خواہشاتِ نفسانی کی قربانی

قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ہے۔


اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو لاکھوں نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان میں سے ایک عظیم نعمت عید قرباں بھی ہے۔ فوٹو: فائل

اسلام دین فطرت اور پیغام محبت و الفت ہے۔ اگر احکامات اسلام پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اسلام کا منشا یہی ہے کہ بنی آدم ایک دوسرے سے لاتعلق اور اپنی ہی ذات میں گم نہ ہوں، بل کہ ملت واحدہ بن کر کلمۂ واحدہ پر جمع ہوجائیں تاکہ ایک خدا، ایک رسولؐ، ایک قرآن، ایک ہی کعبہ پر ایمان رکھنے والے متحد و متفق اور ایک دوسرے کے بہی خوا رہیں۔

اسلام نے اہل محلہ میں محبت و اتحاد پیدا کرنے اور اسے قائم دائم رکھنے کے لیے پنچ گانہ نمازوں کے وقت، اہل محلہ کا مسجد میں جمع ہوکر نماز ادا کرنا واجب کیا ہے۔ اہل شہر میں محبت و تعلقات بڑھانے کے لیے ہفتے میں ایک بار ان کا جامع مسجد میں اکٹھا ہو کر نماز جمعہ ادا کرنا ضروری و لازمی ٹھہرایا گیا ہے۔ تو ضروری تھا کہ شہری باشندوں بل کہ قرب و جوار کے رہنے والوں میں تعارف و تعلق اور محبت و شناسائی قائم کرنے اور مستحکم رکھنے کے لیے بھی کوئی اہتمام کیا جائے۔

جب کہ عالم اسلام میں رابطے کو مستحکم و مضبوط کرنے کے لیے مختلف ملکوں کے اشخاص کو دین واحد کی وحدت میں شامل ہونے کے لیے عمر بھر میں ایک بار ان تمام مسلمانوں پر جو وہاں جانے کی استطاعت رکھتے ہیں، حج کعبۃ اللہ فرض کیا گیا ہے۔ اہل شہر اور دیہات قرب و جوار میں اسی شناسائی اور مودت و محبت اور تعلق کو پیدا کرنے کے لیے سال میں دو بار عیدین کی نماز کو لازم قرار دیا ہے۔ ہر دو موقعوں پر دیہات والے شہروں کی طرف آتے ہیں اور شہر والے شہر سے باہر نکل کر ان سے ملاقات کرتے اور سب مل جل کر عبادت الہٰی ادا کرتے ہیں۔

ابو داؤد شریف میں روایت ہے حضور نبی اکرم ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے اس زمانہ میں اہل مدینہ سال میں دو دن خوشی کرتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا یہ کیا دن ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا، جاہلیت میں ہم لوگ ان دنوں میں خوشیاں منایا کرتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے ان سے بہتر دو دن تمہیں دیے، عیدالفطر اور عیدالضحیٰ۔ اسلام نے ان ایام میں تجمل و زیب و زینت اور رکھ رکھاؤ کو تو باقی رکھا، البتہ زمانۂ جاہلیت کی رسم و رواج ، لہو و لعب اور کھیل کود میں وقت کے ضیاع کو ختم کردیا اور جشن کے ان ایام کو خدائے بزرگ و برتر کی اجتماعی عبادت کے ایام بنا دیا تاکہ ان کا یہ اجتماع یاد الہٰی سے غفلت میں بسر نہ ہو۔

ایک طرف اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لیے دنیاوی فرحت و انبساط کے اہتمام کی اجازت دی تو دوسری طرف ان کے لیے بندگی کے دروازے کھول دیے تاکہ یاد الٰہی سے بھی غافل نہ رہیں اور اسلامی برادری سے شناسائی کے مواقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیں۔

غرض اسلامی تہوار بھی لہو و لعب اور ہنگامہ آرائی کے ذریعے نہیں بل کہ دوسری تمام اقوام سے اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ وہ فرحت و نشاط کا ذریعہ بھی ہیں اور وحدت و اجتماعات اور ایثار قربانی و اجتماعی عبادتوں کا وسیلہ بھی۔

حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: '' جو شخص پانچ راتوں میں شب بیداری کرے اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔ ذی الحجہ شریف کی 10-9-8ویں، شعبان المعظم کی 15ویں رات اور عیدالفطر کی رات۔''

سرور دو عالم ﷺ کا فرمان مبارک ہے، مفہوم : '' جس نے عیدین کی رات (یعنی شب عیدالفطر اور شب عیدالاضحی طلب ثواب کے لیے) قیام کیا اُس دن اس کا دل نہیں مرے گا، جس دن لوگوں کے دل مرجائیں گے۔'' (ابن ماجہ)

حضرت سیدنا وہب بن منبہؓ فرماتے ہیں کہ جب یوم عید آتا ہے تو شیطان چیخ چیخ کر روتا ہے۔ اس کی ناکامی اور رونا دیکھ کر تمام شیاطین اس کے گرد جمع ہوکر سوال کرتے ہیں کہ تجھے کس چیز نے غم ناک اور اداس کردیا ؟ وہ کہتا ہے ہائے افسوس ! اللہ تعالیٰ نے آج کے دن اُمت محمد ﷺ کی بخشش فرما دی لہٰذا اب تم انہیں لذتوں اور خواہشات نفسانی میں مشغول کر دو۔'' (مکاشفۃ القلوب)

عید اس کی نہیں جس نے نئے کپڑے پہن لیے، بل کہ حقیقت میں تو عید اس کی ہے جو عذاب الہٰی سے ڈر گیا۔ ہمارے اسلاف و بزرگان دین نے عید کی خوشی عبادات کی قبولیت کے ساتھ مشروط فرما دی۔ سیدنا فاروق اعظمؓ کے دور خلافت میں لوگ عید کے روز کاشانۂ خلافت پر حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ امیرالمؤمنین دروازہ بند کر کے زارو قطار رو رہے ہیں، لوگ حیرت زدہ ہو کر سوال کرتے ہیں کہ یا امیرالمؤمنین ! آج تو عید کا دن ہے اس دن خوشی و شادمانی ہونی چاہیے اور آپ رو رہے ہیں؟ سیدنا فاروق اعظمؓ نے فرمایا اے لوگو! یہ دن عید کا بھی ہے اور وعید کا بھی۔ آج جس کے نماز روزے اور عبادات قبول ہوگئیں بلاشبہ اس کے لیے آج عید کا دن ہے اور جس کی عبادات مردود ہوگئیں اس کے لیے آج وعید کا دن ہے اور میں اس خوف سے رو رہا ہوں کہ مجھے معلوم نہیں کہ میں مقبول ہوا یا رد کر دیا گیا ہوں۔

سیدنا فاروق اعظمؓ عشرہ مبشرہ سے ہیں مگر خوف الہٰی سے رو رہے ہیں اور ایک ہم ہیں شُکر کے بہ جائے خرافات میں مبتلا ہیں۔

حضرت براءؓ فرماتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے عید قربان کے دن ہمیں خطبہ دیا۔ آپؐ نے فرمایا: سب سے پہلے ہمیں آج کے دن نماز پڑھنی چاہیے۔ پھر لوٹ کر قربانی کرنی چاہیے۔ جس نے ایسا کیا اس نے سنت پر عمل کیا اور جس نے ہماری نماز پڑھنے سے پہلے ہی ذبح کر لیا تو وہ قربانی گوشت کی بکری ہے جس کو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے جلدی سے ذبح کر لیا ہے، قربانی نہیں۔'' (مسلم شریف)

قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ہے۔ یہ ایک ایسا فریضہ ہے جو بارگاہِ رب العزت میں انتہائی مقبول ہے کیوں کہ قربانی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حضور بندہ اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کر کے درحقیقت اپنے جذبۂ عبودیت کا اظہار کرتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کو بڑا ہی پسند ہے کیوں کہ توحید باری تعالیٰ کا سب سے بڑا تقاضا یہی ہے کہ انسان کی محبت کا محور صرف ذات باری تعالیٰ ہو، اس کی جان نثاری، اس کی عبادت غرض کہ اس کا ہر فعل اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کے لیے ہو۔ اسی طرح انسان کے مال و جان کی قربانی بھی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہو۔ لیکن انسان اپنے ابتدائی دور ہی میں زندگی کے اس مقصد سے دور ہوگیا۔

شیطان نے صراطِ مستقیم سے اسے بھٹکا دیا، اس کی سوچ کو محسوسات کا گرویدہ کردیا اور اس کے دل میں یہ وسوسہ ڈال دیا کہ تو بن دیکھے خدا کو کیوں مانتا ہے؟ اور پھرحضرت انسان خدائے واحد کی عبادت کو چھوڑ کر مظاہر فطرت اور اپنے ہاتھ سے تراشیدہ بتوں کے آگے جھکنے لگا۔ اپنی محبت، عجز و نیاز، عقیدت اور ایثار و قربانی انہی بتوں کے لیے مخصوص کر بیٹھا۔

آخر اللہ تعالیٰ کو اپنے تخلیق کر دہ انسان پر رحم آیا او ر اس نے مختلف اوقات میں اپنے برگزیدہ پیغمبروں کو مبعوث فرمایا کہ وہ اہل دنیا کو راہ حق کا درس دیں اور اسی سلسلے کی آخری ہستی حضور انور سید دو عالم حضرت محمد ﷺ کے ذریعے لوگوں کو یہ تعلیم دی کہ تمہاری ہر طرح کی عبادت اور قربانی صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے رہے تاکہ انسان اللہ کے حضور سر بہ سجود رہے۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام کے نظام عبادت میں ہر لحظہ قربانی کا وجود پایا جاتا ہے یعنی نماز اور روزہ انسانی ہمت اور طاقت کی قربانی ہے۔ زکوٰۃ انسان کے مال و زر کی قربانی ہے۔ حج بیت اللہ بھی انسان کی ہمت، مال و زر کی قربانی ہے غرض کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد میں بہت سے تقاضے ایسے ہیں جو انسانی قربانی کے مترادف ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو لاکھوں نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان میں سے ایک عظیم نعمت عید قرباں بھی ہے۔ مسلمان اس عید کے تین ایام میں مخصوص جانوروں کو ذبح کرکے اللہ تعالیٰ کے حضور بہ طور ہدیہ پیش کرتے ہیں۔ اگر کوئی قربانی واجب ہونے کے باوجود نہ کرے تو وہ شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب اور اللہ تعالیٰ کے حکم کا نافرمان ہے۔ قرآن مجید فرقانِ حمید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، مفہوم: '' اور تم رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔''

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: '' جس شخص نے استطاعت کے باوجود قربانی نہ کی وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔'' ( ابن ماجہ )

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں حقیقی عیدِ سعید کی خوشیاں نصیب فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں