تعلیمی اخراجات اور والدین

آج کے والدین جانتے ہیں کہ اچھے انگریزی میڈیم میں بچے پڑھیں گے تو ان کی انگریزی اچھی ہوگی


Dr Naveed Iqbal Ansari September 05, 2017
[email protected]

راقم کے گزشتہ کالم کا عنوان ''ماڈرن ازم اور تعلیم کا بوجھ'' تھا جس میں نجی انگریزی میڈیم اسکولوں کی جانب سے فیسوں میں بے تحاشا اضافے اور بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات کا ذکر کیا گیا تھا۔ اکثر لوگوں نے حیرت کا اظہار بھی کیا کہ آج ایک یونیورسٹی کا پروفیسر بھی کسی اچھے اور نامور انگلش میڈیم اسکول میں اپنے بچوں کو نہیں پڑھا سکتا جب تک کہ وہ قرض نہ لے۔

بات صرف کسی پروفیسر کی نہیں، مڈل کلاس یا متوسط طبقے کے علاقوں میں بھی کسی ایسے اسکول کی فیس کہ جہاں بچہ واقعی اپنے تمام مضامین انگریزی ہی میں پڑھے اور گفتگو بھی انگریزی میں کرے، چھ ہزار سے کم نہیں، جب کہ وہ اسکول جہاں مڈل کلاس سے اوپر کے درجے کے لوگ اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں دس سے پندرہ ہزار فیس ہوتی ہے۔

(دونوں جگہ داخلے کی فیس کے نام پر فی بچہ چالیس تا پچاس ہزار روپے والدین سے لیے جاتے ہیں)۔ مسئلہ درحقیقت متوسط یا مڈل کلاس کے لوگوں کا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی فیس و دیگر اخراجات کیسے برداشت کریں؟ کیونکہ جس اسکول میں فیس چھ ہزار ماہانہ ہے وہاں بھی سالانہ چارجز، کتابوں و کاپیوں اور وین وغیرہ کا خرچہ ملا کر کم ازکم دس ہزار روپے ماہانہ ایک بچے کا خرچہ بنتا ہے، جو سالانہ ایک لاکھ بیس ہزار اور میٹرک کرنے تک بارہ، تیرہ لاکھ روپے تک پہنچ جاتا ہے۔ اگر کسی کے تین بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں تو یہ رقم لگ بھگ چالیس لاکھ کے قریب پہنچ جاتی ہے۔ اور اگر چار بچ ہوں تو یہ نصف کروڑ تک ہوجاتی ہے۔ (راقم نے تعلیم کے اخراجات کا یہ تخمینہ اپنے ایک دوست کے بچوں کی فیس سے لگایا ہے تاکہ اندازہ قریب تر اور درست ہو)۔

آج کے والدین جانتے ہیں کہ اچھے انگریزی میڈیم میں بچے پڑھیں گے تو ان کی انگریزی اچھی ہوگی اور نہ صرف لوگ انھیں عزت سے پیش آئیں گے بلکہ انھیں ملازمت بھی اچھی مل سکے گی۔ بس اس وجہ سے ہی والدین کی ایک بڑی تعداد اپنے بچوں کو اچھے اور مہنگے اسکولوں میں پڑھانے پر مجبور ہے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا والدین کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں؟ ہم اپنے قریبی جان پہچان کے لوگوں میں دو ایسے افراد سے اچھی طرح واقف ہیں کہ جنھوں نے اپنے طور پر اس مسئلے کا حل نکالا اور وہ اس میں بہت حد تک کامیاب بھی رہے۔

ہمارے ایک دوست جو نارتھ کراچی میں رہتے ہیں، انھوں نے اپنی بیٹی اور بیٹے کو ایک عام سے اسکول میں داخلہ دلوایا مگر ان کے لیے انھوں نے بہت قابل افراد سے ٹیوشن لی، خاص کر ریاضی اور انگریزی کے لیے اچھے سے اچھا ٹیوٹر تلاش کیا۔ آج ان کی بیٹی ایم بی بی ایس کے دوسرے سال میں جب کہ بیٹا این ای ڈی یونیورسٹی میں فرسٹ ائیر کا طالب علم ہے اور انھیں انگریزی کی وجہ سے کہیں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔

ہمارے دوسرے جاننے والے بھی متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، انھوں نے اپنے بچوں کو پہلے خود گھر پر تعلیم دی، پھر حافظ قرآن بنایا اور گھر پر ہی ایک انگریزی کا ٹیوشن لگایا، ان کا بچہ اب میٹرک کر رہا ہے، ان کا کہنا ہے کہ جو رقم انھوں نے اپنے بچوں کے لیے کسی انگریزی میڈیم اسکول کو بطور فیس دینی تھی، وہ رقم انھوں نے ہر ماہ جمع کی اور اب ان کے پاس دس لاکھ کے قریب رقم جمع ہوچکی ہے، انٹر کرنے کے بعد وہ ان بچوں کو اس رقم سے کاروبار کروادیں گے۔

انھیں اس بات کی بھی فکر نہیں کہ ان کے بچوں کو کوئی اچھی ملازمت ملتی بھی ہے یا نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آج کل ملازمت میرٹ پر بھی مشکل سے ملتی ہے، اس لیے انھوں نے ایک بڑی رقم کسی انگلش میڈیم اسکول کو دینے کے بجائے کاروبار کے لیے جمع کرلی۔ مندرجہ بالا دونوں افراد اپنے تجربے سے خوش ہیں اور فخر سے کہتے ہیں کہ انھوں نے دوسرے لوگوں کی طرح انگریزی میڈیم اسکولوں کو بھاری بھاری فیسیں نہیں دیں اور نہ ہی انھیں اپنے بچوں کی فیسوں کی ادائیگی کے لیے دوستوں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑا اور ان کے بچے آج کسی دوسرے بچے سے پیچھے نہیں، بلکہ پرفارمنس کے اعتبار سے آگے ہی رہے ہیں۔

بچوں کی پڑھائی کا بڑا مالی بوجھ صرف پاکستانی معاشرے کا مسئلہ نہیں، یہ ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے گوروں کا بھی اتنا ہی بڑا مسئلہ ہے جتنا کہ ہمارا۔ مغرب میں بھی بہت سارے والدین نے اس بڑے مالی بوجھ سے نمٹنے کے لیے طریقے دریافت کرلیے ہیں۔ بیشتر والدین یہ سوچتے ہیں کہ ان نجی اسکولوں کو اتنی بڑی رقم کیوں دیں؟ جب کہ اسکول میں تمام بچوں کا ایک ہی نصاب ہوتا ہے جو تمام بچوں کو ایک ہی رفتار سے پڑھایا جاتا ہے یا ان کے ذہن میں اتارا جاتا ہے، جب کہ ذہنی اعتبار سے ہر بچے کی صلاحیت الگ الگ ہوتی ہے، کچھ بچے تیزی سے سیکھتے ہیں، کچھ درمیانی رفتار سے اور کچھ بہت سست رفتار سے۔ لیکن اسکول میں تمام بچوں کو ایک مخصوص رفتار سے ہی پڑھایا جاتا ہے، وہ رفتار کہ جس سے نصاب پورے سال میں ہی ختم ہوسکے۔

ان والدین کے خیال میں جب اسکول میں ان کے بچوں کی صلاحیت کے اعتبار سے تعلیم نہیں دی جاتی تو وہ اس قدر بڑی رقم کیوں دیں؟ پھر اس صورتحال میں کہ ان کی مالی حالت اس قابل بھی نہیں۔ چنانچہ اس پس منظر میں آج ترقی یافتہ ممالک میں والدین کی ایک بہت بڑی تعداد نے ابتدائی تعلیم اپنے بچوں کو خود گھر پر دینا شروع کردی ہے۔

اس طرح وہ کئی کئی برس اپنے بچوں کو خود گھر پر تعلیم دے رہے ہیں، جس سے ان کے بچوں کی قابلیت بھی اسکول کے کسی بچے سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہی ہوتی ہے، کیونکہ گھر پر بچے کو انفرادی توجہ مل جاتی اور جس قدر اس کا ذہن تیز ہوتا ہے اس رفتار سے پڑھائی کا سفر جاری رہتا ہے۔ یوں ایک جانب ان بچوں کی تعلیم اور بھی بہتر انداز میں ہوتی ہے اور دوسرے والدین ایک بڑی رقم اسکولوں کو دینے سے بچ جاتے ہیں۔

اگر آپ گوگل پر جا کر سرچ کریں تو آپ کو ایک دو نہیں سیکڑوں کی تعداد میں 'ہوم اسکول، موم اسکول' اور 'فادر اسکول' وغیرہ کے نام سے سائٹس مل جائیں گی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ماڈرن ازم کے اس دور میں صرف مشرق ہی میں نہیں مغرب میں بھی متوسط طبقہ اپنے بچوں کے تعلیم پر اٹھنے والے اخراجات سے پریشان ہے اور وہ متبادل طریقے ڈھونڈنے پر مجبور ہے۔

آج صرف متوسط طبقہ ہی نہیں اس سے کمتر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد یہ خواہش رکھتی ہے کہ کسی طرح بھی ان کے بچے مہنگے انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کریں۔ یہی وجہ ہے کہ آج چھوٹے چھوٹے علاقوں میں بھی بہت اچھے اچھے نام والے انگریزی میڈیم اسکول چل رہے ہیں، جہاں فیس بھی ہزار تا تین ہزار ماہانہ لی جاتی ہے، مگر ان اسکولوں میں صرف نصاب انگریزی میں ہوتا ہے، ورنہ تو استاد کو بھی انگریزی میں بات کرنا نہیں آتی، یوں ان اسکولوں میں والدین ہزاروں روپیہ خرچ کرکے بھی خسارے میں رہتے ہیں۔

بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اچھے انگلش میڈم اسکول میں بچے کی تعلیم کا خیال ایک بھوت بن کر ہم پر سوار ہوگیا ہے ورنہ پہلے کے لوگوں نے سرکاری اسکولوں سے ہی پڑھ کر اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ اچھی انگلش کسی اچھے اور مہنگے اسکول سے ہی کیوں حاصل کی جائے، یہ مقصد تو اپنے بچوں کو ایک اچھا ٹیوٹر لگا کر بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس تنقید سے لاکھ اختلاف کیا جائے مگر یہ تنقید اپنے اندر وزن ضرور رکھتی ہے اور والدین کو فکر کی دعوت دیتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔