سادگی کاعدم وجود
شائدآپکے ذہن میں سوال اُٹھے کہ دشمن ملک کے ایک صدرکی سادگی پرکیوں لکھ رہا ہوں۔ وہ توہمارادشمن ہے۔
بھارتی صدرسے کیرالاریاست کے سرکاری دورہ میں پوچھاگیاکہ کن لوگوں سے ملناچاہیے گا۔عملہ کے ذہن میں تھاکہ کیونکہ ڈاکٹرعبدلاسلام نے تحقیق کازیادہ عرصہ اسی خطہ میں گزراہے لہذا معززین کی ایک طویل فہرست دی جائے گی اور بھاری بھرکم سماجی شخصیات کوسرکاری ضیافت میں مدعو کیا جائیگا۔ اہم لوگوں کوبطورمہمان بلوانے کے لیے "صدارتی محل" کے آداب کے مطابق بیش قیمت گاڑیاں اورپگڑی والے ڈرائیوربھیجے جائینگے۔عملہ سوچتارہاکہ اب فہرست آئی،کہ اب۔دہلی کے "راج بھون"سے باہر صدر کا پہلاسرکاری دورہ تھا۔
سیکریٹری نے دوبارڈاکٹرصاحب سے ادب سے پوچھاکہ کل کن کن کوملاقات کے لیے مدعو کیا جائے۔عبدالسلام نے بڑی سادگی سے اسٹاف کوصرف اور صرف دونام دیے۔ جب یہ نامزدلوگوں کی چھوٹی سی فہرست سیکریٹری کے پاس پہنچی،تواسے کرنٹ سالگا۔ تیز تیز چلتا ہوا صدرکے کمرے میں پہنچا۔نام اس کے سامنے رکھے اور پوچھاکہ کیاانکو، انکوواقعی سرکاری ملاقات کے لیے بلوانا ہے۔
صدرنے کہاکہ ہاں،میں صرف اورصرف انھی دوآدمیوں سے ملناچاہتاہوں۔سیکریٹری شرمندہ ساہوکرواپس دفتر میں آکربیٹھ گیا۔عملہ کوبلایااورنام حوالے کردیے۔عملہ بھی نام دیکھ کرسکتہ میں چلاگیا۔مگریہ صدرکاسرکاری حکم تھا لہذا ماننا بھی ضروری تھا۔ دونوں نام عبدلاسلام کے لیے بہت اہم تھے۔پہلاشخص ایک موچی تھا۔ جہاں صدراکثراپنے ٹوٹے ہوئے جوتوں کی مرمت کے لیے خود جاتا تھا۔ دوسرا شخص، چائے بیچنے والاخوانچہ فروش تھا۔ موچی کے نزدیک ہی چائے بناکرلوگوں کو بیچتا تھا۔یہاں صدرروزانہ چائے پیتا تھا۔دونوں دراصل انتہائی غریب اور بے نام سے لوگ تھے۔ایسے عام لوگوں کی طرف کوئی پلٹ کردیکھنابھی نہیں چاہتا۔
صدرکے سیکریٹری نے دونوں کو تلاش کیا اور صدارتی دعوت نامہ بھی بھجوادیا۔اگلے دن ڈاکٹر عبدالاسلام کے معززملاقاتی کیرالے کے"صدارتی محل" میں آگئے۔گپیں لگنی شروع ہوگئیں۔عبدالسلام بڑے آرام سے صوفے سے اُتر کر ڈرائینگ روم کے فرش پربیٹھ گیا۔ موچی اور چائے والاتوزندگی میں کبھی صوفے پرنہیں بیٹھے تھے۔ لہذا وہ دونوں بھی پھسکڑامارکرزمین پربراجمان ہوگئے۔ دو ڈھائی گھنٹے کی ملاقات کے بعددونوں معزز مہمان واپس چلے گئے۔سیکریٹری اورعملہ اپنے صدرکی سادگی دیکھ کر حیران رہ گئے۔ان کی نظرمیں اس شخص کی قدرومنزلت میں مزیداضافہ ہوگیا۔
بات کوآگے بڑھانے سے پہلے اس طرح کے چند سچے واقعات لکھناچاہونگا۔چندبرس پہلے آئی آئی ٹی دیراناسی یونیورسٹی میں تقسیم اسنادکی سالانہ تقریب تھی۔سیکڑوں لڑکے اورلڑکیاں تعلیمی سفرختم کرکے عملی دنیا میں جانے کے پرتول رہے تھے۔مہمان خصوصی عبدالسلام تھا۔خیر وقت پر صدرکومقررکردہ روٹ سے ہال میں لایا گیا۔جب اسٹیج پر پہنچاتودیکھاکہ پانچ کرسیاں لگی ہوئی ہیں۔درمیانی کرسی شاہانہ بھی تھی اورسب سے اونچی بھی۔باقی چار کرسیاں چھوٹے سائزکی تھیں اور یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور پروفیسرحضرات کے لیے مخصوص تھیں۔اس عدم توازن کودیکھ کر ڈاکٹرنے اسٹیج پر جانے سے انکارکردیا۔
وائس چانسلرکوتہذیب سے بتایاکہ بڑے سائزکی کرسی پرنہیں بیٹھے گا۔ہاں،اس پر کوئی بیٹھنے کا حق رکھتاہے توصرف اورصرف یونیورسٹی کا سربراہ یعنی وائس چانسلر۔برصغیرمیں چونکہ ابھی تک مرعوبیت درمرعوبیت کا کلچربہت حاوی ہے۔لہذاوائس چانسلرنے تمیزسے گزارش کی کہ ملکی صدرسے بڑی کرسی پرنہیں بیٹھ سکتا۔کیونکہ یہ سرکاری آداب کے خلاف ہے۔صدرنے اسٹیج پرجانے سے انکار کردیا۔انتظامیہ کے لیے مسئلہ کھڑا ہوگیا۔ فوری طور پر پانچویں کرسی کا انتظام کیا گیا جو سائز اورحجم میں باقی کرسیوں کے برابرتھی۔جب اسٹیج پرایک جیسی نشستوں کا انتظام ہوگیاتوصدراسٹیج پرجانے کے لیے آمادہ ہوا۔
بالکل اسی طرح جب عبدالسلام،ہندوستان کاصدر بنا،تودفترآنے کے بعداس نے اکاؤنٹنٹ کوبلوایا۔ پہلا واقعہ تھاکہ اتنی بلندسطح پرفائزانسان،ایک کلرک کی سطح کے شخص کوسوالات پوچھنے کے لیے بلائے۔اکاؤنٹنٹ ہانپتا کا نپتا صدر کے دفترمیں داخل ہوا۔اسے پسینے آئے ہوئے تھے۔ آوازمیں بھی ہکلاہٹ آچکی تھی۔صدرنے بڑے آرام سے بٹھایا۔نزدیک پڑے ہوئے جگ سے ٹھنڈاپانی گلاس میں ڈال کرپلایا۔جب اکاؤنٹنٹ کااعتمادبحال ہوگیا تو صدرنے پوچھاکہ بحیثیت صدر ماہانہ تنخواہ کتنی ہوگی اور کب تک ملتی رہیگی۔
سوال اتناعجیب تھاکہ اکاؤنٹنٹ حیران رہ گیا۔ صدر کی تنخواہ بتائی۔یہ بھی بتادیاکہ صدارت کا دورانیہ ختم ہونے کے بعدبھی بقیہ زندگی صدرکی پنشن ملتی رہے گی۔عبدلاسلام کادوسراسوال تھاکہ کیایہ سب کچھ مروجہ قوانین کے مطابق ہے۔جواب اثبات میں تھا۔اکاؤنٹنٹ کے واپس جانے کے بعد، عملہ کوکہاکہ آدھاگھنٹہ ذاتی کام کررہاہے لہذاکوئی فون نہ ملایاجائے۔ناکوئی ملاقاتی ہی آئے۔تیس منٹ تک عبدلاسلام تمام زندگی کے اثاثہ جات اوربحیثیت سرکاری ملازم پنشن وغیرہ کاحساب کرتا رہا۔
حساب کتاب کے بعد، حکومتی سیکریٹری کوبلایااورایک کاغذ حوالے کیا۔ کاغذ پر صدر کے تمام ذاتی اثاثے،بینک اکاؤنٹ اورجائیدادکی تفصیل درج تھی۔ سیکریٹری سمجھاکہ قوانین کے مطابق صدرذاتی اثاثے ڈیکلیئر کررہا ہے۔ مگر عبدالاسلام کافیصلہ بے حد حیرت انگیزتھا۔حکم دیاکہ اس کی تمام دولت،پرانی پنشن اور اثاثے ایک ٹرسٹ کودے دیے جائیں۔اس ٹرسٹ کانام پوراتھا۔اور دیہی علاقوں میں ترقی کاکام کررہی تھی۔ صدر نے تمام دولت خیرات کردی۔
سیکریٹری نے پوچھاکہ اپنی ذات کے لیے کسی قسم کے کوئی بھی ذرایع آمدن نہیں بچا رہے۔ ڈاکٹر نے سمجھانے کے لہجے میں بتایاکہ اس کی ضروریات حد درجہ کم ہیں۔ مزیدازاں اب قانون کے مطابق مرتے دم تک صدرکی پنشن ملتی رہے گی۔جواس کی ضرورتوں سے بہت زیادہ ہے۔لہذااسے کسی قسم کی ذاتی دولت کی قطعاکوئی ضرورت نہیں۔اس عطیہ سے اگرغریب لوگوں کوصاف پانی اور دیگر سہولیات میسرآگئیں،تویہ اس کی زندگی کاسب سے بڑاانعام ہوگا۔حسب حکم بھارتی صدرکی تمام دولت خیرات کردی گئی۔
عبدلاسلام صدربننے سے پہلے سائنسی تحقیق کے ایک دفاعی محکمہ میں کام کرتاتھا۔تقریباًپوری عمراسی طرح کے محکموں میں کام کرتے گزری تھی۔ایک دن لیباٹری کے سربراہ نے بلایا اوربہت بڑی خوشخبری سنائی۔عبدلاسلام کوبھارتی وزیراعظم نے" تمغہِ حسنِ کارکردگی" دینے کااعلان کیا تھا۔ کسی بھی ملک کے سائنسدان کے لیے انتہائی ذاتی خوشی کی بات ہوتی ہے کہ ریاست اس کی خدمات کااعتراف کرے۔ عبدلاسلام بے حدخوش ہوا۔پورے ادارے میں خبرپھیل گئی۔مبارک باد دینے والوں کی قطاریں لگ گئیں۔دودن کے بعدعبدالسلام ادارے کے سربراہ کے پاس گیا۔کہنے لگاکہ وزیراعظم کے پاس نہیں جاسکتا۔سربراہ جواب سنکرششدررہ گیا۔
مسلسل پوچھنے پرڈاکٹر کاجواب تھا،کہ وزیراعظم کی سرکاری نشست اورتمغہ اس کے لیے بہت اہم ہیں۔اس پربہت خوشی بھی ہے۔ مگراصل دشواری یہ ہے کہ اس بلندسطح کے فنکشن کی مناسبت سے اس کے پاس مناسب کپڑے نہیں ہیں۔سربراہ حقہ بکہ رہ گیا۔سوچنے کے بعدمشورہ دیاکہ ڈاکٹرصاحب آپ، روزانہ جو کپڑے پہن کردفترآتے ہیںبالکل وہی پہن کر انعام لینے چلے جائیے۔ کیاآپ یقین فرمائینگے کہ وزیراعظم سے انعام وصول کرنے کے لیے انتہائی ادنیٰ سے کپڑوں میں ملبوس وہاں پہنچ گیا۔جیسے ہی ہال میں داخل ہوکر نشست کی طرف جانے لگاتوتمام مہمان تکریم میں کھڑے ہوگئے۔ جب تک اپنی جگہ پرنہ بیٹھ گیا،لوگ تالیاں بجاتے رہے۔
شائدآپکے ذہن میں سوال اُٹھے کہ دشمن ملک کے ایک صدرکی سادگی پرکیوں لکھ رہاہوں۔وہ توہمارادشمن ہے۔ بالکل درست بات ہے کہ ہندوستان میں ہمارے خلاف شدت پسندرویہ موجودہے۔دراصل ذہن پرسادگی کی بے شمارمثالیں دستک رے رہی ہیں۔مہذب دنیاکی بھی اور چند ترقی پذیرملکوں کی بھی۔مگربرصغیرکے تناظرمیں ایسی مثالیں بہت ہی کم ہیں۔آٹے میں نمک کے برابر۔یاشائداس سے بھی کم۔بغیرتعصب کے،اچھی بات یاکام جہاں بھی ملے، اس کی توصیف کرنی چاہیے۔
ہاں،اگرتعصب برتاجائے تو پھر بالکل دوسری بات ہے۔اپنے ملک کی طرف آتا ہوں۔ مجھے کسی صدر، وزیرا عظم، وزیراعلیٰ، وزیریاکوئی مقتدرشخص کا نام بتادیجئے۔جس نے اپنی تمام دولت ملک کے لوگوں کی بہتری کے لیے خیرات کرڈالی ہو۔ایک بھی ارب پتی کااسمِ گرامی بتادیجئے جواپنے بچوں کے مالی مفادات کی نفی کرکے تمام دولت عام لوگوں کی بھلائی کے لیے وقف کر دے۔ کیا اتنا ظرف نظرآتاہے کہ کوئی دولت مندشخص ذات سے اُٹھ کر اردگردکے غریب اشخاص کی تکلیف اوردردمحسوس کرے اورانھیں دورکرنے کے لیے اپناسب کچھ قربان کرڈالے۔ کم ازکم طالبعلم کوایسے لوگ دوردورتک نظرنہیں آتے۔
ہمارے ہاں کاسماجی اورخیراتی کلچربھی بے حدمنافقانہ ہے۔ چند بڑے سرمایہ کارپہلے توقوم کی ہڈیاں تک چوس جاتے ہیں۔ انکولوٹ کراپنی تجوریاں بھرلیتے ہیں۔انھیں بربادکرکے دولت کے انباراکٹھے کرتے ہیں۔پھرآخرمیں چند سکے دیکر "دسترخوان"شروع کردیتے ہیں۔جہاں غریبوں کومفت کھانادیاجاتاہے۔کوئی سوال نہیں کرسکتاکہ جناب آپ تو دہائیوں سے لوگوں کوبیوقوف بناکردولت سمیٹ رہے ہیں۔ ذرا اسکاحساب تودے ڈالیے۔ مگر "لنگرخانے" کھول کرتلخ سوالات سے بڑے آرام سے مفرحاصل ہو جاتاہے۔
بالکل اسی طرح،اسپتالوں میں کمرے بنوانا شروع کردیتے ہیں۔چندغریبوں کی مالی امدادکرکے اپنا فرض پوراکرلیتے ہیں۔اگرپوچھاجائے کہ جناب تیس برس پہلے توآپ خودمزدوری کرتے تھے۔آج یہ سب کچھ کیسے آگیا۔جواب بہت سادہ ساہوتاہے۔کہ بس "خدا کا فضل" ہے۔میراعقیدہ ہے کہ خداکافضل صرف اورصرف جائز ذرایع آمدن سے ہی حلال گرداناجاسکتاہے۔لوگوں کاخون چوسنے سے دولت حاصل کرنامکمل طورپرہمارے عظیم مذہب کی تعلیمات کی نفی ہے۔ مگریہاں توآوے کاآوہ ہی بگاڑبلکہ سڑاند کا شکار ہے۔
یہاں تولوگوں کی سماجی خدمت کرنے کی آڑمیں ذاتی کاروبار چمکایاجاتاہے۔اخبارات کے لیے تصویریں بنوائی جاتی ہیں۔ٹی وی اورریڈیوپراپنی تعریف کروائی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرہ میں دوردورتک صلہ رحمی،سادگی اوربے مقصد نیکی کاکوئی وجودنظر نہیں آتا۔ منافق معاشرہ آکرکسی نے دیکھناہوتواسے فوراًہمارے عمومی سماجی رویے دکھادینے چاہئیں۔شائدکسی کوشرم آجائے!