اسے کیا کہیں

کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا آج انتہائی کسمپرسی کا شکار ہے


Muqtida Mansoor September 07, 2017
[email protected]

CAPE CANAVERAL, FLA: نئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے حلف اٹھاتے ہی ایک 47 رکنی کابینہ تشکیل دیدی۔ کچھ روز بعد پانچ نئے معاونین خصوصی بھی مقرر کر لیے۔ پھر مزید وزرا شامل کر لیے۔ یوں کابینہ کا حجم ساٹھ سے تجاوز کرگیا۔ اس حوالے سے دو سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اول، ایک غریب ملک کی معیشت جس کا میزانیہ غیر ملکی اور ملکی گردشی قرضوں اور بیرون ملک پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقوم یعنی Remittances سے چلتا ہو ،کیا وزرا کی اتنی بڑی فوج ظفر موج کا متحمل ہو سکتا ہے؟ دوئم، ایک وفاقی مملکت جس میں بیشتر شعبہ جات وفاقی اکائیوں کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور جب کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں بیشتر شعبہ جات صوبوں کو واپس بھی کردیے گئے ہوں، اتنی بڑی کابینہ تشکیل دینے کا کیا جواز رکھتا ہے؟

یہی کچھ حال صوبوں کا ہے۔ جہاں ایک ہی محکمے کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے اراکین اسمبلیوں کو وزارتوں سے نوازا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے وفاقی و صوبائی وزرا اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو بلدیاتی ذمے داریاں نبھانے کا بھی شوق ہے۔ کیونکہ اس طرح انھیں ترقیاتی فنڈز پر دسترس حاصل ہوجاتی ہے۔ پھر ہر وزیر اور ہر رکن اسمبلی اور سینیٹر کا سرکاری ملازمتوں میں کوٹا بھی مختص ہوتا ہے۔ گویا قانون سازی کے سوا ہر وہ کام ہمارے وزرا اور اراکین اسمبلیوں کی دلچسپی کا باعث ہیں، جس میں بے بس و بے کس عوام کو قابو میں رکھنے کا کوئی سلسلہ موجود ہو۔

اب دوسری طرف آیے ۔ کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا، جو آج بھی ملکی معیشت کا انجن ہے۔ انتہائی کسمپرسی کا شکار ہے۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، جا بجا کچرے کے ڈھیر اور ابلے گٹر میگا سٹی کے تصور کا منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔پینے کا صاف پانی نایاب شفاخانوںاور اسپتالوں کی حالت ناگفتہ بہ ۔ سرکاری اسکول و کالج ٹوٹ پھوٹ اور بدنظمی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ نا پید ۔ جو خستہ حال بسیں اور ویگنیں دستیاب ہیں، ان میں لوگ بھیڑ بکریوں کی طرح سفر کرنے پر مجبور ہیں ۔ امن و امان کا یہ حال ہے کہ بینکوں، شاہراہوں اورگھروں میں ڈکیتیاں اور اسٹریٹ کرائمز روزکا معمول بن چکے ہیں۔

اس پر طرہ یہ کہ تلاش روزگار میں ملک بھر سے آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے، مگر اس بد حالی، انتشار اور افراتفری کے عالم میں بھی یہ شہر نہ صرف غربا کا پیٹ پال رہا ہے، بلکہ سرکاری اداروں کے کارندوں کو روزانہ کروڑوں کے حساب سے رشوت کی شکل میں مال غنیمت بھی بخش رہا ہے ۔ ریاست کی آمدنی کا 60 فیصد یہ شہر مہیا کرتا ہے، مگر اسے اس کی آبادی کے تناسب سے اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی نہیں مل رہا۔

لیکن معاملہ صرف کراچی تک محدود نہیں ہے۔ لاہور جس کی ترقی کی داستانیں زبانِ زد عام ہیں، بارشوں میں اس کی سڑکیں بھی نہروں اور نالوں کا منظر پیش کررہی ہوتی ہیں۔ راولپنڈی، فیصل آباد ، حیدرآباد ، پشاور اور ملتان سمیت ہر بڑے شہر کی کسمپرسی کی ایسی ہی داستانیں ہیں۔ ایک ایسے منظر نامے میں جہاں بڑے شہروں کی حالت ابتری کا شکار ہو، چھوٹے شہروں اور قصبوں کی سماجی اور انتظامی زبوں حالی کا ذکر ہی بیکار ہے۔ اس صورتحال کا سبب یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں پر قبائلی اور جاگیردارانہ کلچر غالب ہے۔ جس کے زیر اثر وہ اقتدار و اختیار کی مرکزیت قائم رکھنے کے خواہش مند رہتے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ سیاسی حکومتیں آمروں کے دور میں متعارف کردہ ایسے مقامی حکومتی نظاموں کو بھی ختم کردیتی ہیں، جو نچلی سطح پر عوام کی فیصلہ سازی میں شرکت اور بااختیاریت کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

دراصل دوسری عالمی جنگ کے بعد سے دنیا بھر میں اقتدار و اختیار کی عدم مرکزیت کا رجحان تیزی کے ساتھ پروان چڑھا ہے۔ جس کے نتیجے میں بیشتر انتظامی اور مالیاتی ادارے نچلی سطح تک منتقل کیے جارہے ہیں۔ مرکزی یا وفاقی حکومتیں صرف وہ وزارتیں اور شعبہ جات اپنے پاس رکھ رہی ہیں، جن کا تعلق بین الاقوامی تعلقات، عالمی تجارت اور قومی سلامتی سے ہے۔ ایسی وفاقی یا مرکزی وزارتیں ختم کردی گئی ہیں، جن کا دائرہ اختیار ریاستوں (صوبوں)تک محدود ہو۔ ریاستیں (صوبے) بھی ان شعبہ جات کی وزارتیں قائم کرنے سے گریز کر رہی ہیں، جو بلدیاتی حکومتوں کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔

امریکا میں 10ویں آئینی ترمیم کے ذریعے چار درجاتی مقامی حکومتی نظام رائج کیا گیا۔ جس کے مطابق (iکاؤنٹی حکومت،(ii ٹاؤن اور ٹاؤن شپ حکومت ، (iii میونسپل حکومتیں، (iv خصوصی مقاصد کی مقامی حکومتیں (Special Purpose Local Governments)۔ریاستوں کو کاؤنٹیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر کاؤنٹی انتظامی طور پر بااختیار ہوتی ہے۔ پولیس، تعلیم ، صحت اور نکاسی اور فراہمی سمیت مقامی نوعیت کے 24شعبہ جات اس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ اس کے نیچے ٹاؤن اور ٹاؤن شپ حکومتیں ہوتی ہیں اور سب سے نیچے میونسپل کمیونٹیاں ہیں جو مختلف ذیلی ذمے داریاں سرانجام دیتی ہیں۔

بھارت میں پنچایتی نظام قبل مسیح میں متعارف ہوا تھا۔ جس کا ذکر رگ وید میں بھی ہے، مگر یہ غیر منتخب مقامی اشرافیہ پر مشتمل ہوتا تھا۔ بھارتی حکومت نے1992 میں آئین میں 73ویں اور74ویں ترمیم کے ذریعے اس قدیمی نظام کو جمہوری شکل میں متعارف کرایا ہے۔ یعنی پنچائیت کے اراکین اور سربراہ عوامی ووٹ کے ذریعے منتخب ہوگا۔ اس وقت بھارت میں جو مقامی حکومتی نظام مروج ہے، وہ دیہی اور شہری سطح پر تین درجاتی ہے ۔ یعنی دیہاتوں کے لیے 1گرام پنچائیت، 2۔ منڈل یا تعلقہ پنچائیت، 3۔ضلع پنچائیت۔شہری سطح پر1۔نگر پالیکا (Union Committee)، 2۔میونسپل کونسل، 3۔میونسپل کارپوریشن۔ جب کہ 10لاکھ (ایک ملین) سے زائد آبادی والے شہروں کے لیے میٹروپولیٹن نظام متعارف کرایا گیا ہے۔

ضروری نہیں کہ ہم اسی نظام کو اپنانے کی کوشش کریں، لیکن یہ دیکھنے کی بہر حال ضرورت ہے کہ بھارت سمیت دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں شراکتی جمہوریت کے فروغ کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ہم دنیا کے مختلف ممالک میں اقتدار و اختیار کی نچلی ترین سطح تک منتقلی کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا مطالعہ کرتے ہوئے، ان میں سے اپنے لیے بہتر نظام کا انتخاب کرسکتے ہیں۔

البتہ یہ طے ہے کہ اب جنرل ضیا کا متعارف کردہ وہ نظام نہیں چلے گا، جس نے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کو ترقیاتی فنڈز بطور سیاسی رشوت دینے کے کلچر کو جنم دیا۔ حالانکہ ترقیاتی فنڈز کے تصرف کا اختیار صرف مقامی حکومتوں کو ہوتا ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کا کام صرف قانون سازی ہے، اگر کوئی رکن قومی یا صوبائی اسمبلی قانون سازی نہیں کرسکتا یا کرنا نہیں چاہتا یا بلدیاتی نظام کا حصہ بننا چاہتا ہے، تو اپنی نشست کسی اہل فرد کے لیے خالی کردے۔ اس کے علاوہ وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کو مقامی حکومتوں کی کارکردگی کی مانیٹرنگ کے لیے فعال مکینزم ترتیب دینا ہوگا، تاکہ ہر سطح پر کرپشن اور بدعنوانی کا خاتمہ ہوسکے اور عوام کو نچلی سطح پر بہتر سہولیات مہیا کی جاسکیں۔

اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کو وزارتوںاور ترقیاتی فنڈز کی رشوت دے کر قومی خزانے پر بوجھ ڈالنے کے بجائے صرف درجن بھرایسی وزارتیں وفاق یا صوبوں میں رکھی جائیں، جو وفاقی یا صوبائی نظام کو چلانے کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔لہٰذا عرض ہے کہ خدارا مغل بادشاہوں کی طرح قومی خزانے اور وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لٹانے کے بجائے اسے قومی ترقی کے مثبت کاموں میں استعمال خرچ کرنے کے کلچر کو فروغ دیں۔ یہ اس ملک اور اس کے عوام پر احسان عظیم ہوگا ۔ یہ درد مندانہ درخواست صرف حزب اقتدار سے نہیں بلکہ ہر سیاسی جماعت سے ہے، جو اقتدار میں آنے کے لیے کوشاں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں