سمندر کبھی دوست نہیں ہوتا
یہ ایک ناقابل تسخیر گہرائی ہے، انسان کے لاشعور جیسی۔ سمندر لازوال حسن کا مالک ہے
MUMBAI:
یہ ایک ناقابل تسخیر گہرائی ہے، انسان کے لاشعور جیسی۔ سمندر لازوال حسن کا مالک ہے، یہ حسن انسان کو بے اختیار اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اس کے اندر چھپا وسائل کا خزانہ ایک ایسی کشش ہے، جس کی تلاش میں انسان کئی خطرات مول لینے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ سمندر، حساس لوگوں کو بے اختیار اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے۔ لہروں کی آواز میں مقناطیسی اثر پایا جاتا ہے اور سمندر کے اوپر فضا ایک خاص کیمیائی اثر لیے ہوتی ہے۔ جو ذہن و روح پر مختلف اثرات مرتب کرتی ہے۔ جیسے سمندر کے قریب ذہن پر پرکیف خاموشی طاری ہوجاتی ہے۔ لہریں تخلیقی صلاحیت کو ابھارتی ہیں۔ ذہنی دباؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موسم گرما میں پوری دنیا کے ساحل، انسانوں سے آباد ہوجاتے ہیں۔
سمندر کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو لیکن یہ انسان کا دوست نہیں بن سکتا۔ یہ دغاباز دوست کی طرح کسی بھی وقت اپنی چال چل جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود بھی لوگ سمندر کے قریب جاتے ہوئے حفاظتی اقدامات فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال کئی زندگیاں سمندر نگل جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی انتظامیہ ساحل سمندر پر، حفاظتی اقدامات کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔ حالانکہ مئی کے مہینے میں سندھ گورنمنٹ نے دفعہ 144 کے تحت سمندر میں نہانے پر پابندی عائد کردی تھی، لیکن پھر بھی عوامی سطح پر احتیاط کی کمی دیکھی گئی۔
بدقسمتی سے اس سال بھی ہاکس بے پر بارہ زندگیاں سمندر کی طغیانی کی نذر ہوگئیں۔ جن میں ایک خاندان کے بارہ افراد بھی شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نارتھ ناظم آباد سے تعلق رکھنے والا خاندان پکنک منانے کے لیے سمندر کے قریب واقع ہٹس میں رہائش پذیر تھا۔ حالانکہ انھیں کئی بار منع بھی کیا گیا کہ وہ لہروں سے دور رہیں، مگر وہ لوگ کسی طور نہ مانے اور المناک حادثے کا شکار ہوگئے۔ اس حادثے کی ویڈیو دیکھ کر دکھ ہو رہا تھا۔ ایک ہنگامہ ساحل سمندر پر برپا تھا اور ڈوبنے والوں کی چیخوں سے پوری فضا گونج رہی تھی۔ ان کی آوازوں سے زندگی کے کھونے کا دکھ عیاں تھا۔ ایک عجیب خوف ماحول پر طاری ہوچلا تھا۔ لوگ بے بس ساحل پر کھڑے ہوئے انھیں ڈوبتا دیکھتے رہے۔
یہ حقیقت ہے کہ لائف گارڈز کی غیر موجودگی میں سمندر کے قریب نہیں جانا چاہیے یا سمندر کے بارے میں معلومات رکھنی چاہیے۔ اس طرح کے حادثات کی وجہ Rip Current یہ سطح کے نیچے پانی کی بہاؤ کے مخالف سمت بہنے والی تیز لہریں ہیں۔ جو آٹھ فیٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے بہتی ہیں اور پرسکون لہروں میں سے محظوظ ہونے والوں کو کھینچ کر گہرائی میں لے جاتی ہیں۔ امریکا میں ہر سال رپ کرنٹ کی وجہ سے کئی اموات واقع ہوتی ہیں۔ اکثر لوگوں کو ان خطرناک لہروں کے بارے میں کوئی علم نہیں ہوتا اور نہ ہی ان سے لڑنے کا طریقہ انھیں آتا ہے۔ اکثر لوگ بدحواس ہوکر لہروں سے لڑتے ہوئے بے دم ہوجاتے ہیں اور اپنا آپ ان کے حوالے کر دیے ہیں ۔ ترقی یافتہ ملکوں میں لوگ سمندر کی صورتحال کو جان لیتے ہیں۔ سوئمنگ پول اور سمندر کی لہروں میں واضح فرق موجود ہے۔ جو لوگ تیرنا نہیں جانتے انھیں لائف جیکٹس ساتھ رکھنی چاہیے۔ سمندر کی طرف رخ کرتے وقت موسم کے بارے میں بھی معلومات لینی چاہیے۔ یہ کام میڈیا کا بھی ہے کہ اس طرح کے حادثات کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ عوام کو باخبر کرتے رہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ساحل سمندر پر اس طرح کے اقدامات دیکھنے میں نہیں آتے۔ نا تو آپ کو وارننگ فلیگس دکھائی دیں گے اور نہ ہی ایمرجنسی سے نپٹنے کے لیے مستعد عملہ ملے گا۔ لوگوں کو ایسے مقامات پر بہت رہنمائی کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ہر سال حادثات ہوتے رہیں گے۔
دیکھا جائے تو زمین پر ستر فیصد سمندر کا گھیراؤ ہے۔ جب کہ انسان اب تک فقط پانچ فیصد ہی سمندر کو دریافت کرسکا ہے۔ دنیا کے طویل پہاڑ سمندر کے اندر پائے جاتے ہیں یہ سلسلہ ایٹلانٹک سے شروع ہوکے انڈین اور پیسیفک ارشنز تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ پانی بیکٹیریا اور وائرس سے بھرا ہوا ہے۔ جب لوگ سمندر کے پانی میں نہاتے ہیں تو یہ پانی کسی نہ کسی طور پر ان کی صحت کو متاثر کرتا ہے۔ جب کہ ہمارے سمندر اور دریا اس وقت ماحولیاتی آلودگی کا شکار ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ 480 ملین گیلن آلودہ پانی و دیگر گندا کچرا کراچی کے سمندر کو آلودہ کرچکا ہے۔ متعلقہ شعبے کے اعلیٰ افسران اور ماہرین نے آگاہ کیا ہے کہ اس آلودگی کی وجہ نہ صرف سمندری مخلوق متاثر ہو رہی ہے بلکہ شہر کی آبادی کو صحت کے مختلف خطرے لاحق ہیں۔
متعلقہ شعبے کے وزیرکی دیگر سینئر افسران سے میٹنگ کے بعد یہ طے پایا تھا کہ اس سنگین مسئلے کا حل جلد ڈھونڈا جائے گا اورکراچی واٹر سیوریج بورڈ و دیگر متعلقہ شعبوں کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ بقول ایک حکومتی ترجمان کے کہ پانی کی صفائی کا کام تندہی سے جاری ہے۔ اس طرح کے بیانات کے بعد کام کے سلسلے میں پیشرفت کم دکھائی دیتی ہے۔ کراچی شہر کی حالت کے پیش نظر، وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ الیکشن تک اس مسئلے کا حل دکھائی نہیں دیتا۔ حالانکہ پچھلے سالہ ڈبلیو ڈبلیو ایف اور سوئی سدرن گیس کمپنی نے مل کر ساحل سمندر کی صفائی تقریب منعقد کروائی تھی۔ اس طرح کی کوششیں یاد دہانی پروگرام منعقد کیے جانے چاہئیں۔ کراچی شہر کی بڑھتی ماحولیاتی آلودگی میں میونسپل کارپوریشنز ناکام ہوچکی ہیں تو دوسری طرف کراچی شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے شہر کی حالت دگرگوں ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں سے لوگ کراچی میں آباد ہو رہے ہیں۔
نقل مکانی کے حوالے سے باضابطہ قوانین نہیں بنائے گئے۔ یہی وجہ سے کہ شہر میں امن و امان کی صورتحال بھی تشویشناک ہے۔ شہر پر آبادی کا بوجھ اور روزگار کے کم مواقعے جرائم کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں۔ اگر کراچی کی بیس سے پچیس ملین آبادی ہے تو 12,000 ٹن گندا کچرا مناسب طریقے سے ٹھکانے نہیں لگایا جاتا، اگر حکومت کوئی واضح قانون سازی کرے اور گلیوں، محلوں اور شاہراہوں پر لاپرواہی سے کچرا پھینکنے والے لوگوں پر جرمانہ عائد کیا جائے تو حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔ لوگ کھڑکیوں سے کچرا پھینکتے ہیں۔ فلیٹس کی چھتیں تک بھیانک منظر پیش کرتی نظر آتی ہیں۔ پلاسٹک کی تھیلیاں جن پر پابندی عائد کی جاچکی ہے، مگر آج بھی استعمال کی جا رہی ہیں۔ یہ پلاسٹک کی تھیلیاں آج سمندر کی زندگی کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکی ہیں۔
کراچی کا سمندر اس وقت تفریح کے علاوہ سندھ کا کماؤ پوت ہے۔ اس سمندری صنعت سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ جو آج بے توجہی کا شکار ہے۔ ساحل سمندر پر ناگوار بو کے جھونکے، ماحول کی خوبصورتی کا اثر زائل کردیتے ہیں۔
لہریں اس قابل نہیں رہیں کہ ان میں نہایا جا سکے۔ نہانے والے کئی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایک رومانوی تصور جو سمندر سے وابستہ ہوا کرتا تھا، وہ ماحولیاتی آلودگی کی گرد میں کھوگیا ہے۔