سراج الدین عزیز ایک غیرمعمولی بینکار

سراج ایک ایمان دار، نرم خو،راست گو اور بینکنگ سیکٹر میں وسیع تجربے کے حامل شخص ہیں


اکرام سہگل September 09, 2017

PESHAWAR: کتاب "Emerging Dynamics of Management" معروف بینکار سراج الدین عزیز کے ''مینجمنٹ'' کے موضوع پر تحریر کردہ تحقیقی اور وقیع مضامین کا مجموعہ ہے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے، جسے بینکاروں سمیت ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے پروفیشنلز کولازماً پڑھنا چاہیے۔ سراج الدین عزیزکی یہ کتاب8 ستمبر 2017ء کو کراچی میں لانچ کی گئی۔

سراج ایک ایمان دار، نرم خو،راست گو اور بینکنگ سیکٹر میں وسیع تجربے کے حامل شخص ہیں، جو اپنے مضمون کی باریکیوں سے واقف ہیں اور اس پر خوب گرفت رکھتے ہیں۔ انتظامی امور میں وسیع تجربے کے حامل افراد خال خال ہی اپنے تجربے کو اُس مہارت سے تحریر میں سموپاتے ہیں، جیسے فاضل مصنف نے سمویا۔وہ فطری طور پر ایک ماہر ابلاغ ہیں اور یہ صلاحیت کم یاب ہے۔ برسوں تک ایک معتبر بینک کے بورڈ میں میسر آنے والی کارپورٹ سیکٹر کے اِس دیوقامت شخص کی رفاقت کو میں خوش نصیبی پر محمول کرتا ہوں۔

پرسنل ڈویلپمنٹ کے موضوع پر وہ لکھتے ہیں۔ 1:اچھی عادات کی تشکیل اور حصول وقت کا متقاضی ہوتا ہے۔ 2: نیز فرد کو ان بری عادات سے بچنا چاہیے، جو اوروں کی صحبت سے آپ میں تشکیل پائیں اور جڑپکڑ لیں۔ایمان داری کو اگر ابتدا ہی میں اپنا لیا جائے، تو وہ دیرپا اور غیرمتزلزل ثابت ہوتی ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے، تو بے ایمانی کردار کا جزو بن جاتی ہے۔ اپنے غصے سے موثر انداز میں نمٹا لازمی ہے۔منیجرکو پرسکون رہتے ہوئے اندازوںاور افسانوں کے درمیان حقائق پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔پیداوار اور نتائج کو بہتر بنانے کے لیے یہ نکتہ پیش نظر رکھنا ازحد ضروری ہے کہ متحرک، مطمئن اور مسرور ٹیم ایک مایوس اور غیرمتحرک ٹیم کے برعکس زیادہ بہتر خدمات اور نتائج فراہم کرسکتی ہے۔

مصنف نے کتاب میں"Manager's Tool Box" کے موضوع پر بات کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہر فرد مصائب سے نمٹنے کے لیے قدرت کی عطا کردہ ناقابل تصور قوت کا حامل ہوتا ہے۔ اس ضمن میں John-Roger کے یہ الفاظ اہم: ''مشکلات اور دشواریوں کے روبرو ایک حقیقی سورما (یا مینیجر) اپنی اقدار اور اصولوں پر زیادہ سختی سے کاربند رہتا ہے۔''

عامر ضیا کتاب سے متعلق کہتے ہیں، پاکستان کے کارپویٹ سیکٹر کے ماہرین اور قائدین میں گنتی ہی کے لوگ ایسے ہیں، جو اپنے کیریئر میں سیکھے سبق، تجربات اور مشوروں کو کتاب میں منتقل کرنے اور قارئین سے بانٹنے میں کامیاب رہے اور سراج عزیز کا تعلق اسی چھوٹی سی اقلیت سے ہے۔پرسنل ڈویلپمنٹ اور انتظامی امور سے جڑے چیلنجز اور ان کے حل سمیت یہ کتاب متعدد اہم ایشوز کا احاطہ کرتی ہے۔

مصنف کے مطابق ویژن اور مشن کی شکل میں موجود مقاصد افرادی قوت کی موثر مینجمنٹ کے بغیر کارآمد نہیں۔ افرادی قوت کی مینجمنٹ ہی درحقیقت آرگنائز یشن کے معیارکا تعین کرتی ہے۔ آپ قابل اور ماہر شخص کو ملازمت دے سکتے ہیں، مگر اس شخص کو کبھی ملازم نہ رکھیں، جس کی معیت میں کام کرنا دشوار ہو۔ سراج رویے کو اس ضمن میں کلیدی ٹھہراتے ہیں، جیسے مشکلات کے روبرو فوراً اور مضبوطی سے کھڑا ہونا، چیلنجز کے سامنے پرسکون رہنا۔سہل،سست اورماتحت نما افراد کبھی اچھی ٹیم کا حصہ نہیں بن سکتے۔

اختراع، منصوبہ سازی اور فیصلہ سازی کی قابلیت فرد کی قائدانہ اورابلاغی صلاحیتوںکی مظہر ہوتی ہیں۔ یہ کہنا چاہیے کہ مشن فرد کی مہارت، جب کہ اس کا رویہ، یعنی attitude اس کی بصیرت کا عکاس ہوتا ہے۔ اداروں کو مثبت رویوں کے حامل افراد کو ملازمت دے کر ان کی مہارتوں کی تربیت کرنی چاہیے۔

لیڈر شپ سے متعلق سراج الدین عزیز لکھتے ہیں:آدمی کے پاس خواب یا جیساکہ کہا جاتا ہے، بصیرت ہونی چاہیے۔البتہ التباسات کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھنا لازمی ہے۔آپ کو خواب ضرور دیکھنے چاہییں، مگر ان خوابوں کی تکمیل کے لیے افراد ی قوت درکار ہوتی ہے۔اور جو لوگ اسے تکمیل تک پہنچانے کے لیے کام کریں، لازم ہے کہ انھیں آپ کے خواب اور آپ کی ذات پراعتماد ہو۔

وہ لوگ جو بڑا سوچتے ہیں، ان میں منافع میں اضافے، ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے، ملازمین میں اطمینان اور اسٹیک ہولڈز میں اعتماد پیدا کرنے جیسے چیلنجز سے نمٹنے کی قابلیت ہونی چاہیے۔فقط اندیشوں کے شکار افراد اور ادارے ہی بڑی سوچ رکھنے والے، بلکہ سوچ بچار کرنے والے منیجرز سے اجتناب برتتے ہیں۔کاروبار میں پر اعتمادی یا جارحیت ہمیشہ تکبر کی علامت نہیں، اگر آپ حساس اور اصول پسند ہیں، تو شائستگی اوریقین کے ساتھ اِسے کام میں لاسکتے ہیں۔

Alan Sillitoe کی کہانی "Loneliness of the Long Distance Runner" کا موازنہ ہم ایک اچھے سی ای او کی تنہائی سے کرسکتے ہیں۔ مصنف کے مطابق اصول پسند لوگ ہمیشہ اکیلے ہوتے ہیں اور کامیابی کی چوٹی پر وہ مزید تنہا ہوجاتے ہیں۔ ایک معنوں میں وہ شیشے کے گھر کے مکین ہوتے ہیں، برف کی پتلی سی تہہ پر چہل قدمی کرنے والے لوگ، کیوں کہ وہ ادارے میں ہونے والے ہر واقعے (اور وہ واقعے بھی جو نہیں ہوتے) کے جوابدہ ہوتے ہیں۔

عظیم ذہن خیالات پر بات کرتے ہیں، اوسط ذہن واقعات پر اورمعمولی ذہنیت کے افراد دیگر افراد سے متعلق بات کرتے ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت اس کی واضح مثال ہے۔ ہماری پارلیمنٹ میں کبھی نئے آئیڈیاز زیر بحث نہیں آتے۔ کبھی کبھار ہمارے سیاستداں واقعات پر بات کرلیتے ہیں، مگراکثر وہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے یا لاحاصل گپ شپ کرتے نظر آتے ہیں۔

یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ خوشامدی افراد جوکبھی اپنے مالکان یا باس سے اختلاف نہیں کرتے، وہی کمر میں چھری گھونپتے ہیں۔ مالکان کو ایسے افراد پر نظر رکھنی چاہیے، جو دہری اور کبھی کبھار تہری شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ اپنے سینئرز کے لیے خود کو پسندیدہ بنا کر پیش کرتے ہیں اور ماتحتوں کے لیے اذیت رساں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ ایک اچھے مینیجر کو ان افراد سے بھی محتاط رہنا چاہیے، جو کرپٹ افسران اپنے بدعنوانی میں معاونت کے لیے ٹیم میں شامل کرتے ہیں۔ جب اعلیٰ انتظامیہ عام ملازمین کے بجائے خود پر خرچ کرنے لگے، توآپ کو سمجھ لیناچاہیے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

انتظامی امور کی تکنیکس اور اصولوں میں مصنف نےCommunication یعنی ابلاغ کو خصوصی اہمیت دی ہے۔ ہم گفتگو یا تحریر ی پیغامات کو ابلاغ نہیں کہہ سکتے۔ اِس سے مراد ہے کہ پیغام فقط سنااور پڑھا نہ جائے، بلکہ اُسے اچھی طرح سمجھ بھی لیا جائے اور ''اسی زبان میں، جسے سامعین سمجھتے ہوں!''

بحرانی کیفیات یا تصادم کے دوران ابلاغی صلاحیتوں کی جانچ بینکار کے روز مرہ معمولات کا حصہ ہے۔ ہاں، ٹیکنالوجی نے اب ابلاغ کو سہل بنا دیا ہے، مگر یہ ہماری نجی زندگی میں مداخلت بھی کر رہی ہے۔ عوام کے ذہن تک درست اور واضح نکتۂ نظر پہنچانے کے عمل میں احتیاط بے حد ضروری ہے۔اس کام کے لیے اداروں کے پاس منظم اور مربوط ابلاغی حکمت عملی ہونی چاہیے۔

''حکمت عملی اور تنظیمی ساخت'' کے لیے انتھک کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ عمل موثر منصوبہ بندی اور سخت محنت کا متقاضی ہے۔ اس کے علاوہ استحکام کا تعین کیا جاتا ہے، مسابقت کا جائزہ لیا جاتا ہے، طلب اور تسلسل کے لیے مارکیٹ تلاش کی جاتی ہے۔ ایک کاروباری منصوبے کے لیے ضروری ہے کہ ایک تنظیم موجود ہو، کیونکہ اس ضمن میں درست انسانی ذریعہ یا موزوں افراد کا انتخاب نہایت اہم ہے۔یہ بات پیش نظر رہے کہ انتظامی ڈھانچہ تبھی زمیں بوس ہوتا ہے، جب مالی انتظام میں خرابی ہو یا اعلیٰ انتظامیہ اکھڑ پن کا شکار ہو جائے۔ جہاں تک ''بورڈ روم کمیٹی'' کی بات ہے، تو ہر ایجنڈا آئٹم بہرصورت ایک فیصلے پر منتج ہو۔ اہم افراد کو نچلی سطح پر نہ رکھا جائے اور جو غیر اہم ہوں، انھیں سب سے اوپر نہ رکھا جائے، جو وہاں وقت کے زیاں کا سبب بنیں۔

یہ یقینی بنایا جائے کہ فیصلے صحیح طریقے سے ریکارڈ کا حصہ بنائے گئے ہیں۔ ایک صحت مند بحث بہت ضروری ہے، لیکن بغیر کسی مخصوص جھکاؤ کے۔ پھر یہ ایسی بھی نہ ہو کہ سننے والے بوریت کے شکار ہو جائیں۔مصنف نے کتاب میں ایک اسپیکر کا ذکر کیا ہے، جس نے سامعین میں موجود ایک لڑکے سے کسی کو جگانے کے لیے کہا، جو اس کے پاس بیٹھا سورہا تھا۔ لڑکے نے جواب دیا: ''جناب والا، آپ خود ہی اسے اٹھائیں،آپ ہی نے تو اِسے سلایا ہے۔'' کیا میٹنگز واقعی دوطرفہ ٹریفک ہے، تنظیمی ڈھانچے میں اوپر کی طرف اور بہاؤ میں نیچے کی طرف؟

اس غیرمعمولی بینکار کے بارے میں سابق گورنر ایس بی پی اور سابق ڈین انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (IBA)ڈاکٹر عشرت حسین کی بات سے اتفاق کیے بغیر چارہ نہیں، جو کہتے ہیں، ''سراج الدین عزیز ان چند بینکنگ پروفیشنلز میں سے ایک ہیں، جو مطالعے، سوچ بچار اور لکھنے کے لیے ہمیشہ وقت مختص کرتے ہیں اور اپنی بصیرت کو استعمال میں لاتے ہیں۔

مجھے امید ہے، اس کتاب کی بڑے پیمانے پر تشہیر و ترویج کی جائے گی، کیونکہ میرے نزدیک صرف کاروباری درس گاہوں کے طلبا کے لیے اِس کا مطالعہ ضروری نہیں، بلکہ اُن کے لیے بھی لازمی ہے، جو ایگزیکٹو ایجوکیشن کی ٹریننگ سے گزر رہے ہیں یا اپنے کیریئر کے وسط میں ہیں۔'' (فاضل منصف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں