اب کے ہم بچھڑے تو… حصہ دوم
فراز کی غزلوں میں بڑی انفرادیت تھی بلکہ ان کی نظموں کا اسلوب دوسرے شاعروں سے ہٹ کر تھا۔
KARACHI:
اب ضرورت کی شاعری میں وہ چمک پیدا ہوچکی تھی جو نئی نسل کے دلوں کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ فراز کی غزلیں، پشاور، لاہور اور کراچی ریڈیو سے اس دور کے تمام مشہور گلوکار اور گلوکارائیں گا رہی تھیں، فراز کی غزلوں میں بڑی انفرادیت تھی بلکہ ان کی نظموں کا اسلوب دوسرے شاعروں سے ہٹ کر تھا۔ شروع میں فراز نے نظمیں بھی خوب کہی ہیں، جیسے ابتدائی زمانے کی محبت کے جذبوں سے سرشار یہ نظم ہے:
یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں
تمام تیری حکایتیں ہیں
یہ تذکرے تیرے لطف کے ہیں
یہ شعر تیری شکایتیں ہیں
میں سب تری نذر کر رہا ہوں
یہ ان زمانوں کی ساعتیں ہیں
جو زندگی کے نئے سفر میں
تجھے کسی وقت یاد آئیں
جیسے یہ ایک اور خوبصورت نظم جو دلوں کو چھوتی ہے اور ایک نئے احساس کو اجاگر کرتی ہے:
خواب مرتے نہیں
خواب دل ہیں نہ آنکھیں نہ سانس کہ جو
ریزہ ریزہ ہوئے تو بکھر جائیں گے
جسم کی موت سے یہ بھی مر جائیں گے
خواب مرتے نہیں
خواب تو روشنی ہیں نوا ہیں ہوا ہیں
جو کالے پہاڑوں سے رکتے نہیں
ظلم کی دوزخوں سے بھی تھپکتے نہیں
روشنی نور اور یہ ہوا کے علم
مقتلوں میں پہنچ کر بھی جھکتے نہیں
خواب تو حرف ہیں خواب تو نور ہیں
خواب سقراط ہیں خواب منصور ہیں
یا پھر اس دور کی ایک اور نظم جس کا آہنگ جدا جدا سا ہے:
اتنا سناٹا کہ جیسے ہو سکوتِ صحرا
ایسی تاریکی کہ آنکھوں نے دہائی دی ہے
درِ زنداں سے پَرے کون سے منظر ہوں گے
مجھ کو دیوار ہی دیوار دکھائی دی ہے
دور ایک فاختہ بولی ہے سرِ شاخ شجر
پہلی آواز محبت کی سنائی دی ہے
یہ وہ زمانہ تھا جب فراز کو اپنے آس پاس ایسے لوگوں کی بہتات نظر آتی تھی جو ہونٹوں سے میٹھی میٹھی باتیں کرتے تھے مگر بغل میں چھریاں لیے پھرتے تھے ایسے لوگوں کے بارے میں فراز نے پھر ایک غزل کہی تھی جس کا مطلع حاضر ہے:
میرا اس شہر عداوت میں بسیرا ہے جہاں
لوگ سجدوں میں بھی لوگوں کا برا سوچتے ہیں
اسی دور میں کسی کی رفاقت سے محروم رہ کر دل کی دیوانگی کو ایک غزل کا روپ دیا تھا قارئین کے لیے اس غزل کا بھی مطلع پیش کر رہا ہوں۔
کسی بے وفا کی خاطر یہ جنوں فراز کب تک
جو تمہیں بھلا چکا ہے اسے تم بھی بھول جاؤ
یہاں مجھے ساحر لدھیانوی کی وہ نظم شدت سے یاد آگئی ہے:
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دل نوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
اب میں فراز کی چند ابتدائی ان غزلوں کی طرف آتا ہوں جن غزلوں نے فراز کی رومان پسندی کو عوام میں مقبولیت بخشی تھی جیسے کہ یہ غزل:
جان سے عشق اور جہاں سے گریز
دوستوں نے کیا کہاں سے گریز
ابتدا کی ترے قصیدے کی
اب یہ مشکل کروں کہاں سے گریز
میں وہاں ہوں جہاں جہاں تم ہو
تم کرو گے کہاں کہاں سے گریز
کر گیا میرے تیرے قصے میں
داستاں گو یہاں وہاں سے گریز
یا پھر ایک اور منفرد لہجے کی غزل حاضر ہے:
سب لوگ لیے سنگِ ملامت نکل آئے
اس شہر میں ہم اہلِ محبت نکل آئے
ہر گھر کا دیا گل نہ کرو تم کہ نہ جانے
کس بام سے خورشید قیامت نکل آئے
جو در پے پندار ہیں ان قتل گہوں سے
جاں دے کے بھی سمجھ کہ سلامت نکل آئے
اب وہ دور آگیا تھا کہ جب آسمان ادب پر احمد فراز کا نام کہکشاں کی طرح جگمگا رہا تھا اور ہر مشاعرے میں احمد فراز کی ہر غزل اہمیت حاصل کرتی جا رہی تھی، میں قارئین کی دلچسپی کے لیے اب چند ایسی ہی خوبصورت غزلوں کا تذکرہ کروں گا جو لازوال ہیں:
اس سے پہلے کے بے وفا ہوجائیں
کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں
تو بھی ہیرے سے بن گیا پتھر
ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہوجائیں
ہم بھی مجبوریوں کا عذر کریں
پھر کہیں اور مبتلا ہوجائیں
عشق بھی کھیل ہے نصیبوں کا
خاک ہو جائیں کیمیا ہوجائیں
اب کے گر تو ملے تو ہم تجھ سے
ایسے لپٹیں تری قبا ہوجائیں
بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فراز
کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں
فراز کی ایک اور دل پر دستک دینے والی غزل جو مشاعروں میں سامعین پر ایک سحر طاری کردیتی تھی:
ہر کوئی دل کی ہتھیلی پہ ہے صحرا رکھے
کس کو سیراب کرے وہ کسے پیاسا رکھے
عمر بھر کون نبھاتا ہے تعلق اتنا
اے میری جان کے دشمن تجھے اللہ رکھے
ہم کو اچھا نہیں لگتا کوئی ہم نام ترا
کوئی تجھ سا ہو تو پھر نام بھی تجھ سا رکھے
دل بھی پاگل ہے کہ اس شخص سے وابستہ ہے
جو کسی اور کا ہونے نہ دے اپنا رکھے
ہنس نہ اتنا بھی فقیروں کے اکیلے پن پر
جا خدا میری طرح تجھ کو بھی تنہا رکھے
یہ قناعت ہے کہ طاعت ہے کہ چاہت ہے فراز
ہم تو راضی ہیں وہ جس حال میں جیسا رکھے
احمد فراز کا یہ وہ دور تھا جب وہ پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ یورپ اور امریکا میں بھی عالمی مشاعروں کی جان بن گئے تھے۔ ان کے کئی مجموعہ کلام مارکیٹ میں آتے تھے اور ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجاتے تھے خاص طور پر ان کے شعری مجموعے ''جاناں جاناں'' نے تو بڑی دھوم مچائی ہوئی تھی۔
(جاری ہے)