بھارت اور چین میں تلخیاں
بھارت کی بے لگام خواہشات اور قبضے کی کوششوں کے سامنے چین نے صبر کا مظاہرہ
لاہور:
پاکستان کے قیام سے پہلے کی بات ہے جب چینی اپنی پشت پر بڑے بڑے تھیلے اور گٹھڑیاں لادے برصغیر میں داخل ہوتے تھے۔ ان کے پاس ریشمی کپڑے ہوا کرتے تھے یہ غریب تاجر بڑی محنت و مشقت سے طویل سفر کرکے آتے اور اپنا کپڑا فروخت کرتے یہ مسکراتے تو ان کے پیلے دانت کھل جاتے جنھیں دیکھ کر کراہیت آتی۔ ان کے کپڑے خاک آلود ہوتے غربت ان کے وجود سے چھلکتی پھر دنیا نے دیکھا کہ یہی چینی جو افیوم کھا کر لمبی تان کر ایسے سوتے کہ انھیں کسی کی خبر تک نہ ہوتی ایسا پلٹا کھایا کہ دنیا بھر میں ان کی طاقت، قوت اور معیشت کے چرچے ہونے لگے۔ تمام افیمچی حضرات کو دریا برد کرنے کے بعد آگے بڑھنے والی چینی قوم نے متحد ہوکر بڑی دقتوں سے آگے کا سفر کیا اور آنے والا وقت چینی طاقت، قوت اور علم و ہنر کا ہوگا۔
حالیہ صورتحال میں چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی نے عجیب کشمکش پیدا کردی ہے 1961ء میں جب بھارت نے چن کو اپنے قبضے میں لینے کی ٹھانی تو اسے چین اس وقت کمزور افیمچیوں سے بھرا ملک نظر آ رہا تھا جس کو عظیم بھارت اپنے پیروں تلے روند سکتا تھا لیکن ایسا ہوا نہیں اور بھارتی فوج کو منہ کی کھانی پڑی۔ بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے بارہ اکتوبر 1962ء کو چین کے خلاف اعلان جنگ کیا تھا کہ بھارت اکسائی چن کے علاقے کو باآسانی قبضے میں لے گا اس اقدام کے تحت اروناچل پردیش میں فوجی اڈے تیز رفتاری سے قائم کیے گئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے پہلے چینی وزیراعظم چو این لائی اور بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو ایشیا کی پاور فل مملکت بننے کیلیے اتحاد اور محبت کے نعرے لگاتے رہے یہ سلسلہ جو 1956ء سے شروع ہوا تھا جلد ہی بگڑنا شروع ہوگیا کیونکہ بھارت جو ہمیشہ سے اپنی طاقت کے زعم میں گرفتار رہا ہے، ہمالیہ کے علاقوں پر قبضے کے خواب دیکھنے لگا۔ صرف یہی نہیں بلکہ تبت میں دلائی لامہ کی حمایت میں چین کے خلاف کھل کر سامنے آگیا۔ آج کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو بھارت کی بے لگام خواہشات اور قبضے کی کوششوں کے سامنے چین نے صبر کا مظاہرہ کیا یہاں تک کہ بھارتی افواج اسی طاقت کے گھمنڈ میں چین کے علاقے میں بڑھتی گئی لیکن جب چین کی افواج نے انھیں اپنے مضبوط گھیرے میں لیا تو انھیں اس وقت اپنی حماقت کا احساس ہوا لیکن اس وقت تک ان کی فوج بری طرح شکست کھا چکی تھی۔ نفسیاتی طور پر بھارت نے اس شکست کوکچھ اس طرح سمیٹنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے ملک میں اسلحہ جات کے انبار لگاتا رہا اور آج اس کے جنگی جنون کی یہ حالت ہے کہ اسے دنیا بھر میں تیسرے نمبر کی بڑی فوج رکھنے کا اعزاز حاصل ہے۔
اس بڑی فوج کے اندر کس حد تک شکستگی اور ابتری ہے، سوشل میڈیا کے ذریعے یہ بات کھل کر عام عوام تک پہنچ چکی ہے۔ بھارتی افواج کے اعلیٰ افسران اپنے سپاہیوں اور نچلے درجے کے افسران کے ساتھ کس قسم کا سلوک روا رکھتے ہیں اورکرپشن کی دیمک کس طرح انھیں چاٹ رہی ہے اس سے بھارتی عوام میں بددلی پھیل چکی ہے ایک عام بھارتی بچہ اور نوجوان فوج کو جوائن کرنے میں دلچسپی نہیں لیتا۔ 1962ء سے لے کر آج تک بھارت اور چین کی آرمی میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں، بلاشبہ بھارت ایک عظیم فوج رکھنے والا ملک بن چکا ہے لیکن ادھر چین میں بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ بقول چین کے وزارت دفاع کے ''پہاڑ کو ہلانا آسان ہے، پیپلز لبریشن آرمی کو ہلانا مشکل'' ۔ یہ جملہ بھارت کیلیے ایک عظیم دھمکی ہی نہیں بلکہ حقیقت بھی ہے کیونکہ پچھلی کئی دہائیوں سے پیپلز لبریشن آرمی نے یہ ثابت کر رکھا ہے کہ بلاشبہ چینی افواج دنیا کی بہترین افواج میں سے ہے۔ اس کا مظاہرہ 1962ء میں ہو چکا ہے، جب کہ بھارتی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ بھارت 1962ء کا انڈیا نہیں ہے اور وہ چین کا مقابلہ کر سکتا ہے۔
حالیہ تنازعہ ایک سڑک ہے جسے چین اپنے علاقے ڈوکلام میں تعمیر کر رہا ہے، یہ علاقہ ہمالیہ میں سکم کے نزدیک بھوٹان اور چین کی سرحد پر واقع ہے یاد رہے کہ سکم بھارت کا وہ علاقہ ہے جو ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کے نزدیک ہے اور یہ ریاست تشدد اور علیحدگی کے لیے اسی طرح مشہور ہے، جیساکہ کشمیر۔ لیکن پھر بھی بھارت کو اس فسادی علاقے سے نزدیک ڈوکلام میں سڑک کی تعمیر سے سخت پریشانی ہے، ریاست سکم سے منسلک ڈوکلام میں بننے والی یہ سڑک دراصل اکسائی چن (جسے حاصل کرنے کے لیے 1962ء میں بھارت نے فوجی کارروائی کی تھی اور بری طرح شکست کھائی تھی) کو تبت سے ملاتی ہے جب کہ بھارتی دفاعی ماہرین اسے اسٹریٹجک خطرہ قرار دیتے ہیں جب کہ چین اپنے علاقے میں بھارتی افواج کی دراندازی پر جوانوں نے سڑک کی تعمیر کے دوران چینیوں کو باز رکھنے کی کوشش کی سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
گو پچھلے کئی مہینوں سے دونوں ممالک کے درمیان سرد مہری چل رہی تھی لیکن اس سڑک کی تعمیر نے اس کو جنگی ہوا کا رخ دے دیا ہے۔ چین کا کہنا ہے 1890ء میں حکومت برطانیہ کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت اسے اس سڑک کی تعمیر کا حق ہے جب کہ بھارتی فوجیوں کی مداخلت اس تاریخی معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان اسی بیانات کی جنگ کے بعد کیا ایک بار پھر جنگ کا بازار گرم ہو گا یہ آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے لیکن بھارت کو اب کسی مغالطے میں رہنا نہیں چاہیے کہ چین سپر پاور ہے۔