کالے کوٹ اور اسٹیتھو اسکوپ
ہمارے مسیحا صفت گلے میں لٹکائے یا ہاتھ میں اسٹیتھو اسکوپ پکڑے ڈاکٹر حضرات بھی کالے کوٹ والوں کی صف میں کھڑے ہوگئے ہیں
گزشتہ بدھ مجھے اپنی کتاب کا مسودہ افضال صاحب کو دینے ان کے پبلشنگ آفس جانا تھا کہ ان کا ٹیلیفون آگیا کہ ہائی کورٹ کے اندر اور باہر مال روڈ پر سیاہ کوٹ پہنے سیکڑوں وکلا نے نعرے بازی اور توڑ پھوڑ کرتے ہوئے ہنگامہ بپا کررکھا ہے۔ اردگرد کے علاقے کی ٹریفک درہم برہم ہے اس لیے آنے کا ارادہ ملتوی کردیں۔ میں نے ٹیلیویژن آن کیا تو عجب طوفان بدتمیزی دیکھنے کو ملا، یقین نہ آیا کہ عدالتوں میں گھسنے دروازے توڑنے کی کوشش کرتے پولیس سے ہاتھا پائی کرتے پولیس واٹر کینن سے بھیگتے اور ادھر ادھر بھاگتے یہ کالے کوٹوں میں ملبوس لوگ واقعی وکلاء ہوں گے۔
اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ہنگامہ آرائی کرنے والے سیاہ کوٹ پہن کر وکلاء کو بدنام کرنے کے لیے میدان میں آئے ہوں۔ انصاف اور قانون کے رکھوالوں سے ایسی توقع ہرگز نہیں ہوسکتی اور وکلاء تنظیموں ہی کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے قبیلے کو ایک قابل عزت و احترام برادری ثابت کریں۔ جج اور وکیل قانون کی عملداری اور عدل و انصاف کے قابل احترام علمبردار ہیں۔ جب اس نوعیت کی ہنگامہ آرائی توڑ پھوڑ اور نعرے بازی عام اور ناخواندہ شہری دیکھیں گے جس کی رپورٹنگ وکیل گردی کے نام سے ہوئی تو پھر وکالت اور عدالت کا لوگ کیا احترام اور عزت کریں گے؟
میں اس روز افضال صاحب کی طرف نہ جاسکا تو مجھے اپنی سروس کے سینئر مینوچہر صاحب کے ہمراہ سن 1998ء میں نیاز احمد صاحب سے ملنے ان کے پبلشنگ ہاؤس جانا یاد آگیا۔ سید مینوچہر کے والد معروف شخصیت اور نامور شاعر عابد علی عابد سے کون واقف نہ ہوگا ان کا ا یک شعر پڑھیے ؎
رات بھر میں نے سجائے سرمژگاں تارے۔ مجھ کو تھا وہم کہ یوں رات گزر جائے گی۔ سنگ میل پبلشنگ ہاؤس کا سنگ بنیاد نیاز احمد صاحب نے 1962ء میں رکھا اور پاک و ہند کا شاید ہی کوئی قابل ذکر ادیب و شاعر ہوگا جس کی کتاب انھوں نے نہ چھاپی ہوگی اور ناممکن ہے کہ انھوں نے اپنے دفتر میں کبھی اکیلے لنچ کیا ہو۔ کتاب حصول علم اور تفریح کا بہترین ذریعہ رہی ہے لیکن جب سے کمپیوٹر اور موبائل فون نے اپنی اسکرین میں رنگ اور آواز کے ذریعے لوگوں کو اپنی گرفت میں لیا ہے پبلشنگ ہاؤس کے حالات دگرگوں ہوتے چلے جارہے ہیں۔
بات چلی تھی وکلا کے ایجی ٹیشن سے جو ہمیں ہر ماہ کسی نہ کسی شہر میں ہوتی نظر آتی ہے لیکن ہمارے مسیحا صفت گلے میں لٹکائے یا ہاتھ میں اسٹیتھو اسکوپ پکڑے ڈاکٹر حضرات بھی کالے کوٹ والوں کی صف میں کھڑے ہوگئے ہیں بلکہ ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے ہیں۔ کیونکہ ان کی ہڑتالوں اور مریضوں کو لاعلاج چھوڑنے سے اموات کی شرح میں یکدم اضافہ ہوجاتا ہے جو بے گناہ ہوں کے قتل کے مترادف ہوتا ہے۔
ایک وقت تھا جب یونیورسٹی لاء کالج کے اساتذہ اعلیٰ تعلیم یافتہ مستقل پروفیسر اور معروف وزٹنگ لیکچرز ہوا کرتے تھے۔ لاء کالج سے فارغ التحصیل اسٹوڈنٹ سول سروس میں بھی چلے جاتے یا کسی لاء چیمبر میں ٹریننگ اور تجربہ کے لیے منسلک ہوجاتے۔ اپنے سینئر کی کتب اٹھائے اس کے پیچھے عدالت میں جاتے اور شاگردی اختیار کرتے کرتے استاد کے معمولی نوعیت کے کیس نمٹاتے یونیورسٹی لاء کالج کے پرنسپل پروفیسر شیخ امتیاز کو کون بھول سکتا ہے جن کے شاگرد اس وقت سینئر وکلاء میں شمار ہوتے ہیں اور اعلیٰ مقام پر پہنچ کر بھی اپنے اساتذہ کا فخریہ ذکر کرتے ہیں۔
پرنسپل امتیاز کا کلاس لینے سے پہلے طلباء کی حاضری لگانے کا طریقہ بھی انوکھا تھا لیکچر شروع ہونے سے پہلے اسٹوڈنٹس کو ڈیسکوں پر سیریل نمبر کے حساب سے بیٹھنا ہوتا جو اسٹوڈنٹ غیرحاضر ہوتا اس کی سیٹ خالی ہوتی۔ امتیاز صاحب کو سیٹ نمبر یاد ہوتے وہ خالی سیٹوں کا نمبر پکارتے اور چند سیکنڈ میں حاضری لگ جاتی۔
وکیل اور ڈاکٹر کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، اچھا قانون دان اور قابل ڈاکٹر جس کے ہاتھ میں شفا ہو خدا کی نعمت ہیں۔ وکیل فوجداری ہو، سول ہو، ریونیو ٹیکس سے متعلق ہو یا آئینی معاملات کا ، اس کا واسطہ عدل و انصاف ہوتا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر دل و دماغ، پیٹ، کان ناک گلا آنکھ دانت گردہ جگر کسی بھی بیماری کا علاج کرنے کا ماہر ہو صحت اور زندگی کے لیے خدائی نعمت ہے۔ بہ الفاظ دیگر کالے کوٹ اور اسٹیتھو اسکوپ ہمیں آزادی، انصاف، حق دہی، صحت و تندرستی دلوانے میں مسیحائی کرتے ہیں اور یہ خدائی صفات ہیں۔
ان دنوں ایل ایل بی کی ڈگری لینے والے نوجوان سمجھتے ہیں کہ بس لائسنس لینے کی دیر ہے وہ برسرروزگار ہوجائیں گے حالانکہ وکیل کو پانچ چھ سال تک تجربہ اور مشاہدہ ہی نہیں مطالعہ بھی درکار ہوتا ہے۔ اتفاق سے ہر ضلع میں وکلاء کی تعداد ضرورت سے دوگنی ہے۔ نئے وکیل کیس نہ ملنے پر بہت جلد فرسٹریٹ ہوکر ایسی حرکات کرنے لگتے ہیں جو ان کے شایان شان نہیں ہوتیں۔ ہر ماہ کسی نہ کسی ضلع سے وکلاء کی ایجی ٹیشن کی خبر آتی ہے۔ موکل اپنی مرضی کے وکیل کو اپنا مقدمہ دیتا ہے جس کی وکالت نہ چل رہی ہو اس کو پروفیشن تبدیل کرنے پر غور کرنا چاہیے۔
یہ زبردستی والا پروفیشن نہیں ہے۔ وکالت میں کامیابی فوراً نہیں آتی۔ ضروری نہیں ایک قابل اور ذہین لاء گریجویٹ کامیاب وکیل بن سکے۔ وکیل بھی جج کی طرح محترم نام ہے۔ یہ دونوں انصاف کی منزل کے دو ستون ہیں۔بڑی شرم کی بات ہے کہ وکیل Agitation کرے اور لوگ اسے وکیل گردی جیسے برے نام سے تعبیر کریں۔ وکیل، قانون دان، انصاف کا رکھوالا ہوتا ہے۔ محمد علی جناح، علامہ اقبال، لیاقت علی خاں، ذوالفقار علی بھٹو، ظفر اللہ خاں، ایس ایم ظفر، عابد حسن منٹو، اے کے بروہی نے تو لفظ وکیل گردی سنا بھی نہ ہو گا۔ کالے کوٹ اور اسٹیتھو اسکوپ والے خدا خوفی کریں۔