اب کے ہم بچھڑے تو۔۔۔ حصہ اول

کالج میں آنے کے بعد احمد شاہ نے جب باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا تو وہ احمد شاہ سے احمد فراز بن چکا تھا۔


یونس ہمدم September 09, 2017
[email protected]

مرزا غالب کے دور میں نہ ریڈیو تھا نہ ٹیلی ویژن، نہ گراموفون کمپنیاں اور نہ ہی فلم انڈسٹری کا کوئی تصور تھا مگر غالب کی شاعری کے چرچے عام تھے، ان کا کلام عوام وخاص دونوں طبقوں میں بڑا مقبول تھا ، ان کی غزلوں کی شہرت گلیوں، محلوں سے نکل کرکوٹھوں تک جا پہنچی تھی۔ ان کی شاعری نے بڑا رنگ جمایا تھا اورآج تک وہ رنگ پھیکا نہیں پڑا ہے۔

غالب کی ایک ایک غزل ان کی دورکی تمام ہمعصرشاعروں پر بھاری پڑتی تھی جب گرامو فون کمپنی کا آغاز ہوا تو زیادہ تر غالب کی غزلوں کو ہی پذیرائی حاصل ہوئی اور جب فلم انڈسٹری نے آنکھ کھولی توگلوکارہ ثریا سے لے کر لتا منگیشکر تک، نور جہاں سے لے کر مہدی حسن تک سب نے ہی غالب کی غزلوں کو بڑی محبت سے گایا۔ اس تمہیدکو باندھنے کے بعد اب میں آتا ہوں۔

شاعر احمد فراز کی طرف جس کی آمد نے اردو ادب میں اپنی شاعری سے ایک دھوم مچادی تھی یہ مانا کہ احمد فراز سے پہلے فیض احمد فیض اور ساحر لدھیانوی کو بھی بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی مگر عوامی پذیرائی میں احمد فراز کا رنگ سب سے آگے رہا ہے اور سب سے جدا رہا ہے۔ احمد فراز کی شاعری میں فیض احمد فیض اور ساحر لدھیانوی کی طرح کسی نظریے کی گونج نہیں تھی اس کی شاعری میں محبت ہی محبت ہے۔ احمد فراز کی تمام شاعری انسانی جذبات، احساسات سے مرجع محبت کے بے مثال رویوں سے تعبیر ہے اس کے کلام میں ایک منفرد حسن ہے اس کی غزلوں میں وہ بانکپن ہے۔ وہ نکھار ہے وہ تازگی ہے جو دابستان ادب کو سدا مہکاتی رہے گی۔

احمد فراز وہ شاعر ہے جسے ہر عہد اور ہر دورکا شاعر کہا جاسکتا ہے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، گراموفون کمپنی اور فلم انھیں پر میڈیم میں احمد فراز کی غزلوں کو بڑی مقبولیت ملی ہے جب کہ احمد فراز شاعروں کا بھی سب سے زیادہ پسندیدہ شاعر رہا ہے۔ فراز میں وہ ہنر تھا جو ہر محفل کو لوٹ لیتا تھا۔ فراز کے جتنے بھی شعری مجموعے منظر عام پر آتے گئے وہ لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بنتے گئے۔

''جاناں جاناں'' سے لے کر ''تنہا تنہا'' تک درجن بھر شعری مجموعے یکے بعد دیگرے آئے اور عوام کے خیالوں اور خوابوں میں اترتے چلے گئے اور احمد فراز کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ اس کا جو بھی شعری مجموعہ جتنی بار بھی منظر عام پر آیا وہ دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کے ہاتھوں کی زینت بن گیا ۔

اس سے پہلے کہ میں احمد فراز کی ریڈیو، ٹی وی اور فلموں سے تعلق رکھنے والی مشہور غزلوں کا تذکروں میں احمد فراز کی ابتدائی زندگی، اس کے اسکول اور کالج کے زمانے کی شاعری اور اس کی شخصیت کے ساتھ میدان سخن میں اس کی عملی جد وجہد کا تذکرہ کروںگا۔ میں اپنے طالب علمی کے زمانے ہی سے احمد فراز کے بارے میں پڑھتا رہا ہوں، اس کی شاعری کا شیدائی اور اس کی شخصیت کا پرستار رہا ہوں۔

احمد فراز کا گھریلو نام سید احمد شاہ تھا اور اس کے والد سید محمد شاہ برق کوہاٹی کے نام سے فارسی میں شاعری کرتے تھے وہ ایک انتہائی مذہبی شخص تھے اور گھر کا ماحول بھی خاصا مذہبی تھا۔ احمد شاہ نے (احمد فراز) 12 جنوری 1931 میں سرحد کے علاقے کوہاٹ میں جنم لیا۔

برق کوہاٹی ابتدا میں صرف فارسی شاعری کی طرف راغب تھے پھر آہستہ آہستہ انھوں نے اردو شاعری کا بھی آغاز کیا۔ برق کوہاٹی صاحب کو ان کی فارسی شاعری پر خانہ فرہنگ ایران کی طرف سے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ سید احمد شاہ کو ابتدا میں اپنے علاقے کے اسکول ہی میں داخل کرایا گیا جب یہ نویں جماعت میں آیا تو دسویں جماعت کے ساتھ بیعت بازی کے دوران پہلی بار ایک لڑکی سے مقابلہ ہوا۔ وہ لڑکی خاندان میں بھی آتی جاتی تھی۔

بیعت بازی کے کیے مقابلوں میں وہ لڑکی اس پر بھاری پڑجاتی تھی اور اس کو بے شمار شاعروں کے شعر ازبر تھے احمد شاہ نے کئی بار چاہا کہ وہ بیعت بازی کے کسی مقابلے میں اسے ہراسکے مگر ایسا ہونا جب مشکل نظر آیا تو احمد شاہ نے خود سے شعر کہنے شروع کردیے اور شعر کہنے کی وجہ سے وہ لڑکی بھی مشکل میں پڑ جاتی، ایک بار بیعت بازی کے مقابلے میں احمد شاہ نے ہر مشکل شعر کے مقابلے میں جب اپنے کہے ہوئے شعر سنانے شروع کیے تو وہ لڑکی احمد شاہ کے سامنے بے بس ہوجاتی اور بیعت بازی کے مقابلے میں ہارنے لگی بس احمد شاہ کو اسی دن اور جیت کا انتظار تھا اور اس طرح احمد شاہ اسکول کے زمانے ہی سے شعر کہنے لگا تھا اور پھر شاعری ہی اس کا پسندیدہ مضمون ہوگیا تھا اور اسکول کی وہ پہلی لڑکی تھی جو احمد شاہ کی شاعری کا عنوان بنی تھی۔

حسن پرستی کا آغاز اسکول کے زمانے ہی سے ہوگیا تھا اسی دوران دسویں جماعت میں آنے کے بعد احمد شاہ نے ایک غزل کاغذ پر لکھ کر اپنی والدہ کو یہ کہہ کر دی کہ یہ غزل میں نے لکھی ہے اسے آپ بابا جان کو دے دینا اور ان کی رائے بھی لے لینا۔ والدہ نے وہ غزل کا پرچہ رات کو احمد شاہ کے والد کو دے دیا۔ احمد شاہ اس رات انتظار کرتا رہا اور دیر تک نہ سویا کہ دیکھیں بابا جان کب بلاتے ہیں۔ مگر انتظار بے سود ثابت ہوا۔ دوسرا دن بھی گزر گیا پھر شام بھی گزر گئی تو احمد شاہ کی بے قراری اور انتظار کی کیفیت نے احمد شاہ کو پریشان کردیا تھا پھر اچانک رات کو بابا جان نے احمد شاہ کو بلایا۔ غزل کا پرچہ دکھاتے ہوئے پوچھا یہ تم نے غزل لکھی ہے۔

احمد شاہ نے کہا جی ہاں آپ کو کیسی لگی والد صاحب نے خشمگیں نگاہوں سے احمد شاہ کو دیکھتے ہوئے کہا شرم کرو اس عمر میں ایسی شاعری کرتے ہو، پھر کاغذ مروڑتے ہوئے کہا اپنی ساری توجہ صرف پڑھائی کی طرف لگاؤ۔ جاؤ، احمد شاہ سر جھکائے دوسرے کمرے میں چلا گیا مگر اسے اس بات کی خوشی تھی کہ اس کے بابا کو یہ اب اچھی طرح پتا چل گیا ہے کہ وہ بھی شاعری کرسکتا ہے۔ فرازکو اسکول میں ٹیبل ٹینس کا بھی شوق تھا۔ یہ جب کالج میں آیا تو ٹینس سے بھی دلچسپی ہوگئی تھی اور ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ احمد شاہ کو بچپن ہی سے جیڈی پائلٹ بننے کا شوق تھا اور وہ بچپن میں کاغذ کے ہوائی جہاز بناکر اڑایا کرتا تھا۔

کالج میں آنے کے بعد احمد شاہ نے جب باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا تو وہ احمد شاہ سے احمد فراز بن چکا تھا۔ فراز نے جب جی ڈی پائلٹ بننے کی غرض سے ایئرفورس میں امتحان دیا تھا تو وہ انٹرویو میں بھی پاس ہوگیا تھا اور پھر ایئر فورس جوائن کرنے کا لیٹر جب اس نے اپنی والدہ کو دکھایا تھا تو ان کا دل ایک دم سے دھک ہوکے رہ گیا تھا ان کا ایک بیٹا پہلے سے آرمی میں چلا گیا تھا اور اب وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کا دوسرا بیٹا بھی ایئرفورس جوائن کرے۔ انھوں نے فراز کی طرف دیکھا اور ان کی آنکھوں سے آنسو امڈ پڑے، فراز والدہ کی یہ کیفیت دیکھ کر پریشان ہوگیا ۔ پھر والدہ نے کہا میں نہیں چاہتی کہ ایک بیٹے کے بعد میرا دوسرا بیٹا بھی ایئرفورس میں جائے پھر انھوں نے اس لیٹر کے ٹکڑے کرتے ہوئے فراز کو اپنے دل کی بات بتاتے ہوئے کہا بس میرا یہ فیصلہ ہے کہ تم ایئرفورس جوائن نہیں کروگے۔ فراز اپنی والدہ کے آنسو برداشت نہ کرسکا اور اس نے بھی کہہ دیا ٹھیک ہے جو آپ کا فیصلہ وہی میرا بھی ہے پھر ماں کی آنکھوں میں ایک بار خوشی کے آنسو آگئے تھے۔

احمد فراز بہت ہی محبت بھرا اور حساس دل کا مالک تھا فراز نے پہلے ایڈورڈ کالج پشاور میں اور پھر پشاور یونی ورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کی اور پہلے اردو پھر فارسی میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ فراز کی شاعری کو چار چاند کالج ہی کے زمانے میں لگ چکے تھے ، یہ ترقی پسند شاعروں کی تحریک میں بھی شامل ہوگیا تھا۔ یونی ورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کچھ عرصہ فراز نے بطور لیکچرار تدریس کا شعبہ بھی اختیار کیا تھا فراز کی شاعری کے چرچے پشاور و شہر سے نکل کر سارے پنجاب بھی پھیل چکے تھے۔

اس زمانے میں گجرات میں ایک شاعری کا مقابلہ منعقد کیا گیا تھا جس میں شرکت کا دعوت نامہ فراز کو بھی مل چکا تھا۔ بہترین نظم اور غزل پر انعامات بھی رکھے گئے تھے۔ پہلے تو فراز انعامات کی وجہ سے اس مشاعرے میں شرکت سے کتراتارہا مگر پھر دوستوں کے اصرار پر فراز نے گجرات کے اس مشاعرے میں شرکت کی اور پھر یوں ہوا کہ فراز کو اس مشاعرے میں بہترین نظم اور بہترین غزل دونوں کے انعامات سے نوازا گیا یہ تھی شاعری کے میدان میں فراز کی پہلی شاندار کامیابی اور پھر اس شاعرے کے بعد احمد فراز کی شہرت کے سفر کا آغاز ہوگیا تھا۔ فراز کی شاعری میں بڑا دم تھا اور نوجوانوں کو اس کی شاعری اپنی طرف کھینچ رہی تھی پھر فرازکراچی آیا تو یہاں اس کو ریڈیو پاکستان کراچی میں ملازمت مل گئی۔

ان دنوں کراچی میں ریڈیو کی ابتدا تھی اور ریڈیو اسٹیشن کی کوئی عمارت نہیں تھی بلکہ ریڈیو کے مختلف شعبے اور اسٹوڈیو ٹینٹس میں بنے ہوئے تھے۔ زیڈ اے بخاری ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل تھے یہاں فراز کو مشہور شاعر فارغ بخاری، رضا ہمدانی اور شاہد احمد دہلوی کی رفاقت بھی ملی، فارغ بخاری کے توسط سے کراچی میں شعری نشستیں بھی ہوتی تھیں اور فراز بھی فارغ بخاری کی سرپرستی میں شعری محفلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے مگر کراچی میں ان کا دل نہیں لگ رہا تھا اور اپنی والدہ کی یاد بھی انھیں بڑی ستاتی تھی پھر فارغ بخاری کی سفارش پر ان کا تبادلہ پشاور ریڈیو پر کردیا گیا تھا پشاور آکر احمد فراز ہشاش بشاش ہوگئے تھے۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔