جوڑ توڑ کے ماہر حکمران…ملک پھر بھی برباد
اتحادی حکمران یہ واویلا کریں کہ ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے تو اسے آپ کیا کہیں گے؟ اپنے جرائم پر پردہ ڈالنا یا کچھ اور؟
اپنی حکومت کی مدت پوری کرانی ہو یا دوسری پارٹیوں سے ارکان توڑنے کا معاملہ ہماری موجودہ سیاسی قیادت سے زیادہ زیرک اور عقل مند کوئی ہو نہیں سکتا۔ اندرون ملک مسائل ہوں یا عالمی معاملات، ان سے نبرد آزما ہونے کی بات ہو تو ان کی اکثریت سیاسی سوجھ بوجھ سے عاری نظر آتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے معاملہ فہمی ان کے قریب سے بھی نہیں گزری۔
فی الحال دیگر ملکی اور بین الاقوامی معاملات کو ایک طرف رکھتے ہوئے وطن عزیز کو درپیش سب سے سنگین مسئلے دہشت گردی کو لیتے ہیں۔ دہشت گرد روزانہ کی بنیاد پر کارروائیاں کرتے ہیں۔ موجودہ جمہوری دور کے تقریباً پانچ برسوں میں ہزاروں بے گناہ شہری ان کارروائیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ہر کارروائی کے بعد ہماری سیاسی قیادت ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے دعوے کرتی رہی۔کچھ عرصہ پہلے یہ کارروائیاں کرنے والے شدت پسند ایک وڈیو کے ذریعے مخاطب ہوئے اور انھوں نے مذاکرات کی دعوت دے دی۔ ادھر انھوں نے پیش کش کی ادھر ہاں، ہاں کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔ شدت پسندوں نے مذاکرات کے لیے نواز شریف' فضل الرحمن اور منور حسن کو بطور گارنٹر مانگا۔ جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے سربراہ تو پہلے ہی ان سے مذاکرات کا مطالبہ کر رہے ہیں' نواز شریف صاحب نے بھی مذاکرات کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیا۔
اے این پی بھی جس کے سب سے زیادہ لیڈر اور کارکن دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے گئے مذاکرات کے حق میں ہے اور اس نے اسلام آباد میں ایک امن کانفرنس کا انعقاد بھی کر ڈالا۔ اس کانفرنس میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی شریک نہیں ہوئیں، دیگر 24جماعتیں جو شریک ہوئیں انھوں نے مذاکرات کی حمایت کی۔ شدت پسند اس کانفرنس سے بہت ''خوش'' ہوئے اور انھوں نے اگلے ہی روز اپنے جذبہ ''خیرسگالی'' کا مظاہرہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ امیر حیدر ہوتی پر خودکش حملہ کر کے کیا۔ امیر حیدر خوش قسمت تھے کہ وہ محفوظ رہے۔ ورنہ بشیر احمد بلور کی طرح وہ بھی شہدائے اے این پی کی فہرست میں شامل ہو چکے ہوتے۔ دہشت گردوں نے پیر کو باڑہ میں پولیٹیکل ایجنٹ کے دفتر پر حملہ کر کے مذاکرات کی راہ مزید ہموار کرنے کی ایک اور کوشش کی ہے۔ شدت پسندوں سے مذاکرات کے لیے یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ چونکہ امریکا افغان طالبان سے بات چیت کر رہا ہے اس لیے ہمیں بھی ''اپنے'' لوگوں سے گفت وشنید میں کوئی حرج محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ امریکا تو افغانستان پر قابض ہے اور اسے وہاں سے نکلنا ہے اس لیے وہ مذاکرات کر رہا ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی یہ بھی چاہتے ہیں کہ جب وہ افغانستان سے واپس چلے جائیں تو اس کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو طالبان پُر نہ کریں۔ ویسے بھی امریکی ایک مدت سے طالبان کو سیاسی دھارے میں لانے کی کوششوں میں جُتے ہوئے ہیں۔ ان کوششوں میں انھیں کافی حد تک کامیابی بھی ہوئی ہے۔ پاکستان میں طالبان کے ساتھی سفیر ملا ضعیف اور کئی اور سابق طالبان افغانستان میں پر امن طریقے سے رہ رہے ہیں۔
ادھر حالات مختلف ہیں۔ ہمارے یہ ''اپنے'' دہشت گردی کی کارروائیاں ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ وہ اس ملک کی اکثریت کو کافر کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہماری عدالتیں بھی غیر شرعی ہیں۔ ان کے مطالبات ماننے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنا طرز زندگی یکسر بدل دیں۔ کیا ''دانش مندانہ'' فیصلہ ہے کہ ہمارے ''اپنے'' ہمیں مارتے رہیں، ہمارے شہروں کو بارود سے اڑاتے رہیں، ہمارے اسکول جاتے پھول سے بچوں سے ان کی زندگیاں چھینتے رہیں اور ہم ان سے مذاکرات کے لیے پریشان ہوں۔ کیا ان کی کارروائیوں اور مطالبات پر اڑے رہنے کے باوجود ہماری طرف سے مذاکرات کی خواہش ہمیں کمزور ظاہر نہیں کرے گی۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کسی مسئلے کا حتمی حل مذاکرات کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ شدت پسند اس ملک کا وجود تسلیم کریں' اس کے آئین پر عمل کرنے کی یقین دہانی کرائیں اور دہشت گردی کی کارروائیاں ترک کر دیں۔ ہتھیار ڈالیں اورمذاکرات کی ٹیبل پر آ جائیں۔
کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کا نام ونشان مٹانے کی الگ کوشش ہو رہی ہے۔ اس کمیونٹی کے سیکڑوں افراد بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ہزارہ کمیونٹی کوئٹہ کے ہزارہ ٹائون میں ہفتے کو ہونے والے ملکی تاریخ کے بدترین دھماکے میں 90 کے قریب افراد جاں بحق اور 180 زخمی ہو گئے۔ گزشتہ ماہ بھی اسی طرح کی ایک کارروائی میں ہلاکتوں کے بعد اس کمیونٹی کے افراد شدید سردی میں کھلے آسمان تلے 87 میتوں کو رکھ کر احتجاج کرتے رہے۔ چار دن کے احتجاج کے بعد وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اپنی کابینہ کے بعض ارکان کے ساتھ ان کے دھرنے میں گئے اور گورنرراج کے نفاذ کا اعلان کر کے انھیں میتیں دفنانے پر آمادہ کیا۔ یہ لوگ میتوں کے ساتھ ایک بار پھر کھلے آسمان تلے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔گزشتہ ماہ وزیر اعظم نے انھیں راضی کر لیا تھا، اب کون کرے گا؟ کیا اس بار صدر کو خود چل کر ان کے پاس جانا پڑے گا یا فوج کے ذریعے آپریشن کا ان کا مطالبہ تسلیم کیا جائے گا۔ اب انھیں منانا آسان نہیں ہو گا۔گورنر بلوچستان نے ہزارہ کمیونٹی کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی قرار دے کر اپنی ذمے داری پوری کر دی ہے۔ رحمان ملک نے ایک بار پھر ہمیں یاد دلایا ہے کہ بلوچستان کے حالات خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس سے زیادہ ان سے اور توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے۔
ملک کے حالات پر ایک نظر دوڑائی جائے تو بلوچستان اور کے پی کے بم دھماکوں اور خودکش حملوں کی زد میں ہیں۔کراچی میں ٹارگٹ کلنگ عروج پر رہی۔ بلوچستان میں بھی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ پنجاب میں دیگر تینوں صوبوں کی نسبت حالات بہتر ہیں۔ اس وقت پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جہاں ن لیگ کی حکومت ہے جو مرکزی حکومت میں بطور اتحادی شامل نہیں ہے۔ سندھ میں ایم کیو ایم کے علیحدگی کے حالیہ اعلان سے پہلے وہ پیپلزپارٹی کی اتحادی جماعت رہی ہے۔ بلوچستان میں گورنر راج کے بعد وہاں براہ راست وفاق کا کنٹرول ہے۔ خیبر پختونخوا میں پیپلزپارٹی اور اے این پی اتحادی ہیں۔ ان تینوں صوبوں میں آئی جی، چیف سیکریٹری، ایف آئی اے اور آئی بی سمیت تمام انتظامی سربراہان صوبائی حکومتوں کی مرضی سے تعینات کیے گئے ہیں۔ یعنی معاملات پر کنٹرول کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں ہے۔ بلوچستان اور کے پی کے میں قبائلی علاقوں کے مسئلے کے حل کی کنجی بھی وفاق کے پاس ہے۔ بلوچستان میں اے یا بی ایریا کے حوالے سے پولیس یا دیگر ایجنسیوں کو کوئی مسئلہ درپیش ہے تو اسے بھی وفاق نے ختم کرنا ہے جس کے سربراہ صدر مملکت ہیں۔ اتنا سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اگر اتحادی حکمران یہ واویلا کریں کہ ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے تو اسے آپ کیا کہیں گے؟ اپنے جرائم پر پردہ ڈالنا یا کچھ اور...؟
جوڑ توڑ کی سیاست، حکومت سازی کے گُراور اقتدار کو طوالت دینے کے فارمولوں کے سوا بھی انھیں کچھ سجھائی دے گا؟ امید تو نہیں ہے۔