ایسا تو عشق میں ہی ہوتا ہے…
کوئی اللہ سے گہری محبت میں مبتلا ہو جائے تو اس کا بھی ایساہی حال ہوتا ہے
KARACHI:
کوئی مجھے اس حال میں اس وقت دیکھ کر ایسا کہتا جب نادان عمر تھی، تو میں مان لیتی... اسکول کالج کا زمانہ تھا، بہت امکانات ہوتے ہیں کہ انسان کو کسی سے محبت ہو جائے، اس محبت میں اس حد تک زندگی بے سکون ہو جائے کہ نہ دن کو چین ہو نہ راتوں کو نیند- رات رات بھر جاگ کر تارے گنیں اور صبح جاگیں تو آنکھیں چغلی کھائیں کہ رات بے خواب گزری ہے، جاگتے میں ہی آنکھوں میں سپنے جوسجے تھے- عشق کے ماندوں کی نظروں میں ایسا خمار اور آنکھوں میں ایسی لالیاں ہوتی ہیں-
کوئی اللہ سے گہری محبت میں مبتلا ہو جائے تو اس کا بھی ایساہی حال ہوتا ہے، اس کا قرب حاصل کرنے کو وہ راتوں کو جاگتا اور معرفت کی اس سرحد کو چھونا چاہتا ہے جہاں اس کا رب اس سے راضی ہو- جب سارا عالم سوتا ہے تو وہ وقت عشق حقیقی کے مبتلاؤں کے جاگنے کا اور عبادت کرنے کا ہوتا ہے- عبادات کی افضلیت والی راتوں میں وہ جاگ کر رات بھر عبادت کرتے ہیںتو صبح ان کی آنکھوں کی لالی ان کی رات کا احوال کہتی ہے-
مگر میری آنکھیں ایسی ہی لال تھیں... نہ میں نے رات بھر عبادت کی تھی نہ اس عمر میں!!! مارے باندھے کی نمازیں پڑھ کر ہی ہم سمجھ لیتے ہیںکہ ہم نے عشق حقیقی کا فرض ادا کر دیا- اللہ ہماری ایسی عجلت بھری ، بے توجہی اور مارے باندھے کی نمازوں کو بھی قبول فرمائے- اللہ اور اس کے بندوں سے محبت بھی ہم ایسے ہی کرتے ہیں جیسے نمازیں پڑھتے ہیں، ایک فرض کہ جس کی تکمیل کرنا ہی کرنا ہے-
ہاں مگر دور حاضر میں ایک ایسی چیز ہے جس سے مجھے اور آپ کو عشق حقیقی ہو گیا ہے... رات دیر تک یا رات بھر جاگ کر ہم اس سے محبت کے تقاضے نبھاتے ہیں تو صبح جاگ کر اپنی آنکھوں کی لالی بتاتی ہے کہ ہم کے دیر تک جاگتے رہے تھے- پرانے زمانے میں ہمارے بڑے بوڑھے ایسی چیزوں کو شیطانی چرخے کہا کرتے تھے جو انسان کو باقی ہر ضرورت اور فرض سے غافل کر دیں- اسی لیے جواء، تاش ، شطرنج، پانسہ اور دیگر ایسے ہی کھیل نا پسند کیے جاتے تھے- جو بھی چیز آپ کو عبادات اور دیگر فرائض سے غافل کر دے ، اللہ اور آپ کے درمیان فاصلے پیدا کر دے، وہ شیطانی چرخہ ہی تو ہے- بدقسمتی سے ہم سب یہ شیطانی چرخے ہمہ وقت ہاتھوں میں لیے گھوم رہے ہوتے ہیں-
آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میری مراد موبائل ٹیلی فون سے ہے- ہمارے معمولات میںجو مقام اسے حاصل ہے وہ آج تک کی انسانی تاریخ میں کسی اور کو حاصل نہیں ہوا- مستقبل میں اس سے بڑھ کر کچھ نہ کچھ ہو گا یقینا مگر ہمارے دور میں ... ہماری نسل نے وہ وقت دیکھا ہے جب ٹیلی فون کہیں بھی نہیں ہوتا تھا، خط اور تار ذرائع مواصلات ہوتے تھے- ٹیلی وژن کی بجائے لوگ اخبارات پڑھتے تھے اور ریڈیو سنتے تھے-
ہماری ہتھیلیوں پر رکھی اس چھوٹی سی ایجاد نے ہماری زندگیوں کا رخ ہی بدل دیا ہے- ہم نے اپنے گھروں میں ٹیلی وژن اپنے گھروں میں انیس سو ستر کے بعد کے اولین سالوں میں اور ٹیلی فون انیس سو ستر کے درمیانی سالوں میں اپنے گھروں میں آتا دیکھا- ہم اتنی بھی آثار قدیمہ کی نسل نہیں مگر ان ایجادات کی رفتارا ور ان میں ہونے والی دن بدن کی تبدیلیوں نے ہمیں بتایا ہے کہ ہم بہت فرسودہ اور غیر ترقی یافتہ دور کی پیداوار ہیں- ٹیلی فون آیا تو محلے میں ایک ٹیلی فون ہوتا تھا اور وہ ٹیلی فون پورے محلے کے لیے ایکسچینج کی طرح ہوتا تھا- بیرون ملک سے کالیں آتیں، لوگ اپنی کال سننے کے لیے دیے گئے وقت پر ٹیلی فون والے گھر میں پہنچ جاتے تھے- یکایک ہر گھر میں ٹیلی وژن اور ٹیلی فون نظر آنے لگا اور ہر کوئی'' امیر'' لگنے لگا - چند سال اور سرکے تو ٹیلی وژن اور ٹیلی فون امارت کی نشانیاں نہ رہیں... اس سے آگے کی کچھ منازل طے کر لینے والے امیر کہلانے لگے-
ٹیلی وژن ، ٹیلی فون، فرج، وی سی آر، ڈیک، کیسٹ پلئیر، سی ڈی پلئیر... ترقی کے زینے طے ہوتے گئے اور پھر گاڑیاں اس دوڑ میں شامل ہوگئیں- گاڑی اسٹیٹس سمبل سمجھی جانے لگیں کیونکہ باقی سب ضروریات کے زمرے میں آتا تھا اور ہر گھر میں موجود تھا- اب ہر غریب کے گھر میں یہ سب کچھ تھا، اس کی چیزیں جس کوالٹی کی بھی تھیں، سیکنڈ ہینڈ تھیں یا نئی مگر اب سب کے پاس وہ سب کچھ تھا جس کی سب کو عادت ہو چکی تھی- اب وہ دور آ گیا ہے کہ گاڑی بھی ہر کسی کے پاس ہے، ان سب اشیاء کی فراوانی ہے مگر کمی ہے رشتوں، محبتوں ، دوستیوں ، خلوص اور محبت کی-
موبائل ٹیلی فون کے بعد... اسمارٹ فون نام کی ایک ایجاد نے ترقی کے وہ در وا کیے کہ ہماری زندگیوں کے ابتدائی سالوں کی کچھ چیزیں ہم نے خود متروک ہوتے ہوئے دیکھی ہیں جن میں ریڈیو، تار، گھڑی، کیلنڈر، کیمرہ، کیلکولیٹر، ڈائری، ڈکشنری، اٹلس، اخبار، جنتری، ڈاک کا محکمہ، موسیقی سننے کے آلات اور تو اور وی سی آر وغیرہ کہ اب یہ سب کچھ فون پر میسر ہے- ایک دنیا ہے جو نظر میں تو سماتی نہیں مگر ہتھیلی میں سما کر آ گئی ہے اور اس چھوٹی سی چیز نے ہمیں دنیا بھر سے غافل کر دیا ہے- کسی بھی عمر، نسل، زبان ، خطے، مذہب اور رنگ کے لوگ ہوں، سب اس شیطانی چرخے کے ہاتھوں بے بس ہیں- اس نے ہمیں اپنے ماحول، ضروریات، مقاصد، ذمے داریوں اور فرائض سے غافل کر دیا ہے-
ہم اس کے بغیر کھانا نہیں کھا سکتے ہیں ( لقمے بے شک منہ کی بجائے ناک میں ڈال رہے ہوں ) ، گاڑی نہیں چلا سکتے نہ ہی توجہ اور دھیان سے پیدل چل سکتے ہیں ( چاہے اس میں مگن ہو کر کسی حادثے کا شکار ہو جائیں، باتھ روم نہیں جاسکتے ( باہر انتظار میں کھڑے لوگ چاہے باہر ہی فارغ ہو جائیں) غرض اس ننھے شیطان کے چیلے نے ہمیں یوں گرفتار اور مصروف کیا ہے کہ ہم باقی دنیا بھر سے تو رابطوں میں ہیں، دنیا میںکیا کیا ہو رہا ہے وہ سب جانتے ہیںمگر ہمارے گھر میں، خاندان میں، دفتر میں اور اردگرد کیا ہو رہا ہے وہ ہم نہیں جانتے- جو ہمارے پاس ہوتے ہیں ہم ان سے رابطے میں نہیں ہوتے۔
باجی کیا کر رہی ہیں؟ یار کھانا بعد میں پکا لینا، پہلے گیم میں باریاں کرو... میرا اسکور کم پڑ رہا ہے - میرے فارم پر کدالیں چاہئیں، کپڑے بعد میں دھو لیں آپا، پہلے مجھے کدالیں بھیج دیں- لڈو کی باریاں جلدی کریں... اگر مصروف تھیں تو گیم شروع ہی کیوں کی تھی؟ ایک بار ہار کر غصہ عروج کو پہنچ جاتا ہے... اور کھیلو، کھیلتے رہو... ہارو تو غصے سے ، اگلی بار جیت کی امید میںاور جیتو تو جیت کے نشے سے سرشار ہو کر... رات کا ایک بجے یا تین!! فجر بھی قضا ہو جائے، مگر اس سے کیا!! یہی تو اس شیطانی چیلے کی کوشش ہے اور شیطان کھڑا ہم پر قہقہے لگا کر ہنستا ہے، اپنی لال آنکھیں دیکھ کر جمائی لیتی ہوں ، اندازہ ہوتا ہے کہ رات تین گھنٹے کی بھی نہ تھی-
آنکھیں جانے کیوں لال ہیں؟ خود سے سوال کرتی ہوں- آئینہ ہنستا ہے... '' عشق کے ماندوں کا یہی حال ہوتا ہے!!'' اس عمر میں میںکیا عشق کروں گی میرے دوست؟ میں حیرت سے پوچھتی ہوں، جواب ملتا ہے... '' آٓنکھوں کی یہ لالی عشق کا ہی شاخسانہ ہے، حقیقی ہو یا مجازی، یہ عشق مجازی ہی تو ہے... جس سے بھی ہو جائے، چاہے ٹیلی فون سے!!''