عید کے بعد

ہمارا تعلق اس امت سے ہے جس کے لیے صفائی کو نصف ایمان کا درجہ دیا گیا ہے۔


Amjad Islam Amjad September 08, 2017
[email protected]

گزشتہ کچھ برسوں سے بقر عید کی تیاریوں کے حوالے سے میڈیا پر مختلف تنومند اور مہنگے جانوروں اور ان کے نت نے ناموں اور خصوصیات کی بہت دھوم رہنے لگی ہے کہ اس اژدہے کا پیٹ بھرنا (جے عرف عام میں ٹی وی اسکرین کہا جاتا ہے) ایک بہت مشکل اور محنت طلب کام ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے نئے میڈیا مالکان اور ان کی ٹیموں کے بیشتر ارکان نے کسی خاص بکرے یا بیل کی تصویر، اس کے وزن اور مجوزہ قیمت کو بھی ''بریکنگ نیوز'' کی شکل دے دی ہے۔

سو اس عید پر بعض جانور (یعنی قربانی کے جانور) کئی وزیروں اور سیاستدانوں سے بھی زیادہ دکھائے گئے ہیں اور کئی بقر منڈیوں کی ریٹنگ(Rating) بہت سے پروگراموں سے اچھی رہی ہے۔ عید سے ایک دن قبل تو یہ حال تھا کہ بکروں نے میاں محمد نواز شریف کی لندن روانگی، عائشہ گلالئی کے بیانات، حلقہ 120 کی صورتحال، ٹرمپ کی افغان پالیسی اور مردم شماری کے بارے میں بعض پارٹیوں کے تحفظات سے متعلق خبروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ میڈیا ہائوسز کے نزدیک ممکن ہے بکروں اور ان سے متعلق خبروں کو اضافی ایئر ٹائم دینا مالی اعتبار سے زیادہ نفع بخش ہو کہ وہ ہر چیز کو اسی ایک عینک سے دیکھنے کے عادی ہیں مگر امر واقعہ یہ ہے کہ قربانی جیسی ایمان افروز رسم اور سنت ابراہیمی کے تقدس کو اس طرح سے کھیل تماشا بنادینا کوئی احسن اور قابل تعریف بات نہیں کہ اصل بات قربانی کا جذبہ ہے۔ مویشیوں کا وزن، آن بان اور قیمت نہیں۔

بہرحال اب تو جیسے تیسے سہی یہ عید گزر ہی گئی ہے اس کے روحانی اجر کا معاملہ چونکہ قربانی کرنے والوں اور رب کائنات کے درمیان ہے سو اس کو وہیں تک رکھتے ہوئے یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس ضمن میں بطور شہری ہمیں کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے اور اس مقدس فریضے کی ادائیگی کس طرح سے کرنی چاہیے کہ ہمارا تعلق اس امت سے ہے جس کے لیے صفائی کو نصف ایمان کا درجہ دیا گیا ہے۔

آج صبح ''چیئرمین الخدمت''سابق صدر پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین اور ہمارے عزیز دوست میاں عبدالشکور کا فون آیا۔ موضوع گفتگو یہ تھا کہ کس طرح آیندہ برس میڈیا سے مل کر قربانی کے آداب، ذبیحہ کے طریقے اور بعداز قربانی آلائشوں کو صحیح طرح سے ٹھکانے لگانے کے لیے ایک خصوصی تربیتی پروگرام بنایا جائے تاکہ اس کار ثواب کو دین کے ساتھ ساتھ دنیا کے حوالے سے بھی بہتر انداز میں ادا کیا جاسکے۔ قربانی کی اصل روح تو بلاشبہ وہ جذبہ ایثار ہی ہے جس کے اظہار کے لیے ہم اپنی نیک اور جائز کمائی سے جانور خریدتے اور پھر انھیں صحیح طریقے سے ذبح اور تقسیم کرتے ہیں لیکن کیا عملی طور پر بھی ایسا ہی کیا جاتا ہے؟

یہ اپنی جگہ پر ایک قابل غور سوال ہے۔ بالخصوص اس کا آخری حصہ کہ ذبح شدہ جانور سے متعلق آلائشوں کو ٹھکانے لگانا کہ اس طرف چند زبانی کلامی سرکاری اور نیم سرکاری نوعیت کے بیانات کے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ گلیاں، محلے، آباد اور غیر آباد جگہیں ہر جگہ ان آلائشوں کے بے ترتیب ڈھیر نظر آتے ہیں۔ ٹی وی کیمرے اور ان کے ساتھ لائیو کمنٹری کرنے والے خواتین و حضرات ان کی خوب خوب تصویر کشی کرتے ہیں۔ انتظامیہ اور حکومت کو دل کھول کر برا بھلا کہا جاتا ہے اور یوں سب اپنے اپنے فرض سے فارغ ہوجاتے ہیں۔

کئی کئی ہفتوں تک یہ گندگی اور بدبو اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی اپنی سی کوشش کرتی ہے مگر اس دوران میں ان کی جگہ انھی سے ملتی جلتی کچھ نئی خبریں لے لیتی ہیں اور یوں یہ سلسلہ اگلی عید تک چلتا رہتا ہے۔ میں نے میاں عبدالشکور کی اس تجویز کو سراہتے ہوئے اپنی طرف سے کچھ مشورے بھی دیے جن میں سے ایک یہ تھا کہ ڈی ایچ اے لاہور ان آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے نہ صرف مختلف جگہیں متعین کی ہیں جہاں سے ان کا عملہ انھیں اٹھالے جائے گا بلکہ پلاسٹک کے ایسے بیگ بھی اپنے رہائشیوں تک پہنچائے ہیں جن میں ان آلائشوں کو حفاظت اور سلیقے سے پیک کیا جاسکتا ہے اور اس پر زیادہ سے زیادہ خرچ دو تین سو روپے فی بیگ آسکتا ہے اب جو شخص پچیس تیس ہزار یا اس سے بھی زیادہ قیمت والا جانور قربانی کے لیے خرید سکتا ہے تو کیا وہ یہ دو تین سو روپے اسی اللہ کے بندوں کی زندگی بہتر اور آسان بنانے کے لیے خرچ نہیں کرسکتا جس کی خوشنودی اس سارے عمل کی وجہ اور محرک ہے؟ یہ کام اصل میں لوکل گورنمنٹ کے کرنے کا ہے جسے بدقسمتی سے اس ملک میں کام نہیں کرنے دیا جاتا مگر انفرادی سطح پر تو ہمیں کوئی اس سے نہیں روکتا...!

عید کی صبح ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہار پر قاتلانہ حملہ اس وقت کیا گیا جب وہ نماز عید پڑھ کر مسجد سے نکل رہے تھے۔ خبروں کے مطابق اس حملے میں خواجہ اظہار تو اللہ کی رحمت سے محفوظ رہے مگر ایک سیکیورٹی گارڈ اور ایک بارہ سالہ بچہ ارسل جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کچھ لوگ زخمی بھی ہوئے لیکن یہ خبر اس سے بھی زیادہ خوفناک اور پریشان کن تھی کہ مقتول حملہ آور ایک پروفیسر کا بیٹا اور بذات خود انجینئر تھا وہ کون سی سوچ تھی جس نے اسے یہاں تک پہنچایا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب حکومت اور متعلقہ ایجنسیوں سمیت ہم سب کو مل کر تلاش کرنا ہے کہ یہ کام بوجوہ ضرب عضب اور ردالفساد کے بس کا نہیں۔ اسی طرح سے گزشتہ چند دنوں سے روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کی کہانیاں اور ویڈیوز ایک بار پھر گردش میں ہیں۔

ابھی میں دوستوں سے مل کر اسی الجھن کو سلجھانے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ میڈیا پر ترک صدر کا بیان سامنے آ گیا جس میں انھوں نے ضمیر عالم سمیت مسلم امہ کے گریبان کو بھی جھنجھوڑا ہے کہ ساری دنیا اس ظلم اور بے انصافی کو کس طرح ایسی مجرمانہ خاموشی کے ساتھ دیکھ رہی ہے اور کیوں کوئی ان کو اس انسانوں کی ہی پیدا کردہ آفت سے رہائی کے لیے آگے نہیں بڑھتا۔ ان کے اس دلیرانہ بیان کے نتیجے میں اب کئی ممالک سمیت خود پاکستان کی حکومت اور دفتر خارجہ بھی کچھ کچھ ہوش میں آئے ہیں اور مذمتی بیان بازی کا ایک سلسلہ شروع ہوا ہے لیکن صورتحال کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ رسمی بیانوں سے حل ہونے والا نہیں برما عرف میانمار کی حکومت نے انھیں اپنے شہری ماننے سے انکار کردیا اور یوں انھیں قانونی اعتبار سے بے دست و پا کرکے اپنی فوج اور غنڈوں کے حوالے کردیا۔

سو اب یہ بے زمین بے سہارا لوگ بھلے ہی کسی ملک کے شہری نہ ہوں مگر انسان ہونے کے ناتے ان کا بھی اللہ کی زمین پر اتنا ہی حق ہے جتنا کسی اور کا ہے۔ یعنی اب ہم سب کا پہلا کام اس پیغام کو دوسروں تک پہنچانا ہونا چاہیے کہ ''جو شخص مظلوم پر ظلم کرنے والوں کے خلاف خاموش اور بے تعلق رہتا ہے جان لے کہ وہ غیر جانب دار نہیں بلکہ ''ظالم'' کا دوست اور ساتھی ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں