برکس کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ

برکس تنظیم کا مشترکہ اعلامیہ ہمارے پالیسی سازوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے


Editorial September 06, 2017
برکس تنظیم کا مشترکہ اعلامیہ ہمارے پالیسی سازوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے . فوٹو : فائل

GILGIT: دنیا کی پانچ ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم برکس نے پہلی مرتبہ اپنے مشترکہ اعلامیے میں پاکستان میں پائی جانے والی شدت پسند تنظیموں لشکرِ طیبہ اور جیشِ محمد کا ذکر کیا ہے۔ برکس کے ارکان میں بھارت،چین، برازیل، روس جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ پیر کو چین کے شہر ژیامن میں برکس تنظیم کی نویں اہم کانفرنس ہوئی ہے۔

کانفرنس کے بعد مشترکہ اعلامیے میں کہاگیاہے کہ دہشتگردی کے واقعات میں ملوث، ان کا انتظام کرنے یا حمایت کرنے والوں کو کیفرِکردار تک پہنچایا جانا چاہیے۔ پانچوں ممالک کے سربراہان نے مشترکہ اعلامیے میں ایسی تنظیموں کی سخت مذمت کی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جاری رکھنے کا اعادہ کیا گیا۔ 43 صفحات پر مشتمل اعلامیے میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ افغانستان میں فوری طور پر جنگ بندی ہونی چاہیے۔

برکس ممالک نے طالبان، دولتِ اسلامیہ(داعش)'القاعدہ اور اس کے ساتھی گروہوں بشمول مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، حقانی نیٹ ورک، لشکرِ طیبہ، جیشِ محمد، ٹی ٹی پی اور حزب التحریر کی وجہ سے خطے میں ہونے والے فساد اور بدامنی کی مذمت کی۔

برکس تنظیم کا مشترکہ اعلامیہ ہمارے پالیسی سازوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔گو پاکستان نے برکس تنظیم کے مشترکہ اعلامیہ کو مسترد کر دیا ہے لیکن اس معاملے سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔بھارت برکس تنظیم کو اپنے موقف سے ہم آہنگ کرنے میں خاصی حد تک کامیاب ہوا ہے۔

تنظیم کے اجلاس سے پہلے چینی وزیرِ خارجہ نے کہا تھا کہ 'ہمیں پتا ہے کہ بھارت کے پاکستان کی جانب سے انسدادِ دہشتگردی کے حوالے سے خدشات ہیں' ہمیں ہمارے خیال میں برکس اس پر بحث کرنے کا درست فورم نہیں ہے لیکن پھر بیک چینل سرگرمیاں ہوئیں جو برکس کے مشترکہ اعلامیے کی صورت میں سامنے آئی ہیں۔

یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ گزشتہ برکس اجلاسوں میں چین نے پاکستان میں پائے جانے والے گروہوں کومشترکہ اعلامیے میں شامل نہیں ہونے دیا تھا حالانکہ گزشتہ اجلاس مقبوضہ کشمیر میں اوڑی حملے کے ایک ہفتے بعد ہی ہورہا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری سفارتکاری اس اہم ترین کانفرنس کے حوالے سے ناکام رہی ہے۔پاکستان کے پالیسی سازوں کو یقیناً اس بات کا علم تھا کہ اس تنظیم کی کانفرنس میں میں بھارت کا ایجنڈا کیا ہو گا۔اس کے باوجود پاکستان نے بھارتی ایجنڈے کو ناکام بنانے کے لیے متحرک سفارتکاری کا مظاہرہ نہیں کیا۔

اگر سفارتکاری متحرک ہوتی تو کم از کم چین جیسا قابل اعتماد اتحادی اس بار بھی ماضی کی تاریخ دہرا سکتا تھا۔ لیکن شاید چین بھی اپنے مفادات کے سامنے سرنڈر کر گیا اور اسے ایسے مشترکہ اعلامیے پر دستخط کرنا پڑے جس کا ہدف پاکستان بنا ہے۔بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعہ بھی سب کے سامنے ہے' بھارت چین کا اہم تجارتی پارٹنر بھی ہے۔

بھارت نے چین کے متنازعہ سرحدی علاقے سے فوجیں واپس بلانے کا اعلان کر دیا تھا' شاید اسی رعایت کی وجہ سے چین بھی مشترکہ اعلامیے میں بھارت کے ساتھ چلا گیا'سوچنے کی بات یہ ہے کہ روس 'جنوبی افریقہ اور برازیل نے بھی پاکستان کے حق میں کوئی بات نہیں کی۔ بھارتی وزارت خارجہ کی ایک اہلکار پریتی سارن کا مشترکہ اعلامیہ پر ردعمل یہ ہے کہ یہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ برکس اجلاس میں دہشت گرد تنظیموں کے ناموں کو دستاویز کی شکل دی گئی ہے اور یہ بہت اہم پیش رفت ہے۔

عجیب بات یہ بھی ہے کہ اگر مشترکہ اعلامیے میں دہشت گرد تنظیموں کا ذکر بھارت کے دباؤ پر ہوا تو کم از کم پاکستان چین کو اس امر پر قائل کر سکتا تھا کہ مشترکہ اعلامیے میں کشمیر کا ذکر کر دیا جائے لیکن ایسا بھی نہیں ہو سکا۔ اعلامیہ میںیہ بھی کہا گیا ہے ہم بین الاقوامی برادری پر زور دیتے ہیں کہ وسیع البنیاد بین الاقوامی انسداد دہشتگردی اتحاد قائم کیا جائے اور اس ضمن میں اقوام متحدہ کی رابطہ قرار دادوں کی حمایت کی جائے۔

پاکستان کے پالیسی سازوں کو موجودہ صورت حال میں ایسی خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے جس سے دنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ پاکستان کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں اور یہاں کوئی دہشت گرد گروہ متحرک ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک ایسا خطرناک ہتھیار ہے جس کا رخ کسی بھی جانب ہو سکتا ہے۔امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی بھی سب کے سامنے ہے۔ ایسی صورت حال میں پاکستان کو دہشت گرد تنظیموں کے خلاف پوری دلجمعی کے ساتھ کارروائی کرنی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی یہ باور کرانا چاہیے کہ پاکستان کا موقف درست ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں