حج کے بعد زندگی کیسے گزاریں

قبولیتِ حج کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ انسان گناہوں والی زندگی کو چھوڑ کر نیکیوں والی زندگی اختیار کرے۔


بیت اللہ شریف اور روضۂ رسول ﷺ کے انوار و برکات جو اپنے سینے میں محفوظ کرکے لایا ہے اسے ضایع ہونے سے بچائے۔ فوٹو: اے ایف پی / فائل

RAWALPINDI: اللہ تعالیٰ دنیا بھر کے تمام حج اور عمرے کرنے والوں کا حج اور عمرہ اپنے کرم سے قبول فرمائے، اس دوران ہونے والی تمام لغزشوں اور کوتاہیوں کو معاف فرمائے اور بار بار بیت اللہ شریف کی مقبول حاضری کی سعادت نصیب فرمائے۔ اللہ کریم ہر مسلمان کے دل کی اس مبارک آرزو کو پورا فرمائے کہ اسے حج بیت اللہ اور زیارت روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توفیق زندگی میں ایک بار ضرور ملے۔

بیت اللہ کی ایسی کشش ہے جو ہر مسلمان کو بار بار اپنی جانب کھینچتی ہے، اس کے انوار و برکات کا صحیح ادراک تو اسے ہی ہو سکتا ہے جو وہاں جا کر یہ خود اپنے دل سے محسوس کر چکا ہو۔ بیت اللہ شریف پر نگاہ پڑنے سے دل کی بدلتی کیفیت کسی کو سمجھانا بہت مشکل ہے یہ الفاظ کی حد بندیوں سے آزاد احساس ہے۔ یہ وہاں جا کر ہی محسوس کیا جاسکتا ہے کہ میں پہلے کیا تھا، اب کیا ہوں ؟ میں پہلے کہاں تھا، اب کہاں ہوں؟ کتنی خوش نصیبی کی بات ہے کہ اس ذات نے آپ کو اپنے گھر اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے در کی زیارت کا موقع عطا فرمایا۔

آپ نے اپنی آنکھوں سے یہ نظارہ بھی کیا کہ آپ کی طرح دنیا بھر کے مسلمان ہزارہا گناہوں میں لتھڑے لاکھوں لوگ رنگ، نسل، قوم، قبیلے، برادری اور زبان وغیرہ کے فرق کو مٹا کر دیوانہ وار، بے خودی کے عالم میں احرام کی دو چادروں میں اپنے گناہوں کی گٹھڑیاں چھپائے، برستی آنکھوں اور لرزتے ہونٹوں کے ساتھ زبان کو یوں جنبش دے رہے تھے : '' لبیک اللھم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک والملک لاشریک لک '' کعبۃ اللہ پر برسنے والی ذوالجلال کی جلالی تجلیاں، کسی کی آنکھ کو اوپر کہاں اٹھنے دیتی ہیں، انسانوں کا ہجوم اپنے گناہوں کے اعتراف کے ساتھ سچے دل سے معافی کے خواست گار بن کر عرق ندامت میں غوطہ زن ہوتا ہے۔ بندہ اپنے مالک، خالق اور رب کے سامنے جھکا ہوا ہوتا ہے۔

ماضی میں سرزد ہوئے سارے گناہ عقل و یادوں کے پردے پر ابھر رہے ہوتے ہیں، خدا کی نافرمانی، اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّتوں اور طرزِ زندگی سے دوری کا انجام دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ اس غم کو غلط کرنے کے لیے منیٰ میں احرام باندھا جا رہا ہوتا ہے تو کبھی زبان پر تلبیہ کی صدا محبوب کے وصال کی طلب گار دکھائی دیتی ہے، عرفات کے چٹیل میدان میں سچی عاشقی کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے تو کبھی مزدلفہ کا وقوف اس کی منزل کا سنگ میل نظر آرہا ہوتا ہے۔

اپنے دشمن سے نبرد آزما ہو کر جمرات پر رمی کی جارہی ہوتی ہے تو کبھی شکرانے میں قربانی کا خون بہایا جا رہا ہوتا ہے۔ مقام ابراہیمؑ پر آکر خلیل اللہ کی محبتوں کا تصور تو کبھی زم زم کے جام پیے جا رہے ہوتے ہیں۔ صفا و مروہ کے درمیان رحمت ربی کی طرف دوڑنے کی تربیت تو کبھی بیت اللہ کے گرد گھوم گھوم کر خدا کو منانے کا مظہر ہویدا ہو رہا ہوتا ہے۔ جلال الہٰی سے دل معمور ہوجائے تو جمال حبیبؐ کی لذت آشنائی کا وقت آجاتا ہے۔ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری، محسن و مشفق نبی ﷺ کے در پر صلوٰۃ و سلام کی اذن یابی، رحمۃ للعالمین کے حضور شفاعت کی درخواست اور ان کے توسل سے نامۂ اعمال میں اخروی کام یابی کا حصول۔

بہ ہر حال! حج بہ ظاہر دیکھنے میں ایک بامشقت فریضہ ہے، اس کی ادائی کے لیے جہاں انسان کا اچھا خاصا مال لگتا ہے وہاں اس کو اچھی خاصی جسمانی مشقت بھی اٹھانی پڑتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب انسان کے دل میں محبت الہٰی موج زن ہو، ذات حق کی طلب صادق ہو تو مشقت کا پتا چلتا ہے نہ ہی مال کی پروا ہوتی ہے بل کہ صرف اسی ایک کی محبت، معرفت، خوش نودی اور رضا کی جستجو ہوتی ہے۔ پھر بھی دیکھنے میں جان، وقت اور مال سب اس کے لیے خرچ کیا جاتا ہے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہماری یہ عبادت اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوجائے۔ اللہ کریم نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا، مفہوم: '' اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسولؐؐ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔''

قبولیتِ حج کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ انسان گناہوں والی زندگی کو چھوڑ کر نیکیوں والی زندگی اختیار کرے۔ بیت اللہ شریف اور روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار و برکات جو اپنے سینے میں محفوظ کر کے لایا ہے اسے ضایع ہونے سے بچائے۔ اپنے جسم کے ایک ایک عضو کو اللہ کے احکامات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک طریقوں میں ڈھال لے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائی میں کوتاہی نہ کرے۔ ہر وقت اپنے دل کو عبادات میں لگائے رکھے، اپنی زبان کو اللہ کے ذکر سے تر رکھے، ہر وقت اللہ کی رضا پیش نظر ہو، قومی، علاقائی اور خاندانی رسومات پر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ترجیح دے۔ اپنی ذاتی اور نجی زندگی کو گناہوں سے آلودہ نہ کرے، اگر گناہ ہو جائے تو فوراً ان سے توبہ کرے۔ جذبۂ خیر خواہی کو اپنے جذبات پر غالب رکھے۔ غریب، مفلس، نادار، مساکین اور یتامیٰ اور مستحقین لوگوں کی حتی الامکان امداد کرے۔ مظلوموں کی داد رسی کرے۔ شریعت کے احکامات پر عمل پیرا ہو اور غیر اسلامی کاموں اور لایعنی باتوں سے خود کو بچانے کی فکر کرے۔ ال غرض اس آیت کی عملی تفسیر بن جائے کہ : '' اے ایمان والو! پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ۔ ''

ناجانے زندگی میں دوبارہ حج کی سعادت ملتی ہے یا نہیں ؟ اس لیے اس نعمت پر شکر ادا کریں اور اپنی زندگی میں ایسی تبدیلی لائیں کہ حج کا مقصد پورا ہو جائے۔ جیسے اللہ نے حج کرنے کی توفیق نصیب فرمائی ہے ایسے ہی اسے مقبول و مبرور بھی فرمائے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک آپ کو بار بار یہ عظیم الشان سعادت نصیب فرمائے بل کہ ہر مسلمان کو یہ نعمت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں