خدمت دیانت کے ساتھ
بلاشبہ الخدمت سماجی، فلاحی اور امدادی خدمات میں ملک کی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتی ہے
MIRPUR/
RAWALPINDI:
فلاحی تنظیم الخدمت کی فلاح و بہبود کی خدمات اور کچھ نئے پہلوؤں پر تبادلہ خیال کے لیے ادارہ نور حق میں دانشوروں، صحافیوں اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ تبادلہ خیال کی اس نشست میں الخدمت کراچی کی سالانہ کارکردگی رپورٹ اور امدادی سرگرمیوں اور چرم قربانی کی مہم کے حوالے سے تنظیم کے ڈائریکٹر میڈیا و مارکیٹنگ نوید علی بیگ نے شرکا کو بریفنگ دی۔
تنظیم کے انچارج حافظ نعیم الرحمن نے اپنے خطاب میں کہاکہ الخدمت ویلفیئر ایک ایسا نیٹ ورک ہے جو پورے ملک میں فلاحی کام سرانجام دے رہا ہے جو کام بنیادی طور پر حکومت کو کرنا چاہیے تھا وہ الخدمت کررہی ہے۔ یہ ملک کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم ہے جس کے سب سے زیادہ ورکرز جن میں بڑی تعداد رضاکارانہ کام کرنے والوں کی ہے جو لاکھوں کی تعداد میں ملک کے گوشے گوشے میں سماجی و فلاحی خدمات انجام دے رہے ہیں اس تنظیم کے انتظامی اخراجات صرف 5 فی صد ہیں جب کہ انتظامی اخراجات کا مسلمہ معیار 10 فیصد ہے۔ الخدمت کا پورا نظام صاف و شفاف ہے۔
تصرف جن مدات میں بتایا جاتا ہے ان ہی مدات میں خرچ کیا جاتا ہے، جو لوگ سیاسی اعتبار سے ہم سے اختلاف رکھتے ہیں وہ بھی خدمت اور دیانت کے اعتبار سے الخدمت پر بھروسا کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایاکہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی خدمت کا یہ سلسلہ شروع کردیا گیا تھا لیکن 1976 میں الخدمت کو ایک تنظیم کی حیثیت سے باقاعدہ رجسٹرڈ کرایا گیا۔ الخدمت نے چرم قربانی کی مہم کو ایک صنعت کا درجہ دیا اور سب سے پہلے اس مہم کا آغاز کیا، اس سے پہلے قربانی کی کھالیں ضایع بھی ہوتی تھیں۔
کھالیں خریدنے والے قصابوں کو بھی ان کی حفاظت کے صحیح طریقہ معلوم نہیں تھا نہ اس سلسلے میں کوئی مربوط نظام وضع تھا۔ الخدمت کے بعد باقی تنظیموں اور جماعتوں نے یہ کام شروع کیا۔ ہم یہ کام صرف فی سبیل اﷲ خلق خدا کی خدمت کے جذبے کے ساتھ کرتے ہیں جس میں بڑی تعداد ایسے افراد کی ہوتی ہے جو رضاکارانہ خدمات انجام دیتے ہیں۔ الخدمت کی آمدنی کے دو بڑے ذرائع زکوٰۃ و خیرات اور قربانی کی کھالیں ہیں۔
الخدمت تعلیم، صحت، صاف پانی، کفالت یتامیٰ، کمیونٹی سروسز، قدرتی آفات سے بچاؤ اور موافات جیسے پروگراموں کے تحت فلاحی و امدادی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہے۔ یہ تمام کام عوام کے تعاون اور الخدمت پر ان کے اعتماد کے ذریعے ہی ممکن ہوسکے ہیں۔
اجلاس کو بتایاگیا کہ الخدمت نے گزشتہ سال کراچی میں سماجی و فلاحی کاموں پر کم و بیش ایک ارب روپے خرچ کیے گئے۔ الخدمت کے تحت کراچی میں 5 اسپتال، 2 بلڈ بینک، 9 فارمیسی، 16 لیب کلیکشن یونٹس، 2 ڈائیگنوسٹک سینٹرز، 16 کلینکس، 4 میڈیکل سینٹر، 89 میڈیکل کیمپس کام کررہے ہیں۔ آئندہ منصوبوں میں گلشن معمار میں زیر تعمیر آغوش سینٹر جہاں 250 یتیم بچوں کی دیکھ بھال کی جاسکے گی، ناظم آباد میں 25 کروڑ روپے کی لاگت سے جدید سہولتوں سے مزین ایک ڈائیگنوسٹک سینٹر تعمیر کیا جائے گا، اس کے علاوہ کالاپل کے قریب ایک جدید میڈیکل سینٹر اور شاہ فیصل میں ایک جدید اسپتال تعمیر بھی منصوبہ میں شامل ہیں۔ الخدمت نیٹ ورک کی فلاحی و امدادی تمام صوبہ جات بشمول آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا میں جاری ہیں۔
غریب لڑکیوں کے لیے جہیز، غریب و نادار افراد کے راشن پیک و ماہانہ راشن کفالت، غریب طلبا و طالبات کے لیے ماہانہ اعانت، کفالت یتامیٰ، قدرتی آفات، سیلاب وغیرہ میں امدادی سرگرمیاں، مفلس اور بے روزگار افراد کے لیے نئے کاروبار میں مالی معاونت، چھوٹے قرضہ جات، مستحق طلبا و طالبات کے لیے فیس، کتب اور اسکالر شپ، قیدیوں کی فلاح و بہبود اور رہائی، گھروں میں یتیم بچوں کی کفالت اور والدین سے محروم بچوں کی آغوش کفالت میں پرورش اور تعلیم و تربیت انتظام۔
الخدمت کے تحت 6000 یتیم بچوں کی کفالت کی جارہی ہے اس سلسلے میں بچوں، ان کے خاندان اور تعلیمی اداروں کے سربراہوں سے مسلسل رابطے کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ بچے اسکول جاتے ہیں، بچوں کو اسکولوں اور گھروں میں کسی بھی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے اور جاری کردہ وظائف بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہی استعمال ہوں۔
آغوش الخدمت کے نام سے یتیم بچوں کے لیے پورے ملک اقامتی ادارے قائم کررہی ہے جن کے قیام کا مقصد والدین سے محروم بچوں کو تعلیم و تربیت کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا ہے۔ آغوش خدمت میں بچوں کے لیے رہائش، تعلیم و تربیت اور صحت سمیت زندگی کی بنیادی سہولیات بہم پہنچائی جارہی ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن نے بتایاکہ الخدمت کے زیر کفالت ایک بچے نے پاکستان ایئر فورس میں جی ڈی پائلٹ کی حیثیت سے کمیشن بھی حاصل کیا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں 8 الخدمت آغوش سینٹر کام کررہے ہیں جہاں عزت و وقار اور خودداری کے ساتھ بے سہارا لوگوں کو سہارا فراہم کیا جارہاہے۔ خدمت کے نظام میں چیک اینڈ بیلنس کا مربوط نظام موجود ہے۔
بلاشبہ الخدمت سماجی، فلاحی اور امدادی خدمات میں ملک کی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتی ہے جس کا اعتراف اس کے سیاسی مخالفین بھی کرتے ہیں۔ غریب و مفلس اور نادار افراد کے لیے اس کی طرف سے علاج و معالجہ، پینے اور استعمال کے لیے صاف پانی راشن، غریب لڑکیوں کی شادیاں، مستحق و غریب طلبا و طالبات کے لیے کتاب، فیس، ماہانہ اعانت اور اسکالرشپ وغیرہ بے روزگاروں کے کاروبار کے لیے مالی معاونت اور چھوٹے قرضہ جات قیدیوں اور یتیم بچوں کی فلاح و بہبود اور ایمرجنسی و کمیونٹی ریلیف اس کی خدمات کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔
ہر قومی سانحہ و آفات میں سب سے پہلے اس کے کارکنان امدادی کارروائیوں کا آغاز کردیتے ہیں۔ 2005 کے زلزلے میں بھی اس کے کارکنان امدادی کاموں کے لیے ان دور دراز علاقوں میں پہنچ گئے جہاں فوج ودیگر رفاہی ادارے بھی بعد میں پہنچے۔ جہاں انھوں نے ریلیف کے کاموں کا آغاز سب سے پہلے کیا اور بعد میں بحالی کا عمل بھی جاری رکھا۔ جس کا اعتراف فوج اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی جانب سے بھی کیا گیا۔ الخدمت کے میڈیکل سینٹرز سے غریب و مستحق افراد کے علاوہ عام شہریوں کو بھی علاج و معالجے کی سستی ترین اور معیاری سہولیات میسر ہیں۔
اس کی لیبارٹریز میں ہر کسی کو 40 فی صد تک کی رعایت اور فارمیسی میں ادویات پر 20 فی صد تک کی رعایت بلا کسی امتیاز و تخصیص حاصل ہیں اس کے رفاہی اداروں میں کسی قسم کی تصویر و تشہیر، پرچم یا لٹریچر وغیرہ نظر نہیں آتا بلکہ بلا کسی امتیاز رنگ و نسل اور مذہب عزت و وقار اور خود داری کے ساتھ تمام خدمات سرانجام دی جاتی ہیں۔ اپنے حلقہ اثر اور احباب سے عطیات و اعانت لے خر پورے ملک کے لوگوں کے لیے بلا کسی تخصیص و امتیاز خدمات پیش کی جاتی ہیں۔
راقم نے اعداد و شمار سے بات خاص طور پر محسوس کی ہے کہ الخدمت کی خدمات اور ادارے ان علاقوں میں زیادہ ہیں جہاں ان کا حلقہ اثر اور احباب نسبتاً کم ہیں۔ اپنی خدمات و کارکردگی کے ریکارڈ کے لحاظ سے الخدمت اس بات کی مستحق ہے کہ اس کے ساتھ دست تعاون بڑھایا جائے اور سماجی، فلاحی اور امدادی خدمات میں اس کے ساتھ بھرپور تعاون کیا جائے۔