی کہا تھا کہ اپنی بات میں زور پیدا کرنا ہے تو بیوی بچوں کو بھی ساتھ لے جائو ، وہ یہی سوچتا رہتا تھا کہ اگر وہ اکیلا بھی چلا جائے تو تب بھی کم از کم ہزار، بارہ سو روپے کی ضرورت تھی ، دوسرا مسئلہ لاہور جیسے بڑے شہر میں نا واقفیت کا تھا اسے تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ وزیراعلیٰ کا دفتر کہاں ہے، جب کہیں سے شنوائی کی امید نہ رہی تواس نے فیصلہ کیا کہ کسی سے ادھار پکڑ کر یا پھر گھر کے سامان سے کچھ بیچ کر وہ لاہور ضرور جائے گا تاکہ اپنی زمین حاصل کر سکے۔
ادھار کے لئے رشتہ داروں سے بات کی تو کسی نے بھی ادھار نہ دیا، تھک ہار کر اس نے اپنی بیوی سے بات کی تو اس نے کہا کہ اس کے پاس چاندی کا ہار ہے اسے بیچ دو ۔ امید تو یہ تھی کہ ہارفروخت کرنے سے تین ہزار روپے مل جائیں گے مگر سنار نے کچھ اس حساب سے وزن کیا کہ صرف 2100روپے بنے، مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اس نے بحث کرنے کی بجائے پیسے لئے اور اگلے روز لاہور جانے والی بس میں بیٹھ گیا،ساری رات سفر کرنے کے بعد لاہور پہنچا توپوچھتا پچھاتا وزیر اعلیٰ کے دفتر پہنچا ، سارا دن وہاں انتظار کرتا رہا مگر وزیر اعلیٰ صاحب نہ آئے، یوں اسے رات داتا دربار کے قریب ایک سرائے میں گزارنا پڑی ،دوسرے دن گیا تو ایک صاحب نے اس کی بات سننے کے بعد درخواست لے لی اور کہا کہ وزیر اعلیٰ صاحب بہت مصروف رہتے ہیں جیسے ہی وہ آتے ہیں تو درخواست ان کو پیش کر دی جائے گی،خیر اس دن وزیر اعلیٰ تشریف لائے مگر ان کے ساتھ اتنے پولیس والے تھے کہ حیات کی ہمت ہی نہ پڑی کہ وہ ان کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتا،تھوڑی دیر بعد وہ پہلے والے صاحب سے جا کر ملا تو اس نے کہا کہ تمھاری درخواست وزیر اعلیٰ نے رپورٹ کے لئے آگے بھیج دی ہے، تمھارا کام جلد ہی ہو جائے گا،اب تم جائو۔ حیات نے منت کی کہ وہ اتنی دور سے وزیراعلیٰ صاحب سے ملنے آیا ہے تا کہ اپنی زبانی مسئلہ بیان کر سکے،ابھی وہ یہ بات کر ہی رہے تھا کہ ایک شخص نے آ کر بتایا کہ وزیراعلیٰ صاحب دورے پر نکل گئے ہیں، اسی صاحب نے حیات سے کہا کہ وہ اب جائے کیونکہ وزیراعلیٰ صاحب اب پتہ نہیں کب لوٹیں گے،حیات بڑا مایوس ہوا ، اب اس کے پاس پیسے بھی کم ہی رہ گئے تھے اگر وہ ایک دو روز اور لاہو ر میں رکتا تو شائد واپسی کا کرایہ بھی نہ بچتا،اس نے اپنا معاملہ اللہ کے سپر د کیا اور واپس بہاولپور کی راہ لی۔
یہ مشکلات صرف محمد حیات کو ہی درپیش نہیں بلکہ وہاں کا رہنے والا ہر عام آدمی انھی مسائل سے دوچار ہے،اشرافیہ کی بات اس لئے نہیں کی جا سکتی کیونکہ وہ تو کسی نہ کسی طرح سے ہمیشہ ہی اقتدار کے ایوانوں میں رہے ہیں ان کا ایک گھر ادھر تو دوسرا صوبائی دارالحکومت میں ہوتا ہے،جنوبی پنجاب یا بہاولپورکے رہنے والے بے چارے عام آدمی کو لاہور آنے کی مجبوری بن جائے تو اسے ایک لمبی پلاننگ کرنا پڑتی ہے جیسے وہ پرائے دیس جا رہا ہو، خاص طور پر راجن پور اور ڈیرہ غازی خان والے تو زیادہ مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بہاولپورجنوبی پنجاب سے منتخب ہونے والے سیاستدان ہمیشہ ہی اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں جن میں سابق صدر فاروق لغاری،سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، سابق گورنر لطیف کھوسہ،وزیرخارجہ حنا ربانی کھر،سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی،مخدوم جاوید ہاشمی، نواب ذوالفقار کھوسہ،غلام مصطفی کھراور دیگر بہت سے اہم سیاستدان شامل ہیں مگر موجودہ دور سے پہلے کبھی کسی سیاستدان نے جنوبی پنجاب کو الگ سے صوبہ بنانے کے لئے کوئی خاص کوشش نہیں کی،حالانکہ سرائیکی تحریک تو عرصہ دراز سے چل رہی تھی ، غور طلب پہلو یہ ہے کہ کہیں عوام کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے تو سیاسی پارٹیاں یہ سب نہیں کر رہیں یا پھر وہ واقعی عوام کے مسائل حل کرنا چاہتی ہیں،خاص طور پر الیکشن سے قبل یہ سب کیا جانا بہت سے سوالوں کو جنم دے رہا ہے۔
سابق وفاقی وزیر اطلا عات محمد علی درانی نے مجوزہ صوبے بہاولپور جنوبی پنجاب کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ''صوبوں کے حوالے سے پنجاب اسمبلی میں جو بھی ڈیویلپمنٹ ہوئی تھی، قرار دادیں پاس ہوئی تھیں اسے ہم نئے صوبے بنانے کی سنجیدہ کوشش کہیں گے ، میری نظر میں پنجاب اسمبلی میں جو قرار دادیں متفقہ طور پر پا س ہوئیں ان کے بعد ٹیکنیکلی صوبے بن چکے ہیں ، رہی یہ بات کہ وفاقی سطح پر جو کمیشن قائم کیا گیا تو وہ الگ معاملہ ہے، اس کمیشن نے جو رپورٹ پیش کی ہے اور دو کی بجائے جو ایک صوبہ بنانے کی تجویز دی ہے ، وہ اس نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے، کمیشن کا یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ صوبے ایک یا دو ہونے چاہئیں، انھوں نے یہ سب کر کے ایک نیا پینڈورا باکس کھول دیا ہے،اسی لئے جے یو آئی نے ان سے اختلاف کیا۔ باقی پارٹیوں کی بات کی جائے تو ان کے بارے میں یہی کہوں گا کہ وہ صوبائی اسمبلی کے ساتھ مذاق کر رہی ہیں ، رہی یہ بات کہ مجوزہ صوبے کے مسئلے پر برسراقتدار پارٹی کو سیاسی فائدہ ہوگا تو ایسی کوئی بات نہیں، موجودہ حالات میں اس مسئلے کو چھیڑ کر انھوں نے تو حماقت ہی کی ہے اس سے وہ اپنے ووٹ خراب ہی کر رہے ہیں ۔ انھوں نے نہ اس گھر کو راضی کیا ہے نہ اُس گھر کو، پھر بھلا ان کو سیاسی فائدہ کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔ ''
پنجاب سے الگ سرائیکی صوبے کے لئے عرصہ دراز سے تحریک چلائی جار ہی تھی، گو یہ سب کچھ ان کے طے شدہ پروگرام کے مطابق تو نہیں ہو رہا مگر پھر بھی الگ صوبے کی بات تو شروع ہوئی ہے، اس حوالے سے پاکستان سرائیکی پارٹی کے صدرتاج محمد لنگاہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ''سب سے پہلے تو یہ غلط فہمی دور ہونی چاہئے کہ پنجاب میں جو نیا صوبہ بنایا جا رہا ہے اس کی بنیاد چاہے لسانی ہو یا ایڈ منسٹریٹو یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ملک کے دوسرے صوبے ہیں،اگردوسرے صوبوں کی بنیاد لسانی یا ایڈمنسٹریٹو ہے تو یہ بھی لسانی یا ایڈمنسٹریٹو ہو گا۔ ہماری کوشش تو یہی تھی کہ سرائیکی کے نام پر صوبہ بنتا تاکہ اس کی الگ شناخت ہوتی ، مگر اسٹیبلشمنٹ نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ سرائیکی زبان کی اپنی ایک تاریخ ہے، ثقافت ہے،آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ نعرہ بے بنیاد ہے۔
1848ء تک ملتان کی بالکل اپنی ایک الگ شناخت تھی اس کے بعد اسے لاہور سے منسلک کیا گیا ، اسی طرح سندھ اور بمبئی پہلے ایک ہی صوبے کا حصہ تھے پھر قائد اعظم محمد علی جناح نے اس کے لئے کوشش کی تو وہ الگ الگ صوبہ بنا دئیے گئے ۔ ہمارا چونکہ کوئی لیڈر نہ تھا اس لئے ہمیں الگ شناخت نہ مل سکی، ہمیں وفاق کے اندر خودمختاری چاہئے جیسا کہ دوسرے صوبوں کو حاصل ہے، اگر دوسرے صوبے لسانی ہیں تو پھر یہ صوبہ بھی لسانی ہو سکتا ہے، کیا سندھ کی بنیاد سندھی بولنے والوں کی وجہ سے نہیں ہے یا اسی طرح بلوچستان کو دیکھ لیں، قانون یہی ہے کہ اکثریت کی حکومت ہوتی ہے، جن علاقوں کو سرائیکی کہا جا تا ہے وہاں پنجابی او ردیگر زبانیں بولنے والے پندرہ سے بیس فیصد ہیں، رہا یہ سوال کہ کیا سرائیکی صوبہ بننے سے غیر سرائیکی افراد کے لئے مسائل تو پیدا نہیں ہوں گے تو ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
کیا دوسرے صوبوں میں مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف النسل افراد آباد نہیں ہیں ۔ یہ تو تاریخ کا عمل ہے، اقوام ہمیشہ نقل مکانی کرتی رہتی ہیں اور وہ دوسرے علاقوں میں جا کر آہستہ آہستہ مقامی نسلوں میں ضم ہو جاتی ہیں ۔ یہاں پر بھی آباد ہونے والی اقوام اب یہاں کی ہی باسی ہیں۔ وہ لوگ جو پاکستان بننے کے بعدیہاں آئے ان کی دوسری یا تیسری نسل اب یہاں آباد ہے، اس لئے یہ لوگ تو اب مقامی ہی سمجھے جائیں گے، مزید تیس چالیس سال بعد یہ جو تھوڑا بہت فرق ہے یہ بھی ختم ہو جائے گا۔ حکومت بہاولپور جنوبی پنجاب کے نام سے صوبہ بنانے میں مخلص دکھائی دیتی ہے ،گو ہمیں اس پر بہت سے اعتراضات ہیں مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت بھرپور کوشش کر رہی ہے ، یہ صرف ووٹوں کے حصول کے لئے نہیں کیا جا رہا ۔کمیشن نے رپورٹ دے دی ہے جو قومی اسمبلی کے بعد سینٹ میں جائے گی، جہاں سے پنجاب اسمبلی میں آئے گی، اگر پنجاب نے منظوری نہ دی ،جیسا کہ تاثر دیا جا رہا ہے، تو یہ رپورٹ ادھر ہی پڑی رہے گی ، پھر کوئی نئی اسمبلی آئے گی اور اس ایشو پر کام کرے گی ، اس لئے اب یہ نہیں ہو سکتا کہ اس مسئلے کا حل نہ نکلے''۔
سینئر تجزیہ کار، دانشور رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ نئے صوبے بنائے جانے چاہئیں۔ موجودہ حکومت نے اس کام کے لئے کمیشن بنایا مگر کمیشن کا کام تو فریم ورک بنانا ہوتا ہے کہ آخر کس بنیاد پر صوبے بنائے جانے چاہئیں، کیا لسانی بنیادوں پر یا پھر رقبے یا آبادی کی بنیاد پر۔ اگر لسانی بنیادوں پر صوبے بنائے جائیںتو ہر صوبے میں مختلف زبانیں بولنے والے موجود ہیں جس کے مطابق تو ہر صوبے کو تقسیم کرنا پڑے گا۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت نے اس وقت یہ سیاسی کارڈ کھیلا ہے کیونکہ اسے پتہ ہے کہ شمالی پنجاب سے اسے کچھ نہیں ملنے والا، یہاں پر وہ اپنا مقام کھو چکی ہے اس لئے انھوں نے جنوبی پنجاب کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میرے خیال میں یہ سیاسی حربہ ہے جب تک پنجاب اسمبلی دو تہائی اکثریت سے اس کی منظوری نہیں دے گی، پنجاب کو تقسیم کر کے نیا صوبہ نہیں بنایا جا سکتا۔ بہاولپور کی الگ تاریخی حیثیت ہے جس سے سب واقف ہیں اور وہ پہلے بھی الگ صوبہ رہ چکا ہے اسی طرح ملتان کی بھی الگ حیثیت ہے ۔ اس لئے میرے خیال میں ان دونوں کو الگ الگ صوبہ بنایا جانا چاہئے۔ لسانی بنیادوں پر اگر صوبہ بنایا گیا تو اس سے بگاڑ پیدا ہو گا کیونکہ ہر صوبے میں مختلف زبانیں بولنے والے موجود ہیں ، اس لئے حکومت کو احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ اس معاملے کو سیاسی شوشے کے طور پر نہیں لینا چاہئے۔
ضلع میانوالی کے باسیوں کو مجوزہ صوبے میں شامل کئے جانے پر سخت اعتراض ہے، سابق صوبائی منسٹر ریونیو اینڈ ریلیف اور ایم پی اے گل حمید روکھڑی نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت پنجاب میں جو نیا صوبہ بنانے جا رہی ہے وہ اس حوالے سے قطعاً مخلص نہیں ہے،فاٹا ، ہزارہ اور دوسرے بہت سے علاقوں کے عوام اپنے علاقے کو صوبے کا درجہ دلوانا چاہتے ہیں حکومت ان علاقوں کو کیوں صوبہ نہیں بناتی ، صرف پنجاب کو ہی کیوں تقسیم کیا جا رہا ہے۔ پھر ہمارے ضلع میانوالی کے ساتھ تو خاص طور پر زیادتی ہو رہی ہے ، ہمیں خوامخواہ مجوزہ صوبے میں شامل کیا جا رہا ہے۔ میانوالی بہاولپور سے ساڑھے سات سو کلومیٹر دور ہے، ہمارا ہر طرح سے لاہور کے ساتھ تعلق بنتا ہے ، ہمارا کاروبار، آمد ورفت، تعلیم غرض ہر چیز لاہور سے جڑی ہوئی ہے اس لئے ہم تو یہ کہیں گے کہ ہم سرائیکی نہیں بلکہ پنجابی ہیں اور پھر ہماری ایک تحصیل عیسٰی خیل میں تو ویسے ہی پشتونوں کی اکثریت ہے اس لئے ہم کیسے سرائیکی ہوئے، تاریخی حوالے سے بھی دیکھا جائے تو ہمارا تعلق کبھی بھی سرائیکی پٹی سے نہیں رہا اس لئے ہمیں نئے صوبے میں شامل نہ کیا جائے، اگر ایسا کیا گیا تو یہاں کے عوام اس کے خلاف شدید احتجاج کریں گے، سول نافرمانی کی تحریک چلا نا پڑی تو وہ بھی چلائیں گے۔ جیلوں کو بھر دیں گے، ہم نے اس حوالے سے اسمبلی میں قرارداد بھی پیش کی ہے ، ہمیں مجوزہ صوبہ کسی صورت قبول نہیں ۔
پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات قاضی فیض الاسلام نے کہا ''ہمارا موقف یہ ہے کہ نئے صوبے بننے چاہئیں مگر اس کی بنیاد لسانی یا نسلی نہیں ہونی چاہئے بلکہ یہ صوبے انتظامی بنیادوں پر بنائے جائیں۔ ملک کو اس کی ضرورت بھی ہے۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ جس علاقے کو صوبے کا درجہ دیا جانا ہو وہاں کے لوگوں کی رائے لی جائے، اس سلسلے میں ریفرنڈم کرایا جائے، سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں ہونی چاہئے تاکہ عوام کو صرف تاثر دیا جا سکے کہ ان کے لئے کچھ نہ کچھ کیا جا رہا ہے جس کا مقصد ووٹ حاصل کرنا ہو ،حکومت کی طرف سے موجودہ کوشش بھی سیاسی ہے عوامی نہیں ، اس کا مقصد بھی جنوبی پنجاب کے عوام کی ہمدردیاں حاصل کر کے ان کا ووٹ حاصل کرنا ہے، موجودہ اسمبلیوں میں 80فیصدممبران کا تعلق چند خاندانوں سے ہے جو سیاست پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں اور یہی بار بار اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں اس طرح یہ سارا عمل ہی آلودہ ہو چکا ہے،یہ لوگ عوام کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی ہتھکنڈہ آزماتے رہتے ہیں، بہاولپور جنوبی پنجاب کے مجوزہ صوبے کے حوالے سے یہی کہوں گا کہ یہ سیاسی کھیل کے طور پر کیا جا رہا ہے، اس علاقے میں ریفرنڈم کرانے میں الیکشن کمیشن کردار ادا کر سکتا ہے ، یوں یہ فیصلہ سیاسی کے بجائے عوام ہو گا۔''
سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل پاکستان ایڈووکیٹ سپریم کورٹ مخدوم تنویر ہاشمی نے کہا ''میرے خیال میں نئے صوبے بنائے جانے چاہئیں اس سے عوام کو ریلیف ملتا ہے۔ ذرا ندازہ کریں اگر کسی شخص نے ضروری کام کے سلسلے میں ڈی جی خان سے لاہور آنا ہو تو اسے کتنا سفر کرنا پڑے گا ۔ انگلستان کی مثال آپ کے سامنے ہے وہاں کائونٹیز بنی ہوئی ہیں جو اپنے علاقے کے تمام معاملات کو دیکھتی ہیں یعنی کسی شہری کو سرکاری کام کاج کے سلسلے میں دور دراز کا سفر نہیں کرنا پڑتا۔
حکومت قومی اور عالمی سطح کے معاملات کو دیکھتی ہے ، صحت ،تعلیم وغیرہ کے تمام معاملات کائونٹیز کی انتظامیہ ہی نبٹاتی ہیں۔ موجودہ حکومت نے اس وقت جو بہاولپور جنوبی پنجاب کا ایشو اٹھایا ہے تو یہ خالصتاً سیاسی بنیا دوں پر ہے، الیکشن چونکہ نزدیک ہے تو اس لئے ایسا کیا جا رہا ہے تا کہ اس علاقے سے ووٹ حاصل کئے جا سکیں مگر حقیقت یہ ہے کہ مجوزہ صوبہ نہیں بن سکے گا کیونکہ جب دوسرے علاقوں میں صوبے بنانے کے لئے مہم چلی تھی جیسے ہزارہ صوبہ تو کیا جنوبی پنجاب والوں نے اسے سپورٹ کیا تھا، اب جبکہ جنوبی پنجاب والے اپنے علاقے کو صوبے کا درجہ دلانا چاہتے ہیں تو ایسی صورت میں وہ انھیں کیوں سپورٹ کریں گے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ آئین کے مطابق جس صوبے کو تقسیم کر کے نیا صوبہ بنایا جانا ضروری ہوتو سب سے پہلے اسی صوبے کی اسمبلی میں بل پیش کیا جائے گا جسے اسمبلی ممبران دو تہائی اکثریت سے پاس کریں گے ، اس کے بعد یہ بل قومی اسمبلی اور پھر سینٹ میں جائے گا جس کے بعد نیا صوبہ بن سکے گا۔ چونکہ پنجاب مجوزہ صوبے کی مخالفت کر رہا ہے تو یہ نہیں بن سکے گا، مگر میری ذاتی رائے یہی ہے کہ نئے صوبے بنائے جانے چاہئیں جن کی بنیا د انتظامی ہو تا کہ عوام کو ریلیف مل سکے''۔
نئے صوبے کے ایشو پر جنوبی پنجاب کے عام لوگوں اور طالب علموں سے جب رائے لی گئی تو ملے جلے رجحانات اور خیالات سامنے آئے۔بہائو الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے جن طلباء سے رائے لی گئی ان میں سے اکثریت کا خیال تھا کہ نیا صوبہ انتظامی بنیادوں پر بننا چاہئے،یونیورسٹی کے ایگری کلچر انجینئر نگ کے سینئر طلباء عامر اسماعیل ، خالد امین، سفیان صدیق ، ندیم امین اور سعد ہاشمی کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب میں انتظامی بنیادوں پر صوبہ بننا چاہئے جبکہ طالب علم آفتاب قمر کی رائے میں نئے صوبے کی ضرورت نہیں ہے،ملتان کی تحصیل جلال پور پیر والاسے تعلق رکھنے والے جنید رضا خواجہ کہتے ہیں کہ سرائیکی صوبہ بننا چاہئے۔ سیکیورٹی گارڈز نذر محمد اور شہباز انتظامی بنیادوں پر نئے صوبے کے حامی ہیں ۔ کینٹین مالک راناعبدالستار نے کہا کہ صوبہ بنے یا نہ بنے علاقے کے غریبوں کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
مسلم لیگ ن نے پنجاب اسمبلی میں ایک نہیں بلکہ دوصوبوں ہزارہ اور جنوبی پنجاب کے حوالے سے قراردادیںمنظور کرائی تھیں جبکہ وفاقی حکومت کی طرف سے قائم کئے گئے کمیشن نے بہاولپور جنوبی پنجاب کے نا م سے ایک ہی صوبہ بنانے کی تجویز دی ہے جس میں بہاولپور، ڈیرہ غازیخان اورملتان ڈویژن کے علاوہ بھکر اور میانوالی کے دو اضلاع شامل ہیں جس پر اکثر سیاسی پارٹیوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی آبادی جس طرح سے بڑھ رہی ہے، ضرورت ہے کہ نئے صوبے بنائے جانے چاہئیں مگر یہ کام وسیع پیمانے پر مشاورت کا متقاضی ہے اور اس کی بنیاد انتظامی ہو چاہے اس کے لئے زبان،ثقافت اور دیگر پہلوئوں کو مدنظر رکھا جائے۔انتظامی بنیادوں کو مدنظر رکھنے سے ہی عوام کو صحیح معنوں میں فائدہ پہنچے گا، ایک اور پہلوکو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ صوبوں کے دور دراز اضلاع کے باسی ہمیشہ ہی احساس محرومی کا شکار رہے ہیں اس لئے وسائل کی تقسیم منصفانہ ہونی چاہئے اور یہی وہ بنیاد ہے جو ملک و قوم کے جذبہ یکجہتی کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
سرائیکی تحریک:
یوں تو سرائیکی زبان صدیوں سے جنوبی پنجاب میں بولی جا رہی ہے مگر اس کو علیحدہ زبان کے طور پر شناخت دینے کے لئے 1960میں باقاعدہ کوشش شروع کی گئی جس کے روح رواں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ریاض ہاشمی تھے، اس کے ساتھ ساتھ بہاولپور صوبہ کی بحالی کی کوششیں بھی جاری تھیں ، یوں ایک پنتھ دو کاج والا معاملہ ہوا ، ان دونوں تحریکوں کے ایک دوسرے پر اثرات پڑے اور پنجاب سے الگ ایک نیا صوبہ سرائیکستان یا روہی کے قیام کی باتیں کی جانے لگیں اور یہ نظریہ 1970ء تک باقاعدہ ایک مطالبے کی شکل اختیار کر گیا اور سرائیکستان کے لئے سیاسی پارٹیاں اور گروپ منظم ہونے لگے۔1970 ء سے1977ء تک پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی سرائیکی صوبے کے لئے آواز اٹھائی جاتی رہی۔
اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کا دور اقتدار شروع ہوا تو مارشل لاء کی وجہ سے سرائیکی تحریک پس پردہ چلی گئی اور اس کیلئے کوششیں کرنے والوں نے خاموشی اختیار کر لی۔1988ء میں جنرل ضیاء الحق کی وفات کے بعدسرائیکی تحریک دوبارہ ابھری ، ان کے مقاصد سرائیکی زبان کو شناخت دینا،پاکستان کی فوج میں سرائیکی رجمنٹ کا قیام، نوکریوں میں کوٹہ، سرائیکی زبان میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا قیام تھا۔2002ء کے ایک اندازے کے مطابق پنجاب، سندھ ، بلوچستان اور بہاولپورمیں 15ملین افراد سرائیکی زبان بولتے تھے، اب یہ تعداد دوگنا سے بھی زائد ہو چکی ہے۔
سرائیکی صوبے کے قیام کے لئے بہت سی پارٹیا ں اور گروہ کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان قومی اتحاد کے چیئر مین کرنل (ر) عبدالجبار عباسی ہیں جو 17دسمبر2005میں پارٹی کے بانی چیئر مین صاحبزادہ محمد دائود خان عباسی کے بعد چیئر مین بنے پارٹی کا مرکزی دفتر رحیم یارخان میں ہے۔ پاکستان سرائیکی پارٹی کے صدر تاج محمد لنگاہ ہیںپارٹی کا مرکزی دفتر ملتان میں ہے۔ سرائیکستان یوتھ پارلیمنٹ کے مرکزی لیڈر محمد فراز نون ہیں پارٹی کا صدر دفترملتان میں ہے۔ سرائیکی موومنٹ کا قیام 1988ء میں کراچی میں عمل میں آیا اس کی بانی بی بی شاہدہ ناز ہیں ۔ سرائیکی قومی موومنٹ کے صدر حمید اصغر شاہین ہیں اس کا مرکزی دفترڈیرہ غازی خان میں ہے۔ سرائیکی نیشنل پارٹی کے صدر عبدالمجید کانجو ہیں ، پارٹی کا مرکزی دفتررحیم یارخان میں ہے ۔ سرائیکی قومی اتحاد کے صدر خواجہ غلام فرید ثانی ہیں ، پارٹی آفس مٹھن کوٹ میں ہے۔ سرائیکی صوبہ موومنٹ کے صدر ملک ممتاز حسین ہیں۔سرائیکی تحریک کی تمام پارٹیوں اور گروپوں کے تین بڑے مقاصد ہیں۔
٭پنجاب کے جنوبی علاقوں میں ایک علیحدہ صوبے کا قیام، جس میں ضلع رحیم یار خان، بہاولپور، بہاولنگر، ملتان، لودھراں، وہاڑی، خانیوال، سرگودھا، جھنگ، مظفر گڑھ، لیہ،بھکر،میانوالی، خوشاب، راجن پور، ڈیرہ غازی خان اور ڈیرہ اسماعیل خان شامل ہوں گے۔
٭جب تک الگ صوبہ نہیں بنایا جاتا، جنوبی پنجاب کے علاقوں کے لئے زیادہ بجٹ کے لئے کوشش کرنا۔
٭سرائیکی زبان کو جنوبی پنجاب میں اردو کے ساتھ ساتھ بطور سرکاری زبان کے رائج کرنے کے لئے کوشش کرنا۔
سرائیکستان یا روہی کے نام سے الگ صوبے کے کوشش کرنے والی تمام جماعتیں گو اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکیں مگر انھوں نے عوام میں اس مسئلے کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ریاست بہاولپور کی تاریخ:
بہاولپور پر حکمرانی کرنے والے خاندان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا نسب عباسی خلفاء سے جا ملتا ہے جبکہ کچھ کی رائے ہے کہ ان کا تعلق سندھ کے دائود پوتا خاندان سے ہے ،تاہم اتنا ضرور ہے کہ بہاولپور کا نواب خاندان سندھ سے اس علاقے میں آکر آباد ہوا تھا اور انھوں نے یہاں آ کر کھیتی باڑی کو اپنایا اور اپنے تعلقات اور قابلیت کی بناء پر ایک وسیع جاگیر بنائی تاہم ریاست بہاولپور کی بنیاد 1690ء میں نواب بہادر خان سوئم نے رکھی مگر اس وقت اسے خودمختار ریاست کی حیثیت حاصل نہ تھی ۔ برصغیر میں انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی تو نواب بہاول خان سوئم نے انگریزوں سے معاہد ہ کیا جس کے بعد بہاولپورکو بطور خود مختار ریاست کے تسلیم کر لیا گیا اور نواب بہاول خان سوئم کے نام پر ریاست کا نام بہاولپور رکھا گیا ۔ ریاست کا رقبہ 45911مربع کلومیٹر تھا اور اس کا دارالخلافہ بہاولپور سٹی قرار پایا۔
بہاولپور کے پہلے حکمران نواب بہادر خان سوئم نے 1702ء تک یعنی صرف بارہ سال حکومت کی ۔ ان کے بعد ان کے بیٹے نواب مبارک خان اول نے اقتدار سنبھالااور 1723ء تک حکومت کی ، پھر نواب صادق محمد خان اول حکمران بنے انھوں نے 1746ء تک حکمرانی کی ۔ نواب محمد بہاول خان نواب بنے تو انھوں نے 1750ء تک راج کیا ، اس کے بعد نواب مبارک خان دوئم کی باری آئی انھوں نے 1772ء تک اقتدار سنبھالا،محمد بہاول خان دوئم نواب بنے تو وہ 1809ء تک اقتدار کی گدی پر براجمان رہے،صادق محمد خان دوئم 1826ء تک نواب رہے۔ اس کے بعد محمد بہاول خان سوئم کی باری آئی انھوں نے نواب بنتے ہی انگریزوں سے مل کر ریاست کو حقیقی معنوں میں مضبوط کیا، یوں نوابوں کا یہ سلسلہ چلتا رہا اور بتدریج صادق خان سوئم ، فتح محمد خان ، محمد بہاول خان چہارم، صادق محمد خان چہارم اور محمد بہاول خان پنجم نے ریاست پر حکمرانی کی ، ریاست کے آخری نواب صادق محمد خان پنجم نے 1907ء میں اقتدار سنبھالا اور 1955ء تک برسر اقتدار رہے۔
ریاست کے صرف دو وزرائے اعظم ہوئے ، پہلے سر رچرڈ مارش کرافٹون تھے جو 1942ء سے 1947ء تک اپنے عہدے پر رہے ، پاکستان بننے کے بعداے آر خان وزیر اعظم بنے جو 1955تک وزیر اعظم رہے۔ ان تمام سالوں میں ریاست بہاولپور پر دو مرتبہ ایسا وقت آیا جب وہ وہ بڑی سلطنتوں کے زیر سایہ رہی ، پہلا دور مغلوں کا ہے تب 1802ء سے 1858ء تک ریاست کے حکمرانوں کو مغل بادشاہوں کی آشیر باد حاصل تھی اور ریاست کے حکمران بھی مغل بادشاہوں سے مکمل تعاون کرتے تھے ، اس کے بعد انگریزوں کا دور اقتدار شروع ہوا تو تب ان کے ساتھ کئے گئے معاہدوں پر مکمل عمل درآمد کیا گیااور 1947ء تک ریاست کو انگریز حکمرانوں کی طرف سے ہر طرح کی حمایت حاصل تھی۔ جب برصغیر کا بٹوارہ ہوا تو ریاست بہاولپور کے نواب صادق محمد خان پنجم نے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا ، اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی حکومت سے ہر ممکن تعاون کیا حتٰی کہ پاکستان کے سرکاری ملازمین کی پہلی تنخواہ نواب صادق محمد خان نے ریاست کے خزانے سے ادا کی ۔
نواب صادق محمد خان نے حکومت پاکستان کے ساتھ 1951ء میں معاہدہ کیا جس کے تحت ریاست بہاولپورکو پاکستان میں ضم کر کے صوبے کی حیثیت دے دی گئی اور نواب صاحب کو صوبے کا سرپرست اور نواب کا لقب برقرار رکھا گیا، صوبہ بننے کے بعد اسمبلی قائم کی گئی جس نے چار سال بعد ون یونٹ نظام کے تحت صوبہ بہاولپور کو مغربی پاکستان میں ضم کر دیا تھا ، یوں ریاست اور صوبہ بہاولپور اپنی اصل حیثیت کھو بیٹھا۔ ملک میں جب ون یونٹ نظام ختم کیا گیا تواصولی طور پر تمام صوبوں کی طرح صوبہ بہاولپور کو بھی بحال کر دیا جانا چاہئے تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا اور اسے پنجاب کا حصہ قرار دے دیا گیا ، صوبہ بہاولپور کی بحالی کے لئے جب تحریک چلائی گئی اور احتجاج کرنے کے لئے عوام سڑکوں پر آ گئے تو اسے طاقت سے روکا گیا ، فوج طلب کر لی گئی اور کرفیو نافذ کر کے صوبہ کی بحالی کے لئے کوشش کرنے والی تنظیم بہاولپورصوبہ محاذ کی تمام قیادت کو گرفتار کر لیا گیا ، یوں یہ مسئلہ آج تک حل طلب ہے۔
تہذیب و ثقافت کے حوالے سے بہاولپور کی تاریخ بہت پرانی ہے۔1791ء میں نواب بہاولپور دوئم نے ایک خوبصورت محل تعمیر کرایا جسے نور محل کہتے ہیں ، اب یہ تاریخی محل سرکاری دفاتر کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ریاست بہاولپور نے اپنے ڈاک ٹکٹ بھی جاری کئے تھے، پہلا ڈاک ٹکٹ یکم جنوری 1945ء کو جاری کیا گیا ، دوسرا یادگاری ڈاک ٹکٹ یکم دسمبر 1947ء کو جاری کیا گیا ، اکتوبر 1949ء کو یونیورسل پوسٹل یونین کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر بھی ریاست بہاولپور کی طرف سے یادگاری ٹکٹ جاری کیا گیا ۔ بہاولپور کی جدید عمارات میں لائبریری، سٹیڈیم، صادق ایجرٹن کالج، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور،قائد اعظم میڈیکل کالج، وکٹوریہ ہسپتال،انجینئر نگ کالج اور طلباء و طالبات کے لئے متعدد کالج اور فنی ادارے شامل ہیں۔ بہاولپور کا چڑیا گھر اور سٹیڈیم بہت شہرت کے حامل ہیں ۔ موجودہ بہاولپور ڈویژن میں تین اضلاع بہاولپور،بہاول نگراور رحیم یا رخان شامل ہیں ۔بہاولپور تجارت اور معاشی سرگرمیوں میں بھی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں گندم ، کپاس، چاول، کھجور اور آم بکثرت پائے جاتے ہیں ۔ زرعی لحاظ سے بہاولپور کو ایک زرخیز ترین علاقہ شمار کیا جاتا ہے،یہاں سیاحت کے لئے چولستان صحرا، قلعہ دراوڑ،اوچ شریف کا مزار اور صادق محل قابل ذکر ہیں ۔