ہجوم کی دھونس
نواز شریف سپریم کورٹ کو دھمکانے کے لیے سڑکوں کی سیاست کر رہے ہیں
پاناما کیس میں سپریم کورٹ سے نااہل ہونے والے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اس فیصلے کے باعث شدید غم و غصے میں مبتلا ہیں۔سپریم کورٹ کے ججز پر تنقید کرتے ہوئے وہ اور ان کے حواری یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کا فیصلہ عوام کے ووٹوں کی سراسر توہین ہے۔
نواز شریف اعلیٰ عدلیہ کی مذمت میں میڈیا کو ہمنوا بنانے کے بعد اسی مقصد کے لیے جس طرح اپنے حامیوں کا ہجوم سڑکوں ہر لائے، اس سے ثابت ہوگیا کہ گزشتہ بیس برس میں اُن کی فکر اور شخصیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ ابھی تک 1998ء والی سوچ رکھتے ہیں، جب اُن کے حامیوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ آرٹیکل 62، 63 میں نااہل ہونے کی سزا کو پانچ سال یا اِس سے کم قرار دینے کی مطالبہ کیا جا رہا ہے جسے کم ازکم مضحکہ خیز ہی کہا جا سکتا ہے۔
عدلیہ اور اُس کے فیصلے کو جمہوریت کے مدمقابل کھڑا کرکے نواز شریف کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سیاسی طور پر منتخب شخص یا سرکاری عہدے دار ہر احتساب سے بالا تر ہوتا ہے؟ اور وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہوتا؟ کیا یہی جمہوریت ہے؟ اورکیا یہ سوچ اسلامی فکر سے ہم آہنگ ہے، جس میں حکمران اتنے ہی جوابدہ ہوتے ہیں، جتنے عوام؟
عدلیہ نے سیاسی مقاصد کے زیر اثر آنے سے انکار کر دیا، قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کرتے ہوئے فریب دہی اور لوٹ مار کی نشان دہی کی اور قصوروار کو سزا دی۔ عدلیہ کے اسی پختہ عزم نے سابق وزیر اعظم کا اصل چہرہ عیاں کر دیا ہے۔ یہ پاکستان میں سیاست دانوں اور سرکاری عہدے داروں کے احتساب کی پہلی کامیاب کوشش ہے۔ پاناما کیس میں عدلیہ کے فیصلے سے وہ لوگ سراسیمہ ہیں جنھیں اب اپنی کارستانیوں کے حساب کتاب کا خوف لاحق ہے۔
نواز شریف سپریم کورٹ کو دھمکانے کے لیے سڑکوں کی سیاست کر رہے ہیں اور عوامی حمایت کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ نوازشریف کی نااہلی کے اثرات ان کی ذات اور خاندان تک محدود نہیں، اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ یہ فیصلہ محض منصفوں کے لیے چیلنج نہیں تھا، بلکہ اس سے ریاست پاکستان کے شہریوں کے لیے اس فیصلہ کُن سوال کے جواب کا تعین بھی ہونا تھا کہ وہ کیسی زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور اس ریاست کو اب کیسے چلانا چاہتے ہیں۔
وکلا برادری کو اعلیٰ عدلیہ کے خلاف متحرک کر کے انتشار پھیلانے کی منظم کوششوں کا آغاز ہو چکا۔ یہ ایک قابل مذمت اور ہولناک صورت حال ہو گی۔ وکلا قانون کی عملداری کی علامت ہیں۔ توہین عدالت اور عدالتوں کے پھاٹک اکھاڑنا انھیں زیب نہیں دیتا۔
شریف خاندان کے 90 فی صد اثاثے بیرون ملک ہیں، ملک میں بے چینی پھیلے یا انتشار انھیں اس کی فکر کیوں ہونے لگی؟ البتہ جنگل کا قانون نافذ کرنے کی یہ مذموم کوششیں کسی بھی تہذیب یافتہ معاشرے کے لیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔گزشتہ دنوں قابل احترام جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ دل کے آپریشن سے گزرے۔ ممکن ہے، یہ محض اتفاق ہو، لیکن ذرا اِس دباؤ کا تصور توکیجیے، جو اس باکمال فرد پر ڈالا جا رہا ہے، جو پاکستان کا آیندہ چیف جسٹس ہے؟
جمہوریت ایک سیاسی نظام کے طور پرشہریوں کی مساوی حقوق کی ضمانت دیتی ہے، مگر اس نظام نے بڑے موثر انداز میں تصور خدا کو نکال کر فرد کو حق و ناحق کا منصف بنا دیا ہے۔ اس خطرے کے پیش نظر ہمارے بزرگوں نے نومولود نظریاتی ریاست کے لیے قراردادِ مقاصد کو دستور میں شامل کیا، جس کے مطابق: ''چونکہ اللہ تبارک و تعالی پوری کائنات کا بلا شرکتِ غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اﷲ کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہو گا، یہ ایک مقدس امانت ہے۔''
مغربی جمہوریت میںمنتخب شخص ووٹرز، یعنی فقط انسانوں کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے، مگر پاکستان میں ہم سب خدا کے سامنے جوابدہ ہیں۔ وہی منتخب افراد، سرکاری عہدے داروں اور عام شہریوں، سب کا حاکم ہے اور جب فیصلے کا دن آئے گا، تو اسی کی جناب سے حتمی فیصلہ صادر ہو گا۔ اسی نے ہم پر وہ حدود لاگو کیں، جو ہمیں سیدھے راستے پر رکھتی ہیں۔ آئین ہم سب کو اﷲ تعالی کے مقررہ کردہ حدود میں رہتے ہوئے عمل کرنے اور زندگی گزارنے کا پابند کرتا ہے۔ اگر کوئی جواب دہی کے اس تصور پریقین نہیں رکھتا، اس کا دعویٰ ایمان ناقابل قبول اور پاکستان سے وفاداری ناقابلِ اعتبار ہے۔
جب ہم اچھے مسلمان، اسلامی ریاست اور اسلامی معاشرے کے قیام کے معاملے پر غور کرتے ہیں، تو اس مقدس امانت کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنا ہماری اخلاقی ذمے داری ہے، اور آئین میں موجود دفعات 62 اور63 اس اخلاقی ذمے داری کے نفاذکو ممکن بناتی ہیں۔ یہ دفعات سرکاری عہدے کے خواہش مند افراد کی اہلیت کے لیے صادق اور امین ہونا لازمی قرار دیتی ہیں۔ مغربی جمہوریت اخلاقیات اور قانون کے ایسے مرکب سے ناواقف ہے۔ وہاں ایک اچھا شہری ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ قانون کی خلاف وزری سے گریز کریں، مگر اسلامی ریاست میں ایک مسلمان کی حیثیت سے ہماری اخلاقیات بھی قانون کے دائرے میں آتی ہیں۔
ہم نہ صرف دنیاوی قوانین کے سامنے جوابدہ ہیں، بلکہ ہمیں آخرت میں خدا کو بھی جواب دینا ہے۔ فرد اپنے رب کی کس طرح اطاعت کرتا ہے، بیشک یہ بندے اور رب کا معاملہ ہے۔ البتہ یہ نصف سچائی ہے۔ نہ صرف بہ طور فرد صادق اور امین ہونا خدا کو مطلوب ہے، بلکہ وہ ہر انسان پر ایسے سماج کے قیام کی ذمے داری عائد کرتا ہے، جہاں نیکی پسندیدہ اور حوصلہ افزا قرار پائے اور بدی کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اس کا تعلق صرف میری ذات اور میرے رویے سے نہیں، بلکہ اس کا تعلق میرے ان اقدامات سے بھی ہے جو ایک اسلامی سوسائٹی کے قیام میں معاون ہوں، جہاں نیکی کی تعریف ہو اور بدی اگر روکی نہ جا سکے تو اس کی نشان دہی ضرور کی جائے۔
تصور جہاد کے معنی فقط اسلام سے برسرپیکار دشمن سے جنگ کرنا نہیں، بلکہ اس کا مقصد خود کو اور سماج کو اخلاقی اور قانونی تقاضوں کے مطابق صراط مستقیم پر گامزن رکھنے کی جدوجہد بھی ہے۔ اِس ضمن میں کئی آیات اور احادیث پیش کی جا سکتی ہیں، جو بہ طور فرد مجھے پابند کرتی ہیں کہ اگر میں سماجی مسائل پر مضامین لکھ کر یا میڈیا میں اظہار خیال کر کے ظلم کو روک نہیں سکتا، تب بھی اِس کے خلاف آواز ضرور اٹھاؤں۔
میدان کارزار میں موت کا مقابلہ کرنے والے سپاہیوں کے لیے ارض وطن، ان کی اپنی ذات پر مقدم ہوتا ہے۔ ہم اس وقت ایک دوراہے پر ہیں۔ ایک راستہ بدعنوانی کی حکمرانی کی سمت جاتا ہے اور دوسرا ملکی بہتری کی طرف۔ گو کہ وہ لوگ کم ہی ہیں جن کے لیے ملکی مفادات سے بڑھ کر کچھ نہیں لیکن یہ وقت اسی پرعزم اقلیت کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے رہنے کا ہے۔ اس پیغام کو اب واشگاف انداز میں واضح کرنا ہو گا کہ بدعنوان طبقات کے خلاف، چاہے وہ اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر، فوجی ہوں یا سویلین، تمام تر دھونس دھمکیوں کے باوجود قانون کا فیصلہ نہیں ٹل سکتا۔ وہ تمام طبقات اور افراد ، جو اس لیے بدعنوانی، جھوٹ اور فریب کاری کو قبول کر لیتے ہیں یا اس کی حمایت کرتے ہیں کہ وہ خود اس میں مبتلا ہیں یا اس میں ملوث افراد کے وفادار ہیں، تو وہ نہ صرف اس ملک اور سماج کو بلکہ اُن اقدار کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں، جن کا تعین دین وآئین کرتے ہیں۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)