بابائے اردو کی برسی اور اردو باغ
ان کی یادوں کو تازہ کرنے اور اردو سے محبت اور ایثار و قربانی کو یاد کیا جاتا ہے۔
16 اگست مولوی عبدالحق کی 56 ویں برسی کا دن تھا ،اس برس بھی ڈاکٹر فاطمہ حسن کی سنگت میں وفاقی اردو یونیورسٹی جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ وہی زمین کا خطہ ہے جس کے ایک گوشے میں مولوی عبدالحق مدفون ہیں اور انجمن کی طرف سے پچھلے چند سال سے باقاعدگی کے ساتھ ان کے مرقد پر فاتحہ خوانی اور گل پاشی کی جاتی ہے۔ اس موقعے پر شہر کے معززین اور اہل علم تشریف لاتے ہیں، ان کی یادوں کو تازہ کرنے اور اردو سے محبت اور ایثار و قربانی کو یاد کیا جاتا ہے۔ اردو کی ترقی و ترویج کے لیے ان منصوبوں کا تذکرہ جو مکمل ہوگئے ہیں اور وہ جن پر کام کرنے باقی ہیں گفت و شنید کے ذریعے مثبت فکر کو سامنے لایا جاتا ہے۔
حیرت اور خوشی نے ہم سب کو اس وقت ہمکنار کیا جب ہم وفاقی اردو یونیورسٹی کے بیرونی راستے سے داخل ہوتے ہوئے بابائے اردو کے مزار کے قریب پہنچ گئے۔ صفائی، ستھرائی اور عمارت کی دیواروں پر رنگ و روغن اور دوسرے انتظامی امور بے مثال تھے، تمام کاموں کی ذمے داری شیخ الجامعہ سلیمان ڈی محمد نے خوش اسلوبی کے ساتھ بابائے اردو کی عقیدت میں انجام دیے تھے۔
16 اگست کے دن ایک باقاعدہ تقریب سپاس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس تقریب میں صوبہ سندھ کی اہم شخصیات کو مدعو کیا جاتا ہے۔ اس بار میئرکراچی وسیم اختر کو تشریف لانا تھا، لیکن وہ اپنی بے پناہ مصروفیات کے باعث شرکت نہ کرسکے، ان کی جگہ ڈپٹی میئر ارشد وہرہ نے محفل کو رونق اور خوشی بخشی، خوشی ان کی آمد کی بھی تھی اور ان کے اس اعلان کی بھی جس میں انھوں نے اردو باغ کو سو(100) پودے تحفتاً دینے کے لیے کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ان پودوں کی دیکھ بھال منتظمین سفاری پارک کے ذریعے ہوگی۔ ان کے وعدے کے مطابق کچھ پودے تو پہنچا دیے گئے لیکن اس وقت تک تو وہ دیکھ بھال سے محروم ہیں۔
تقریب سے خطاب کرنے والوں میں فاطمہ حسن کے ساتھ ذوالقرنین جمیل، سحر انصاری اور دوسرے معتبر حضرات بھی شامل تھے۔ ذوالقرنین جمیل جو جمیل الدین عالی کے صاحبزادے ہیں انھوں نے بابائے اردو مولوی عبدالحق کے بارے میں اہم معلومات فراہم کیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ مولوی عبدالحق کے انتقال کے وقت ان کی عمر بارہ سال تھی اور ان کی تدفین کا مسئلہ بھی درپیش تھا، آخر طے یہ پایا کہ اردو کے لیے زندگی قربان کرنے والی ہستی کو باغ علم و ادب کے کوچے میں دفنایا جائے۔ اور یہ ایسی جگہ ہے جہاں صبح و شام علم و آگہی کی مشعلیں روشن ہوتی ہیں۔ قبر کے نزدیک ہی بابائے مولوی عبدالحق کی رہائش گاہ بھی موجود ہے جو ایک کمرے پر (پہلی منزل) مشتمل تھی۔
سلیمان ڈی محمد نے گفتگو کے دوران بتایا کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے دشمنوں نے انھیں اذیتیں پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، انھوں نے ڈاکٹر فاطمہ حسن کی اردو باغ کے حوالے سے کوششوں کو بھی سراہا اور مزید کہا کہ چند کاموں کی بدولت فاطمہ حسن کا نام یاد رکھا جائے گا۔ ایک اردو باغ کی تعمیر اور اردو زبان کی ترقی و ترویج وغیرہ۔
دوران گفتگو فاطمہ نے صدر پاکستان ممنون حسین کی اردو زبان سے محبت اور عنایتوں کا بھی تذکرہ کیا کہ انھوں نے اردو باغ کی تعمیر کے لیے تین کروڑ ساٹھ لاکھ کی رقم اپنے صوابدیدی فنڈ سے دی لیکن عمارت کی تعمیر و تزئین کو دیکھتے ہوئے یہ رقم ناکافی ہے۔
اگر صدر ممنون حسین تھوڑی سی اور مہربانی فرماتے تو اس کی ایک منزل جو زیر تعمیر ہے وہ مکمل ہوجاتی، چونکہ عمارت کے دوسرے حصے پر سماعت گاہ بننی باقی ہے۔ فاطمہ کا کہنا تھا کہ اگر صدر پاکستان ممنون حسین یا دوسرے صاحبان بصیرت حضرات اس مسئلے پر غور کریں تو عمارت کا کام پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے اس لیے کہ انجمن ایک قومی ادارہ ہے اور اپنے قیام سے آج تک غیر سرکاری حیثیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
''انجمن ترقی اردو'' کے بارے میں بہت سے لوگ ناواقف ہیں اور اپنی لاعلمی کے باعث اس ادارے کو غلط ناموں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انجمن ترقی اردو برصغیر کا قدیم ترین ثقافتی و ادبی ادارہ ہے جو 1903 میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی ایک شاخ کی حیثیت سے محسن الملک نے قائم کیا۔ محسن الملک کا شمار سرسید کے رفقا کار میں ہوتا ہے۔
انجمن کے پہلے صدر مشہور مستشرق سر تھامس آرنلڈ اور معتمد علامہ شبلی نعمانی تھے، بابائے اردو مولوی عبدالحق نے 1912 میں انجمن کے معتمد کی ذمے داری سنبھالی ان کی سرپرستی میں ادارے کو ترقی و استحکام نصیب ہوا، پاکستان بننے کے بعد قائداعظم محمد علی جناح کی ایما پر وہ انجمن کے دفتر کو دہلی سے کراچی لے آئے۔
مولوی عبدالحق کے انتقال کے بعد جمیل الدین عالی اس اہم منصب پر فائز ہوئے اور دامے، درمے، سخنے انجمن کے کاموں کو آگے بڑھایا۔ عالی جی کی جد وجہد کی بدولت وفاقی اردو کالج برائے فنون، قانون اور سائنس کو وفاقی اردو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ جمیل الدین عالی نے اپنے حصے کا کام نہایت ذمے داری اور خوش اسلوبی سے انجام دیا اور اب ڈاکٹر فاطمہ حسن معتمد اعزازی کے طور پر اپنے فرائض احسن طریقے سے ادا کر رہی ہیں۔ ان کا اوڑھنا بچھونا انجمن کی ترقی اور کتابوں کی اشاعت ہے۔ 2016 اور 2017 تقریباً 18 مہینوں میں 24 اہم ترین کتابوں کی اشاعت ہوئی یقیناً علمی و ادبی اعتبار سے یہ قابل ذکر کام ہے۔
اگست 2017 کا جریدہ ''قومی زبان'' بابائے اردو مولوی عبدالحق کی برسی کے موقعے پر جلوہ گر ہوا۔ سرورق پر مولوی عبدالحق کی تصویر اور علامہ اقبال کی تحریر اقتباس کی صورت میں جگمگا رہی ہے۔ اردو کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کرتے ہوئے علامہ نے بابائے اردو کو اپنے خط میں لکھا ہے کہ ''اردو زبان کے لیے جو کوشش آپ کر رہے ہیں، ان کے لیے مسلمانوں کی آیندہ نسلیں آپ کی شکر گزار ہوں گی، آپ سے زیادہ اس بات کو کون سمجھ سکتا ہے کہ زبان کے بارے میں سرکاری امداد پر کوئی اعتماد نہیں کیا جاسکتا، زبانیں اپنی اندرونی قوتوں سے نشوونما پاتی ہیں اور نئے نئے خیالات اور جذبات کے ادا کر سکنے پر ان کی بقا کا انحصار ہے۔'' اسی پرچے میں فاطمہ حسن کا حسب روایت ایک خط بعنوان ''خط بابائے اردو کے نام'' شامل ہے۔
انھوں نے اپنے خط کے ذریعے بہت سی خبروں سے بابا کو مطلع کیا ہے، ''سہ ماہی اردو'' کے بارے میں بھی بتایا ہے کہ وہ ڈاکٹر رؤف پاریکھ کی ادارت میں باقاعدگی سے دوبارہ شایع ہونے لگا ہے۔ بابا کو یہ تلخ حقیقت بتا کر حیرت زدہ کرتی ہیں کہ 70 سال گزرنے کے بعد بھی دفتروں میں انگریزی میں خط وکتابت ہوتی ہے اور یہ کہ حکومت پاکستان اس سال اردو لغت بورڈ اور دیگر علمی و ادبی اداروں میں سربراہان کی تعیناتی کردی گئی ہے۔''
گزشتہ دنوں راقم کا بھی کچھ خاص لوگوں کے ساتھ اردو باغ جانے کا اتفاق ہوا، اسے دیکھ کر ''جنگل میں منگل'' والا محاورہ مجسم نظر آیا۔ عمارت اپنے رقبے اور تعمیر کے اعتبار سے وسیع اور دیدہ زیب ہے۔ اس کا رقبہ 5331 گز پر ہے۔ باغ کے مکمل منصوبے کا تخمینہ 22 کروڑ پچاس لاکھ روپے ہے اور اس عمارت کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں ہی عجائب خانہ برائے قسیم مخطوطات ہے۔ وہ خطوط نیشنل میوزیم سے عنقریب پہنچ جائیں گے۔ راستے ابھی ناہموار ہیں، سڑکیں جلد ہی بن جائیں گی، تعمیراتی کام جاری ہے۔
بقول مصطفیٰ زیدی۔
انھی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے