استعماریت اور پاکستان چھٹا حصہ
موجودہ استعماریت کی سرخیل قوم کو تاریخ کا سب سے طویل ترین اور غیر منقطع تسلسل حاصل ہے۔
تین ارتقائی مرحلے : موجودہ انسان اپنی عقل مندی اور مادہ پرستی پر نازاں و فرحاں ہے ۔ اسے کامل یقین ہے کہ سائنسی و صنعتی بنیادوں اور ضرورتوں کی روشنی میں مرتب کیے گئے نظریات ہی انسانی حیات کا مقصود ومنتہاء ہے ۔کیونکہ ان نظریات اور ان کی روشنی میں عملی طور رائج نظام تمدن اور انداز حیات کا تمام تر نکتہ توازن ''حیات فقط تغیرکو ہے زمانے میں '' پر ٹکا ہوا ہے ۔ جس کے حیرت انگیز حتمی نتائج میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ آج یورپی نشاۃ ثانیہ کے تمام تر مدبرین ومحققین کوان ہی کے مقلدین نے نظریاتی طور پچھاڑ دیا ہے۔
جس کے ارتقائی اظہار میں ان نظریات کی بنیادیں پہلے سے کہیں زیادہ سختی کی حامل دکھائی دی جانے لگی ہیں ۔ جس نے عالم اقوام پر فرعونیت سے بھی کہیں زیادہ بھیانک نتائج فراہم کرنے والی استعماریت کوپھلنے پھولنے کے تمام تر لوازمات فراہم کیے ہوئے ہیں۔ کتنی فکر انگیز بات ہے کہ اقوام عالم کو اپنے حالات بہتر کرنے کے لیے استعماریت کے سامنے دن بدن اور زیادہ مطیع وفرمانبردار بننے کے سوا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیا جارہاہے۔کیونکہ استعماری دانش نے اقوام کو تاریخی تحریف سے نوازا ہوا ہے جس کے باعث آج وہ اپنے آباؤاجداد کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہنے اور نت نئے اختلافات تخلیق کرکے مزید انتشار و تقسیم میں ہی اپنی بقاء دیکھنے لگی ہیں ۔ چونکہ اقوام عالم نسبی، نظریاتی وعلاقائی طور اپنے قدیم تسلسل سے ناواقف ہے اور موجودہ استعماریت کی سرخیل قوم کو تاریخ کا سب سے طویل ترین اور غیر منقطع تسلسل حاصل ہے۔
اس لیے تاریخ کے طالب علم کواقوام عالم کی معروضی بھیانک صورتحال کو سمجھنے اور حالات کی بہتری کے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے ناگذیر ہے کہ وہ تاریخ میں اس نظریاتی تسلسل کو تلاش کرے اور اس کی روشنی میں صدیوں پر مختتم نتائج کو استد لال کے طور پیش کرے اور وہ ایسا اسی وقت کرسکتا ہے کہ جب وہ اس قوم کی تاریخ کے ان پہلوؤں کا احاطہ کرے گا ۔جس کا پہلا بڑا ارتقائی مرحلہ جناب ابراہیم ؑ کے بعد کی 25 صدیوں پر مشتمل ہے۔
دوسرا مرحلہ حجاز مقدس پرتہاذیب وتحقیقات جناب ابراہیمؑ کی کاملیت کا عملی اظہارکرنے سے لے کر خلافت عثمانیہ کے خاتمے تک لگ بھگ 13صدیوں کے عرصے پر محیط دکھائی دیتا ہے ۔جب کہ تیسرا ارتقائی مرحلہ جناب ابراہیم ؑ کے 41/42 صدیوں بعد آئین براہیم ؑ کے عملی اطلاق کے عزم وحوصلے کی بنیادوں پر حاصل کیے گئے پاکستان کی عمر کے 70برسوں پر مشتمل نظر آتاہے۔جن کی تحریف سے پاک تفسیر وتفصیل جانے بغیر تاریخ کے طالب علم کے لیے کوئی حتمی فیصلہ کرناواقعی بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔
رہنماء اصول: جناب ابراہیم ؑ نے یہ واضح کیا تھا کہ انسان کی فطرت ایک بے صبری(یعنی حاصل مادی وسائل واسباب کو اپنے حق میں نہ سمجھنا )اوردوسرا جلد بازی یعنی انسانی عمل سے قوانین مادہ کے ظاہر ہونے والے نتائج کو وقت سے پہلے ظاہر کرنے کی ضدکرنے کے دو نکات پر مشتمل ہے اور ان کے عملی اظہار میں انسان جسمانی شہزوری اورمادی طور عددی برتری کو بروئے کار لاتا رہتا ہے جس کے نتائج خونریزی کے سوا کچھ اور برآمد نہیں ہوتے۔
اس نظریے کی حقانیت جناب ابراہیمؑ کے بعد کی صدیاں ہیں کہ جن میں ہم اقوام عالم کو اس کا عملی نمونہ بنے دیکھ سکتے ہیں جن کی تمام تر باریک تفسیر ہم اولاد ابراہیمؑ کی تاریخ میں ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔ جن کی مثالیں ان کی تاریخ کا بھی طرہ امتیاز دکھائی دیاجاتا ہے۔کیونکہ آج سے لگ بھگ41/42صدیاں قبل جناب ابراہیم ؑ نے سرزمین بابل سے ارض کنعان اور ارض حجازکی جانب جو ہجرت کی تھی اس کا مقصد آنے والی صدیوں میں عالم انسانیت کے تمام گروہوں (قوموں )کو اپنی تحقیقات کی سچائی کا اقرارکروانے کے علاوہ کچھ اور نہ تھا۔ یعنی انھوں ؑ نے ارض کنعان پرلازوال تہذیب کی ناقابل تغیر اقدار تشکیل دیے جانے کی تحقیقات کے دوران ''من ذریتی ''کے انسانی اظہارکے جواب میں اپنے پروردگار کی جانب سے ''لاینال عہدالظالمین ''کے اصول کوحاصل کیا تھا۔
تواس غیر متبدل اصول کی روشنی میں تشکیل شدہ انتظامی ومعاشرتی اقدارکے عملی اطلاق اور ان کی حقانیت کو ظاہرکرنے کی غرض سے تہذیب فلسطین اور ارض حجاز پر'' فلیعبدو رب ھٰذاالبیت '' کی دعوت دیتی تہذیب خانہ کعبہ کی بنیادیں رکھی تھیں ۔اور ان دونوں تہاذیب کو اپنے دو بیٹوں جناب اسحاق نبی ؑ اور جناب اسماعیل نبی ؑ اور ان کی نسبی طوراولادوں کے حوالے کیا تاکہ آنے والی صدیوں میں یہ اصول اقوام عالم کے لیے رہبر ورہنماء تسلیم کیے جانے کے وقت تاریخی ثبوت موجودہ ہوں۔
تاریخ کے طالب علم ان اقدار کی سچائی اور تفسیر یکے بعد دیگرے فراعین کی اولاد کا تخت نشیں بنتے رہنے اور ہندوستان کے مقدس خاندانوں کے عملی کردار میں دیکھ اورسمجھ سکتے ہیں کہ وہ کس طرح اپنی تمام تر نااہلیت کے باوجود تعظیم وتکریم کے سزاوار گردانتے جاتے رہے ہیں۔بالکل اسی طرح موجودہ استعماری قوم اپنے جد امجد جناب ابراہیمؑ کاصرف نسب ہونے کی بنیاد پر خود کو برگذیدہ وبرتر ثابت کرنے کے لیے اقوام عالم کو جنگ میں جھونکے ہوئے ہے۔
تاریخ کا طالب علم جدید اصطلاح میں ان اقدار کو سمجھانے کی خاطر برملہ طور یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ رہنماء اصول نسبی برتری کی تمام اشکال کی نہ صرف بیخ کنی کرتا ہے ۔بلکہ اس کے ارتقائی اظہار یعنی اقربا پروری کو تہذیبوں اور انسانوں کے لیے زہر قاتل قرار دیتا ہے۔تاریخ کے طالب علم کے لیے کیا وہ مقام حیران کن نہیں ہے کہ جہاں انھیں لیکس زدہ ''اقربا پرور طبقہ ترقی یافتہ ممالک کی جدید تہذیب ''کودوام بخشنے کے مقدس کام میں جتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔کیاوہ انگشت بہ دنداں نہیں ہوتے ہونگے کہ جہاں استعماریت کی لاڈلی ونخریلی جمہوری قدروں کی گود میں نسبی ونسلی وابستگی و تفاخر کو جمہوری جماعتوں کی سربراہی کی شکل میں پالا جاتا رہاہے؟
(جاری ہے)