پاکستان کی سالمیت کو درپیش خطرات
یہ بات درست ہے کہ چوہدری نثار ایک متین،سنجیدہ، منکسرالمزاج اورشریف النفس انسان ہیں
سابق وزیرِداخلہ چوہدری نثار کے کچھ روز پہلے نجی چینل پر دیے گئے ایک انٹرویو نے ویسے تو اُن کی سیاسی شخصیت کے ظاہری اور باطنی پہلوؤں کو نہ صرف عیاں اور اُجاگر کردیا ہے بلکہ اُن کی میاں صاحب سے طویل رفاقت اور محبت کے بارے میں بھی کچھ سوالات اُٹھا دیے ہیں۔ وہ فطرتاًایک خاموش طبع سیدھے سادے آدمی واقع ہوئے ہیں۔ اُنھیں نہ سیاست کے پیچ وخم سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ نظامِ جمہوریت سے والہانہ لگاؤاور عشق۔ وہ قیادت کی محبت میں وارفتگی اور جانثاری کے تصورکے اتنے قائل بھی نہیں ہیں کہ اُس کے لیے اپنا چین وسکون تباہ کرلیں۔ وہ جمہوریت سے صرف اسی حد تک تعلقات رکھنے کے حامی اور خواہش مند ہیںجہاں اُن کی باتوں اور مشوروں کو کوئی وقعت اور اہمیت دی جائے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ جب کبھی جمہوریت اور اُن کے لیڈر پر غیر جمہوری قوتوں کی جانب سے کڑا اور سخت وارکیا گیا وہ فورا اُن سب سے لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے گوشہ نشیں ہوگئے۔ میاں نواز شریف کو ماضی میں جب بھی مشکلات اور مصائب سے دوچار ہونا پڑا چوہدری نثار دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دیے۔ ہاں البتہ دور اقتدار میں وہ ہمیشہ چٹان کی مانند میاں صاحب کے ساتھ کھڑے دکھائی دیے۔ ابھی چند ہفتوں کی بات ہے میاں صاحب کی نااہلی سے صرف ایک روز پہلے وہ ایک پریس کانفرنس میں یہ کہتے ہوئے تو ضرور نظر آئے کہ اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ میاں صاحب آپ کے خلاف آیا تو آپ مجھے چٹان کی طرح اپنے ساتھ کھڑا پائیں گے۔
وہ دن ہے اور آج کادن میاں صاحب دور دورتک اُس چٹان کے وجود کو تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔چوہدری صاحب نے آج تک میاں صاحب کی حمایت میں کبھی ایک تقریریا بیان بھی نہیں دیا بلکہ اُن سے اپنے اختلافات کا چرچا کرکے اُنہیں کمزور کرنے کی نادانستہ اور غیر دانشمندانہ کوشش ضرور کرتے رہے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ چوہدری نثار ایک متین،سنجیدہ، منکسرالمزاج اورشریف النفس انسان ہیں اور اُن پر کبھی کسی قسم کی کرپشن کاکوئی الزام نہیں بھی لگا۔لیکن ایسی پاسداری اور ایمانداری کا کیا فائدہ جو ضرورت پڑنے پر بھی حق گوئی اور راست بازی سے اجتناب اور گریز کرتی رہے۔جو جمہوریت کے ثمرات سے لطف اندوز اور فیضیات تو ہوتی رہے لیکن وقت پڑنے پراُس کی حفاظت کیلیے لمحہ بھر کیلیے بھی ساتھ کھڑی نہ ہوسکے۔نادیدہ قوتوں سے الجھنے کے نتائج کا خوف دلاکر وہ میاں صاحب کو اپنی دانست میں یقینا خیر اندیش مشورہ دے رہے ہونگے لیکن یہاں صرف ایک وزیراعظم کی بات نہیں ہے ۔سرزمین پاک پر اب تک جتنے بھی وزرائے اعظم آئے کیا سارے ہی سرکش اور باغی تھے ۔ اٹھارہ کے اٹھارہ جمہوری حکمرانوں کی ایسی کون سی قدر اور خصوصیت مشترک تھی جس کی بناء پر سبھی قبل ازوقت اقتدار سے ہتک آمیز انداز میں محروم اقتدار کردیے گئے۔
ایک طرف اُنہیں یہ شکوہ ہے کہ میاں صاحب آخری دنوں میں اُن سے کسی معاملے میں مشاورت نہیں کررہے تھے۔ دوسری جانب وہ ملک کی سالمیت کو درپیش اُن خطرات کا مبہم اور غیر واضح انداز میں ذکر بھی کررہے تھے جواُن کے بقول صرف ہماری پانچ اہم شخصیات کے علم میں ہیں جس میں سے ایک وہ خود بھی ہیں۔ باقی چار شخصیات میں ایک سابق وزیر اعظم، سابق اور موجودہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی ہیں۔ ہم سب یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کی سالمیت کو آج کل سب سے بڑاخطرہ جس عالمی طاقت سے ہے وہ کون سی ہے۔ پاک چائنا اقتصادی راہداری کسے سب سے زیادہ کھٹک رہی ہے۔اور وہ کون ہے جو اُسے ہر حال میںمکمل ہونے نہیں دینا چاہتا۔ یہی وہ طاقت ہے جسے ہمارا نیوکلیئر پروگرام بھی ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ یہ بات عام آدمی سے زیادہ ہمارے عسکری حلقے بخوبی جانتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دہشتگردوں کوپناہ دینے کا حالیہ الزام محض ایک بہانہ ہے۔ اصل نشانہ ہمارا ''سی پیک اور ہمارا ایٹمی پروگرام'' ہے۔
ہمارا دشمن یہ بات بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ اپنے اِن مذموم مقاصد میں اُسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب ہمارے یہاں جمہوری حکومت کے بجائے ایک فرد واحد کی غیر جمہوری حکومت ہوکیونکہ ساری پارلیمنٹ کی بجائے فرد واحد کو قابو کرنا بہت آسان ہوتا ہے اور بد قسمتی سے ہمارے یہاں حالات اُسی جانب تیزی سے بڑھتے بھی رہے ہیں۔ ہم دانستہ و غیر دانستہ طور پر عالمی طاقتوں کی اِن سازشوں کومزید مہمیزکرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ ملک چاروں طرف خطرات سے گھرتا جا رہا ہے اور ہم اپنے یہاں سیاسی اتھل پتھل اور افراتفری کرکے بے یقینی صورتحال کا سامان خود پیدا کر رہے ہیں۔ابھی صرف ایک سیاستداں کوگندہ اور رسوا کرکے منظرنامے سے ہٹا یاگیا ہے۔ پھر شاید رفتہ رفتہ دوسروں کو بھی کچھ ایسی ہی تدابیر کے ذریعے عوام کے اعتماد ، اعتبار اور پذیرائی سے محروم کیا جائے گا۔
2018ء سے پہلے پہلے حالات اِس نہج پر پہنچا دیے جائیں گے کہ پر امن ماحول میں انتخابات کا انعقاد ممکن ہی نہ رہے۔نہ خان صاحب کی ہاتھ کچھ آئے گا اور نہ دوسری جماعتوں کے جو اقتدارواختیارات کی ندی میں ڈبکیاں لگانے کیلیے چار سالوں سے بے چین و مضطرب ہوئے جا رہے ہیں۔ قوم کو خبر بھی نہ ہوگی کہ اُس کے ساتھ کتنا بڑا ہاتھ ہوچکا ہے۔جمہوریت کا خاتمہ بالخیر کرکے آمریت کے طویل دورکی راہیں استوارکی جائیں گی اور پھر وہی کچھ دہرایاجائے گا، جو 2001ء میں نائن الیون کے بعدکیا گیا تھا۔ رچرڈ آرمٹیج کی جگہ اب کوئی اور ہمیں پتھروں کے دور میں بھیج دینے کا خوف دلاکر ہمار ا سب کچھ سبو تاژ کردے گا۔ ہم جو ابھی کچھ دن پہلے تک اقتصادی محاذ پر کامیابی اورسرخروئی کے خواب دیکھ رہے تھے اچانک نیست ونابو کردیے جائیں گے۔ہمارا دیرینہ پر خلوص دوست ملک ''چین'' بھی ہم سے ناراض اور متنفرکردیا جائے گا اور سی پیک کا سارا منصوبہ رول بیک یا پھر ادھورا چھوڑ کرتشنہ تعبیر رہ جانے والے خوابوں کی تصویر بنادیا جائے گا۔
آنیوالے دنوں کی یہ خوفناک تصویر خدا نہ کرے ہماری قوم کا مقدر بنے لیکن وطن عزیزکی سالمیت کو درپیش جن خطرات کاخدشہ سابق وزیر داخلہ ڈھکے چھپے الفاظ میں ہمارے گوش گذار کررہے تھے توکیا وہ اِن سے بھی زیادہ ہیبت ناک اور خطرناک ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو اُن سے نمٹنے اور نبردآزما ہونے کیلیے ہمارے ریاستی اداروں نے کیاحکمت عملی تیار کی ہے۔کوئی حفاظتی پلاننگ اور منصوبہ بندی تو کی ہوگی لیکن یاد رکھا جائے یہ کام صرف ایک ادارہ اکیلا اورتنہا ہرگز نہیں کرسکتااس کیلیے ملک کے تمام اداروں کو متحد اور منظم ہونا ہوگا۔ جب بقول چوہدری نثار موجودہ وزیراعظم کو اِن خطرات سے ابھی تک آگاہ ہی نہیں کیاگیا ہے تو پھر نجانے ہمارے سول اورعسکری ادارے کس طرح اِن خطرات سے مل جل کرنمٹ پائینگے،سوچا جائے کہ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا کیا یہی صحیح وقت ہے۔کیا ہم کچھ دن صبر نہیں کرسکتے تھے۔ نئے انتخابات میں ویسے بھی سال بھر سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے۔مطلوبہ تبدیلی اُس وقت بھی کی جاسکتی تھی لیکن کم ازکم سی پیک منصوبے کو مکمل ہوجانے دیا جاتا۔
ستر سالوں میں ہمیں آج صرف ایک بار معاشی و اقتصادی طور پر مضبوط اور مستحکم ہونے کا سنہری موقعہ نصیب ہوا تھا۔ہم نے اگر اُسے بھی اپنی ذاتی دشمنی اورپر خاش کی وجہ سے سبوتاژاور نیست ونابود کردیا تو پھر شاید ہی ہمیں کوئی اور موقعہ نصیب ہو ۔ قوموں کے مقدر میں ایسے موقعے شازونادر ہی آیاکرتے ہیں۔ملک کی حفاظت اور تحفظ کا مطلب صرف اُس کی سرحدوں کی نگہبانی اور حفاظت ہی نہیں ۔ بلکہ اُسے اندرونی اور بیرونی تمام خطرات سے بچانا بھی اُس کی حفاظت کے زمرے میں آتا ہے۔ اُسے معاشی اور اقتصادی محاذ پر دشمنوں کی سازشوں سے بچانا بھی اُس کی حفاظت اور پاسبانی میں شامل ہے۔ عالمی طاقتوں کے آگے جرأت و ہمت سے کام لیتے ہوئے ملکی مفادات کا تحفظ کرنا بھی ریاست کے سارے اداروں کی ذمے داری ہے۔قوم اپنے اداروں کی اِس ثابت قدمی اور اولو العزمی کی منتظر ہے جو اُنہیں پتھروں کے دور میں چلے جانے کا خوف دلانے کی بجائے غیرملکی طاقتوں کی چیرہ دسیتوں کے آگے بند باندھ کر اُسے سرخرو اورکامیاب کرسکے۔