سہولیات سے محروم عوام اور حکومتیں

پھر بھی دہشتگردی کی روک تھام کے لیے ابھی مزید اقدامات اٹھانے ہوں گے


ایم اسلم کھوکھر September 07, 2017

ایک حقیقی جمہوری حکومت کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ جمہوری حکومت اپنے عوام کو یہ دس چیزیں مہیا کرے وہ دس چیزیں یہ ہیں۔ اول خوراک، دوم رہائش، سوم پوشاک، چہارم تعلیم، پنجم روزگار، ششم علاج، ہفتم سماجی امن، ہشتم سفری سہولیات، نہم توانائی، دہم بیرونی جارحیت سے تحفظ۔ مگر عصر حاضر میں حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر کی تمام حکومتیں اپنے اپنے عوام کو یہ سب چیزیں مہیا کرنے سے قاصر نظر آتی ہیں۔ گوکہ اکثریت ایسی حکومتیں ہیں جوکہ جمہوری حکومتیں کہلاتی ہیں یہ کس قدر جمہوری حکومتیں ہیں اس پر ہم ذیل کی سطور میں بات کریں گے۔

فی الوقت مندرجہ بالا سطور میں انسانی ضروریات کی ذکرکردہ دس چیزوں پر تفصیل سے بات کریں گے۔ اول ہم نے ذکر کیا ایسی چیز کا جس کے بغیر کسی بھی ذی روح کا زندہ رہنا محال ہے وہ چیز ہے خوراک۔ بیان کیا جاتا ہے عصر حاضر میں دنیا کی آبادی ہے سات ارب اور جس قدر دنیا بھر میں خوراک پیدا ہو رہی ہے وہ دنیا کے دس ارب انسانوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔ مگر ستم یہ ہے کہ قدرت کی عطا کردہ اس نعمت پر فقط چند ہزار سرمایہ دار قابض ہیں جس کے باعث دنیا کی آدھی سے زائد آبادی بھوک بلکہ غذائی قلت کا شکار ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ وافر مقدار میں غذائی اشیا سمندر میں ڈال دی جاتی ہیں مگر صارفین کو سستے داموں فروخت نہیں کی جاتیں بلکہ مصنوعی قلت پیدا کرکے غذائی اشیا کو من پسند داموں فروخت کیا جاتا ہے البتہ ترقی پذیر ممالک میں یہ پروپیگنڈا ضرور کیا جاتا ہے کہ دیکھو ہم گندم کے معاملے میں خودکفیل ہوچکے ہیں۔

اس سلسلے میں ترقی یافتہ ترین ملک امریکا کی مثال اگر سامنے رکھیں تو وہاں بھی لاکھوں امریکی خیراتی اداروں میں جاکر کھانا کھانے پر مجبور ہیں کہ غذائی اشیا عام امریکیوں کی قوت خرید سے باہر ہوچکی ہیں۔ دوم انسان کی اہم ترین ضرورت ہے لباس تو کیفیت یہ بنتی ہے کہ ہمارے سماج میں لنڈا بازاروں کے باعث پوشاک کا مسئلہ اتنا گمبھیر نہیں ہے بصورت دیگر کوئی 15 سو روپے میں انسان کے لیے ایک جوڑا شلوار قمیص تیار ہوتا ہے وہ بھی گزارے لائق۔ سوم انسانی ضرورت کی اہم چیز ہے رہائش مگر شہری آبادی کی اکثریت اس نعمت سے محروم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی یہ ضرورت دنیا کی اکثر حکومتیں پوری کرنے سے قاصر ہیں۔

چہارم ذکر کریں گے روزگار کا۔ مگر فقط ہمارے سماج کی اگر مثال دی جائے تو یہاں طویل عرصے سے ہماری حکومتیں روزگار دینے کی بجائے لوگوں کو روزگار سے محروم کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں کیونکہ ایک جانب ٹھیکیداری نظام نافذ ہوچکا ہے تو دوسری جانب نجکاری پر بڑی سرعت سے عمل کیا جا رہا ہے یہ دونوں صورت میں محنت کش کے لیے حصول روزگار کے مواقعے کم سے کم ہوتے جاتے ہیں چنانچہ اس کیفیت میں بیروزگاری کا ایک طوفان ہے جوکہ پوری شدت سے ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ پنجم انسانی ضرورت ہے تعلیم۔ جب سے تعلیم کا شعبہ نجی ہاتھوں میں دیا گیا ہے گویا تعلیم کا شعبہ مکمل تجارت کی شکل اختیار کرچکا ہے کیفیت یہ ہے کہ حصول تعلیم اب ایک مہنگا ترین عمل ہے اب یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی عام محنت کش کا بچہ تمام تر کوشش کہ بعد میٹرک سے آگے حصول تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکے جب کہ عصر حاضر میں میٹرک تعلیم رکھنے والا و انگوٹھا چھاپ دونوں برابر ہیں۔

یوں بھی خطے میں افغانستان کے علاوہ ہمارا تعلیمی معیار سب سے کم ہے افغانستان بھی ہم سے یوں تعلیم کے میدان میں پیچھے ہے کہ وہ گزشتہ 38 برس سے جنگ سے دوچار ہے بصورت دیگر تعلیمی معیار میں وہ یقینا ہم سے بہتر حالت میں ہوتا۔ ششم انسانی ضرورت ہے علاج کی سہولیات تو کیفیت یہ ہے کہ یہ شعبہ بھی تعلیم کی مانند نجی شعبے میں کلی طور پر دیا گیا ہے جزوی طور پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ شعبہ حکومت کے اپنے ہاتھوں میں ہے چنانچہ جہاں جہاں یہ شعبہ حکومتی ہاتھوں میں ہے وہاں وہاں علاج کی سہولیات کا فقدان ہے گویا عوام کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ نجی علاج گاہوں کا رخ کریں ظاہر ہے ان نجی علاج گاہوں کے اخراجات سب کے سب کی بات نہیں نتیجہ ہماری اکثریت آبادی مہلک امراض کا شکار ہے۔

ہفتم انسانی ضرورت ہے سفری سہولیات ہمارے سماج میں اگرچہ یہ سہولیات پہلے ہی سب کو میسر نہیں۔ مزید ستم یہ کہ ریلوے میں نجکاری کا عمل شروع ہوچکا ہے جس کے باعث سفر کرنا بھی اب ایک مہنگا ترین عمل بن چکا ہے۔ نجکاری کا ہی نتیجہ ہے کہ اب کراچی سے لاہور کا یک طرفہ کرایہ ہے کم سے کم 1150 روپے زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار پانچ سو روپے ہے فضائی سفر کا اس لیے تذکرہ نہیں کریں گے کہ عوام کی اکثریت فضائی سفر کی سہولیات سے محروم ہے بلکہ عوام کی اکثریت یہ سوال کرتی نظر آتی ہے کہ جہازکی نشستیں کیسی ہوتی ہیں۔ ہشتم انسان کی ضرورت ہے سماجی امن یعنی کہ ریاست کے تمام شہریوں کو حکومت ہر قسم کا تحفظ دے یعنی سماج دشمن لوگوں سے تحفظ دہشتگردی سے تحفظ مطلب یہ کہ عام شہری اپنے روزمرہ کے معمولات بلاخوف و خطر انجام دے سکے۔ مگر ہو یہ رہا ہے حکمرانوں کی غلط حکمت عملیوں کے باعث عوام تمام قسم کے سماجی تحفظ سے محروم ہیں گوکہ اب آپریشن ضرب عضب و ردالفساد جیسی آرمی کارروائیوں کے باعث سماجی امن قائم ہوا ہے۔

پھر بھی دہشتگردی کی روک تھام کے لیے ابھی مزید اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ نہم ہم ذکر کریں گے توانائی کا تو کیفیت یہ ہے کہ پاکستان میں یہ بحران گزشتہ 12 سال سے پوری شدت سے موجود ہے۔ ان 12 سالوں میں تمام حکومتوں نے توانائی بحران پر قابو پانے کی نوید تو سنائی مگر ان 12 سالوں میں کوئی بھی حکومت اس توانائی بحران کے جن کو قابو نہ کرسکی۔ کیفیت یہ ہے کہ اس توانائی بحران کے باعث صنعتی شعبہ شدید متاثر ہے۔ بالخصوص چھوٹی و گھریلو صنعتیں ختم ہونے کے قریب ہیں۔

دہم حکومتی ذمے داری ہے خارجی جارحیت سے محفوظ رکھنے کی مگر دنیا بھر کی اکثر کمزور ریاستیں خارجی جارحیت کا شکار ہیں البتہ اس سلسلے میں افغانستان، عراق، لیبیا، شام، فلسطین وغیرہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ یہ ریاستیں طویل عرصے سے سامراجی جارحیت کا شکار ہیں اور ان ریاستوں کی نجات کا کوئی ذریعہ نظر نہیں آرہا جب کہ پاکستان کی گزشتہ 38 برسوں کی تمام تر قربانیوں کو پس پشت ڈال کر امریکی سامراج پاکستان کو سنگین دھمکیاں دے رہا ہے گویا ہمارے لیے خارجی جارحیت کا شدید خطرہ پیدا ہوچکا ہے دیکھیں ہمارے حکومتی ادارے اس جارحیت کی دھمکیوں کے سدباب کے لیے کیا اقدامات اٹھاتے ہیں۔

بہرکیف ہم نے جن 10 حکومتی ذمے داریوں کا ذکر کیا ہے یہ تمام سہولیات تو پس پشت ڈال دیں آج کی نام نہاد جمہوری حکومتیں تو پانی جیسی بنیادی چیز دینے سے بھی قاصر ہیں جب کہ پانی کے بنا تو زندگی کا تصور تک ناممکن ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ حکومتیں عوام کو بنیادی سہولیات دینے سے کیوں قاصر ہیں؟ تو عام فہم جواب یہ ہے کہ یہ حکومتیں جمہوری ہی نہیں بلکہ جمہوریت کے نام پر سرمایہ داری حکومتیں ہیں گویا سرمایہ داری آمریتیں ہیں ان حکومتوں سے یہ امید رکھنا کہ یہ عوامی مسائل حل کریں گی عبث ہی ہوگا۔ چنانچہ ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومتی ایوانوں میں عوام کے حقیقی نمایندوں کو بھیجا جائے ان نمایندوں کو جنھیں عوام کے مسائل کا ادراک بھی ہو یہی حقیقی جمہوریت ہوگی اور عوام کے مسائل کا حل حقیقی جمہوریت میں ہے ناکہ سرمایہ داری آمریت میں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں