متناسب نمائندگی اور صدارتی نظام
ہمارے ادارے تاریخی طور پر اس ناقابل اصلاح کرپٹ اور انسان دشمن حکومتی نظام کے سرپرست اور نگہبان رہے ہیں۔
دانشوروں کا اٹل فتویٰ ہے کہ دنیا میں کوئی ملک جمہوریت کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔ ہمیں سنگا پور، ملائشیا، جنوبی کوریا، ویتنام، انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات حتیٰ کہ چین کو بھی ''کوئی ملک'' نہیں بلکہ کچھ اور ہی شے سمجھنا چاہیے جو 1960ء کی دہائی میں معاشی اور انسانی ترقی میں پاکستان سے کوسوں پیچھے تھے اور پھر جمہوریت کے بغیر ہی ترقی کرتے ہوئے پاکستان سے کوسوں آگے نکل گئے۔
دانشوروں کا یہ بھی فرمان ہے کہ ''بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہے'' اب ذرا یہ بہتری ملاحظہ کیجیے کہ 2008ء میں پاکستان کے کل 60 سال کے بعد جن میں تمام آمر حکومتوں کے ادوار آتے ہیں پاکستان کا کل قرضہ 6 کھرب روپے تھا جو 2013ء میں جمہوری حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے پر 14 کھرب روپے ہوگیا یعنی صرف پانچ جمہوری سال میں 60 سالوں کے 6 کھرب روپوں سے بھی زیادہ آٹھ کھرب روپوں کا قرضہ اس ملک پر چڑھ گیا جب کہ ان پانچ سال میں ملک میں نہ کوئی ڈیم بنے نہ اسپتال، نہ بندرگاہ بنی نہ کوئی ہائی وے اور نہ ہی پینے کے صاف پانی اور سیوریج کی ٹریٹمنٹ کا کوئی نظام بنا۔
موجودہ حکومت کے 23 اگست 2013ء کو قومی اسمبلی میں تحقیقات کروانے کے وعدے کے باوجود آج چار سال کے بعد بھی موجودہ جمہوری حکومت نے ہمیں پچھلی جمہوری حکومت کے لیے گئے 8.136 کھرب روپوں کے قرضوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ یہ کہاں گئے، البتہ اس حکومت نے 35 ارب ڈالر یعنی تقریباً ساڑھے تین ہزار ارب روپوں کے قرضے اور لے لیے جب کہ قومی برآمدات اس دوران گھٹتی گھٹتی درآمدات کے آدھی رہ گئیں۔
اب آپ ایک اور معاملہ دیکھیے کہ 19 ستمبر 1999ء کو جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی یو این ڈیولپمنٹ پروگرام کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً100 ارب روپوں کی کرپشن ہوتی تھی جب کہ 13 دسمبر 2012ء کو اس وقت کے نیب چیئرمین ریٹائرڈ ایڈمرل فصیح بخاری کے مطابق پاکستان میں روز کی 13 ارب روپے یعنی سال کی کوئی 4745 ارب روپوں کی کرپشن ہورہی تھی۔ یعنی کرپشن 100 ارب روپ سے بڑھ کر 4745 ارب روپے ہوگئی۔ یہ ہمارے ہنرمند دانشوروں کا ظرف ہے کہ اس ''ترقی'' کو یہ جمہوریت کا حسن بتاتے ہیں ورنہ ہم جیسے غیر دانشور جو جنرل پرویز مشرف کے NRO دور میں جمہوریت کے حق میں لکھتے تھے آج خود سے شرمندہ پھرتے ہیں۔
جمہوریت کی بنیاد انتخابی نظام کا یہاں یہ حال ہے کہ 2008ء الیکشن کے تقریباً ساڑھے تین سال بعد الیکشن کمیشن نے انتخابی فہرستوں سے ساڑھے تین کروڑ بوگس ووٹرز کو حذف کرنے کا اعلان کیا۔ 2011ء میں ہی ECP اور نادرا نے بتایا کہ 2008ء الیکشن میں صرف بلوچستان میں ہی 65 فی صد ووٹ بوگس تھے۔
ادھر اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کو مخصوص حکمران خاندانوں کے ذاتی اور خود مختار راجواڑوں میں تبدیل کردیاگیا، صوبہ پنجاب اور سندھ میں خصوصاً وہاں کی حکمران جماعتوں کو الیکشن میں ہرانا عملی طور پر ناممکن ہوچکا ہے کیونکہ انھوں نے دوسرے اداروں کے ساتھ انتظامی اور تعلیمی مشینری میں بھی اوپر سے نیچے تک سیاسی وفاداریوں کے حساب سے تعیناتیاں مبینہ طور پر کی ہوئی ہیں۔
تیسرا پہلو یہ ہے کہ خصوصاً پنجاب اور سندھ میں پھلتی پھولتی مختلف مافیاز مثلاً لینڈ مافیا، واٹر مافیا، جعلی دواؤں کی مافیاز وغیرہ وغیرہ سرکاری ٹھیکوں کی مافیا، پرانے وڈیروں، کرپشن سے بننے والے نئے وڈیروں وغیرہ کو بھی حکمران جماعتوں کا اقتدار سوٹ کرتا ہے۔ چنانچہ یہ تمام طاقتور طبقات بھی اپنی پسندیدہ حکمران جماعتوں کی انتخابات میں کامیابی یقینی بنانے کے لیے سرگرداں ہوتے ہیں۔
عملی طور پر ہمارے ادارے، میڈیا اور عوام انتخابات کے ان تین پہلوؤں کا کچھ نہیں بگاڑسکتے چنانچہ باقی بچتا ہے چوتھا پہلو یعنی طرز انتخاب ہمارے ہاں یہ نظام کتنا ناقص ہے اس کا اندازہ آپ صرف 2008ء کے الیکشن نتائج دیکھ کر ہی لگاسکتے ہیں۔ 2008ء کے الیکشن میں 44 فی صد ووٹ پڑے، ان 44 فی صد کے محض 30.8 فی صد ووٹ لے کر پیپلزپارٹی پہلی پوزیشن پر آگئی۔
آپ ملک کی کل آبادی کا حساب تو چھوڑیے پیپلزپارٹی کے یہ 30.8 فی صد ووٹ کل انتخابی ووٹوں کا تقریباً 13 فی صد بنتے ہیں یعنی محض 13 فی صد ووٹوں سے حکومت مل گئی۔ 2013ء کے الیکشن دیکھیے کہ کل 55 فی صد ووٹ پڑے اور ان 55 فی صد کے 32.7 فی صد ووٹ جوکہ کل ووٹوں کا تقریباً18 فی صد بنتے لے کر مسلم لیگ ن نے ''ہیوی مینڈیٹ'' حکومت بنالی۔
ہمارے ادارے تاریخی طور پر اس ناقابل اصلاح کرپٹ اور انسان دشمن حکومتی نظام کے سرپرست اور نگہبان رہے ہیں۔ تاہم یہ کرپٹ سسٹم ملک کو وہاں لے آیا ہے کہ جہاں ایک طرف ملک سے لوٹے گئے سیکڑوں ارب ڈالر دبئی سے لے کر لندن، اسپین سے لے کر امریکا، ملائشیا سے لے کر چین یہاں تک کہ بھارت کے بھی بینکوں، کاروبار اور جائیدادوں میں محفوظ ہیں اور دوسری طرف ملک بھاری قرضوں تلے اب اپنے دفاع کے لیے بھی نہیں خرچ کرپا رہا ہے۔
ہم نقد ادائیگی کرنے کے قابل نہ ہونے کی وجہ سے امریکا سے صرف سات ایف 16 جہاز تک نہ لے سکے چنانچہ یہ ناقابل اصلاح کرپٹ حکومتی نظام اور دانشوروں کی محبوب این آر او اینڈ اقامہ فیم جمہوریت کا بنیادی ڈھانچہ تو تبدیل کرنا ہی ہوگا۔ موجودہ انتخابی نظام میں صرف جیتنے والے امیدوار کے ووٹوں کی اہمیت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی انتخابی حلقے کے فرض کیجیے کل ساڑھے تین لاکھ ووٹوں میں سے ڈھائی لاکھ ووٹ پڑے ہیں جن میں سے ایک امیدوار 80 ہزار ووٹ لے کر جیت گیا جب کہ دوسرے نمبر کے امیدوار کو 70 ہزار ووٹ پڑے جب کہ باقی ایک لاکھ ووٹ دوسرے امیدواروں میں تقسیم ہوگئے یعنی پڑنے والے ڈھائی لاکھ ووٹوں میں سے صرف 80 ہزار ووٹوں کی اہمیت ہوئی جب کہ باقی ایک لاکھ ستر ہزار ووٹوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ اور پھر کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ جیتنے اور ہارنے والے امیدواروں کے درمیان چند سو یا ہزار کا فرق ہوتا ہے۔
ہمیں متناسب انتخابی نظام اور صدارتی حکومتی نظام رائج کرنا ہوگا۔ پورے ملک میں الیکشن میں پارٹیوں کے مقامی امیدوار نہیں ہوں۔ ان کے بجائے صرف پارٹیوں کو ووٹ ڈالے جائیں اور کل ووٹوں کی شرح سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستیں الاٹ کی جائیں اور اکثریت والی جماعت سے صدر اور وزرا بنیں۔ اس طرح سیاسی جماعتوں کے پاس موقع ہوگا کہ وہ پڑھے لکھے اور ایماندار لوگوں کو اسمبلیوں میں لاسکیں جو موجودہ نظام میں عادی کرپٹ اور جرائم پیشہ افراد کی کالے دھن اور غنڈہ گردی کے مقابلے میں الیکشن نہیں جیت سکتے۔
اس مجوزہ نظام میں ہر ووٹ کو برابر کی اہمیت ملے گی۔ مگر ریاست کو حکومتی اور انتخابی نظام بدلنے سے پہلے پوری دنیا سے پاکستان سے لوٹے گئے سیکڑوں ارب ڈالر واپس لانے ہوںگے اور پاکستان کو لوٹنے والوں کو سچ مچ میں قانون کے حوالے کرنا ہوگا۔ یہ کیے بغیر یہاں کوئی بھی تبدیلی کچھ بھی تبدیل نہیں کرسکے گی۔