بھارت مرکزگریز قوتوں کی گرفت میں

گورکھا لینڈ کی تازہ اور قوی علیحدگی پسند تحریک نے تومودی اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی نیندیں حرام کر دی ہیں


Tanveer Qaisar Shahid September 18, 2017
[email protected]

ستمبر 2017ء کے پہلے ہفتے بھارت کے مشہور شہر ، بنگلور،میںمعروف ترین اور نڈر خاتون اخبار نویس کے ساتھ جو سانحہ پیش آیا ہے، اس نے ایک بار پھر بھارتی میڈیا کی چُولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ صحافیہ گوری لنکیش،جو کہ نہائیت طاقتور جریدے '' لنکیش پتریکا'' کی مالک اور مدیر تھیں، کے قتل نے بھارتی اخبار نویس برادری کو پھر باور کرا دیا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت اپنے کٹر ہندووانہ مذہبی نظریات کی بدولت فاشسٹ حکومت بنتی جا رہی ہے۔ ایسی حکومت جو مخالف خیالات اور نظریات رکھنے والے صحافیوں کو برداشت نہیں کر پا رہی، چنانچہ مودی حکومت اور اُس کے اتحادیوں نے بھارتی صحافیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے۔ خاتون اخبار نویس(گوری لنکیش) کا قتل بھی بھارت میں پھیلتی اِسی فاشسٹ سوچ کا آئینہ دار ہے۔ گوری کو مبینہ طور پر آر ایس ایس ، جو مودی صاحب کی سیاسی بنیاد کہلاتی ہے، کے ایک مقامی مذہبی و سیاسی رہنما نے قتل کروایا ہے۔ یہ الزام مقتولہ کی اکلوتی بیٹی نے ممتاز بھارتی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کی ایک بڑی ٹِیم کے سامنے خطاب کرتے ہُوئے لگایا ہے۔ اُن کی نَو عمر بیٹی کو بھی ''آر ایس ایس'' اور '' بی جے پی'' کے غنڈے دھمکانے اور خاموش رہنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔

فی الحال مگر وہ کامیاب ہوتے نہیں دکھائی دے رہے کہ مقتول صحافیہ کی بیٹی بھی اپنی بہادر اور بے خوف والدہ کا نقشِ ثانی ہے۔ گوری لنکیش کا قصور محض یہ تھا کہ وہ مودی حکومت میں شامل دونوں بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں (آر ایس ایس اور بی جے پی) کے جرائم اور سنگین قومی غلطیوں کی تسلسل سے نشاندہی اور تنقید کرتی آ رہی تھیں۔ وہ اپنے تحقیقی مضامین اور تجزیوں (جو قارئین میں بے پناہ مقبول تھے) میں یہ بھی بتا رہی تھیں کہ موجودہ حکمرانوں کی عاقبت نا اندیشانہ پالیسیوں کے کارن بھارت اندرونی طور پر تیزی سے انتشار و افتراق کا شکار بن رہا ہے جو آخر کار بھارت کے لخت لخت ہونے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ انھیں مذکورہ دونوں جماعتیں اور بھارتی خفیہ ادارے بار بار وارننگ دے اور دھمکا رہے تھے کہ اپنی ''حرکتوں'' سے باز آجائیں ، بصورتِ دیگر جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی۔ آزاد صحافت کا علَم تھامنے اور اظہارِ آزادی کا عملی مظاہرہ کرنے والی اس دلیر بھارتی صحافیہ کی زندگی کا چراغ آخر کار گُل کر دیا گیا۔ چھ ستمبر کی شام گوری لنکیش کو اُس وقت گولیاں مار کر قتل کر ڈالا گیا جب وہ دفتر سے واپس آکر اپنے گھر کا دروازہ کھول رہی تھیں۔ ''ہندوستان ٹائمز'' کے معروف کالم نگار،پروفیسر چندن گوڈا،نے بجا لکھا ہے کہ ''گوری لنکیش ہمیشہ سچ اور انصاف کی مبلّغ رہیں۔''بِلا شبہ بھارت ایک عظیم اخبار نویس سے محروم کر دیا گیا ہے۔اس کا سارا بوجھ مودی حکومت کے کندھوں پر آ پڑا ہے۔ گوری کو قتل کی دھمکیاں عرصے سے مل رہی تھیں۔ اِسی لیے تو انھوں نے اپنے قتل سے چند دن پہلے اِن الفاظ میں ٹویٹ کیا تھا:'' نہرو کے زمانے میں میرے والد، پی لنکیش، حکومت کے مخالفین اور ناقدین میں شامل تھے لیکن کبھی کسی حکومتی اہلکار یا چھوٹے بڑے وزیر نے انھیں قتل یا خاموش کرانے کی دھمکی نہیں دی تھی لیکن اب مودی حکومت اور مودی کی بنیاد پرست دونوں حکومتی پارٹیاں( آر ایس ایس اور بی جے پی)مجھے اور میرے ساتھیوں کو قتل کی دھمکیاں دے رہی ہیں۔''

نریندر مودی کی حکومت کے دوران گوری لنکیش کا قتل پہلاایسا قتل نہیں ہے جو صحافتی دنیا سے متعلق ہے۔ آج کے غیر روادار اور فاشسٹ بھارت میں ہر وہ لکھنے والا خوف اور دہشت کا شکار ہے جو کسی بھی شکل میں مودی اور اُن کے مذہبی سنگی ساتھیوںکی مخالفت کرتا ہے۔ موجودہ بھارتی حکومت نے اپنے سیاسی، سماجی اور میڈیائی مخالفین سے نمٹنے کے لیے جو اسلوب اپنا لیے ہیں، ان میں صبر اور برداشت کی کوئی گنجائش ہی نہیں نکلتی۔ نریندر مودی نے گجرات کی وزارتِ علیا کے دوران اپنے مخالفین کو تہ تیغ کرنے کی جو پالیسیاں اپنائی تھیں، اب اُنہی کا عکس اُن کی وزارتِ عظمیٰ میں بھی جھلک اور چھلک رہا ہے۔ ردِ عمل کے طور پر بھارت بھر میں علیحدگی پسندی کی طاقتور تحریکوں کی تعداد بھی تین درجن تک پہنچ گئی ہے۔ سادہ انداز میں کہا جاسکتا ہے کہ موافق حالات اور فضا ملتے ہی بھارت کے تیس ٹکڑے ہونے کے امکانات میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔گویا مودی کے ظلم و جہل کی وجہ سے بھارتی اکائی اور یکجہتی کا جہاز بُری طرح ڈول رہا ہے۔

گورکھا لینڈ کی تازہ اور قوی علیحدگی پسند تحریک نے تومودی اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ بھارت کے اس پہاڑی علاقے میں گذشتہ 110دنوں سے مار کٹائی، آتش زنی، قتل و غارتگری، سرکاری عمارتوں کو آگ لگانے کی وارداتیں مسلسل جاری ہیں۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ اِس تحریک سے اتنی نالاں اور خوفزدہ ہے کہ18جون 2017ء سے لے کر اب تک اس خطے میں انٹر نیٹ سروس مسلسل بند ہے۔ گورکھا لینڈ کا مطالبہ کرنے والے پھر بھی قابو میں نہیں آرہے۔ اس منہ زور اور طاقتور تحریک کو GMCC(گورکھا لینڈ موومنٹ کوآرڈی نیشن کمیٹی) کا نام دیا گیا ہے۔ اِس سے پہلے بھی پانچ بار ( 1907ء ، 1929ء،1941ء،1952ء اور1984ء میں) علیحدہ وطن (گورکھا لینڈ) حاصل کرنے کی زبردست تحریکیں چل چکی ہیں۔ لاکھوں گورکھوں نے اس مقصد کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے دیے ہیں ۔ اب بھی ہزاروں گورکھے اپنے الگ وطن کے حصول کی جدو جہد میں بھارتی جیلوں میں قید ہیں۔ اِس خطے کے ہر درودیوار پر GORKHA LAND IS OUR BIRTH RIGHTکی وال چاکنگ نظر آرہی ہے۔ دوسری طرف مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ، ممتا بینر جی، کی طرف سے آنے والی دھمکیوں نے مودی حکومت کے اوسان خطا کررکھے ہیں۔ ممتا بینرجی کہہ رہی ہیں کہ اگر مغربی بنگال کا ذرا سا حصہ بھی دارجلنگ( گورکھا لینڈ کا مرکز) کو دیا گیا تو ''ہم خون کی ندیاں بہا دیں گے۔''

اپنے ہمسایہ ممالک کے داخلی معاملات میں مجرمانہ دخل اندازیوں کے شوقین جناب نریندر مودی کا اپنا ملک باطنی طور پر شدید انتشار و افتراق کا شکار بن چکا ہے۔ اوپر سے مودی کے مذہبی جنونی اور بنیاد پرست ساتھیوں کے مشوروں کی اساس پر وضع کی گئی پالیسیاں مزید قیامت ڈھا رہی ہیں۔ ان متشددانہ پالیسیوں نے بھارت بھر میں ناراض اور علیحدگی پسند عناصر کی تعداد میں خاصا اضافہ کیا ہے۔ یوں لگ رہا ہے جیسے بھارتی اکائی ٹوٹ رہی ہے اور شکست و ریخت کا عمل اپنے انجام کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔بھارت کی اس قومی ٹوٹ پھوٹ میں مودی کی مذہبی تشدد آمیز پالیسیوں نے عمل انگیز کا کام کیا ہے؛چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ تین قسم کی مرکزِ گریز قوتوں نے بھارت کو اپنی آہنی گرفت میں جکڑ رکھا ہے۔ یہ سیاسی اور جغرافیائی علیحدگی پسندی پر بھی مبنی ہیں، سماجی و معاشی انصاف کے حصول پر بھی مشتمل ہیں اور مذہبی بنیادوں پر اپنا الگ تشخص منوانے کا عمل بھی جاری ہے۔ ان تینوں مرکزِ قوتوں نے بھارت میں آسام، مقبوضہ کشمیر، جنوبی بھارت، خالصتان، گورکھا لینڈ، نکسالی(ماؤسٹ)، شمال مشرقی ریاستوں اور لداخ کو روحانی اور نظریاتی اساس پر بھارت سے جدا کر رکھا ہے۔ایک مہین سا رشتہ باقی رہ گیا ہے جس نے دہلی سرکار کی چھتری قائم کر رکھی ہے۔

یہ نحیف اور لایعنی رشتہ بھی بس ٹوٹا ہی چاہتا ہے۔نکسالیوں کی علیحدگی پسندی کی تحریک تو اتنی خوں رنگ ہو چکی ہے کہ بھارتی سیکریٹری داخلہ کو بھی کہنا پڑ گیا ہے کہ '' ماؤنواز یہ تحریک اتنی منہ زور ہو گئی ہے کہ لگتا ہے 2050ء تک یہ بھارت کو اپنا ماننے ہی سے انکار کردیں گے۔''اِسی پر بس نہیں ہے۔ بھارت کی سات شمال مشرقی ریاستیں (آسام، ارونچل پردیش، میگھالیا، منی پور، میزورام، ناگا لینڈ اور تری پورہ) تو مل کر علیحدگی کی راہ پر بگٹٹ بھاگ رہی ہیں۔ ان ساتوں ریاستوں( جنہیں ''سیون سسٹر سٹیٹس''بھی کہا جاتا ہے) میں غربت وعسرت، ناخواندگی،بے روزگاری اور موسمی تبدیلیوں نے اتنی قیامتیں برپا کر رکھی ہیں کہ یہاں کے عوام ذہنی، روحانی اور جذباتی طور پر نئی دہلی سے اپنا ناتہ منقطع کر چکے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قدرت بھی ''سیون سسٹر سٹیٹس'' کو یکمشت کرکے ایک علیحدہ وطن کی شکل دینا چاہتی ہے۔حالیہ ایام میں ''ڈوکلام'' کے مقام پر بھارت کو چین کے ہاتھوں جس ہزیمت اور پسپائی کا زخم سہنا پڑا ہے، کہا جارہا ہے کہ یہ شکست بھارت کے باطنی انتشار اور مرکزِ گریز قوتوں کو مزید بڑھاوا دینے کا باعث بن جائے گی!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں