مرادِ مصطفیٰ ﷺ امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ
حضرت عبدﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروق ؓ کا مسلمان ہوجانا اسلام کی فتح ہے
ISLAMABAD:
سیدنا عمر فاروق ؓ اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں جن کی اسلام کے لیے روشن خدمات، جرأت، بہادری، عدل و انصاف، فتوحات اور شان دار کردار و کارناموں سے اسلام کا چہرہ روشن اور تاب ناک ہے۔ آپ ؓ کا سنہرا دورِ خلافت مسلمانوں کی بے مثال فتوحات، ترقی اور عروج کا زمانہ تھا۔ مسلمان اس قدر خوش حال ہوگئے تھے کہ لوگ زکوٰۃ دینے کے لیے مستحق کو تلاش کرتے تھے۔
سیدنا عمر فاروقؓ کو حضورؐ نے بارگاہ خداوندی سے مانگا تھا اسی لیے آپ کو ''مرادِ مصطفیٰؐ'' کہا جاتا ہے۔ آپؓ عشرہ مبشرہ جیسے خوش نصیب صحابہ کرامؓ میں بھی شامل ہیں، جن کو دنیا میں ہی حضورؐ نے جنّت کی بشارت دے دی تھی۔ آپ ؓ کی تائید میں بہت سی قرآنی آیات نازل ہوئیں۔ آپؓ کی شان میں چالیس کے قریب احادیث نبویؐ موجود ہیں۔ آپؓ کی صاحب زادی سیدہ حفصہؓ کو حضور اکرم ﷺ کی زوجہ محترمہ اور ام المؤمنین ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔
حضرت عبدﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروق ؓ کا مسلمان ہوجانا اسلام کی فتح، ان کی ہجرت نصرت الٰہی اور ان کی خلافت ﷲ تعالیٰ کی رحمت تھی۔
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا : ''اے (عمرؓ) ابن خطاب! قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، جب تم کو شیطان کسی راستے پر چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ اس راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے کو اختیار کرلیتا ہے۔'' (بخاری و مسلم)
ایک روز نبی کریمؐ گھر سے مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور آپؐ کے ہم راہ دائیں بائیں ابو بکر ؓ و عمرؓ بھی تھے۔ آپؐ ان دونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، اسی حالت میں آپؐ نے فرمایا کہ قیامت کے روز ہم اسی طرح اٹھیں گے۔ (ترمذی)
رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا: '' ہر نبی کے دو وزیر آسمان والوں میں سے ہوتے ہیں اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوتے ہیں۔ میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے جبرائیلؑ اور میکائیلؑ ہیں اور زمین والوں میں سے ابوبکرؓ و عمرؓ ہیں۔'' (ترمذی)
ایک موقع پر حضورؐ نے فرمایا : '' میرے بعد ابوبکرؓ و عمرؓ کی اقتدا کرنا۔'' (مشکوٰۃ)
حضرت عمر فاروقؓ نے تمام غزوات و جنگوں میں حصہ لیا اور کفار کے خلاف شجاعت و بہادری کے جوہر دکھائے۔ بدر کے قیدیوں کے بارے میں اﷲ تعالیٰ کو حضرت عمر فاروقؓ کا مشورہ اس قدر پسند آیا کہ آپؓ کی رائے اور مشورہ کی تائید میں آیت قرآنی نازل ہوئی۔
آپؓ کا نام عمر ابن خطاب، لقب فاروق اور کنیت ابوحفص ہے۔ آپ ؓ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں حضور ﷺ سے جاملتا ہے۔ مشہور روایت کے مطابق آپ ؓ نبوت کے چھٹے سال33 سال کی عمر میں اسلام کی دولت سے مال مال ہوئے۔ آپ ؓ سے قبل چالیس مرد اور گیارہ عورتیں نور ایمان سے منور ہوچکی تھیں۔ سیدنا عمر فاروقؓ کا رنگ سفیدی مائل بہ سرخ تھا، رخساروں پر گوشت کم اور قد لمبا تھا، جب لوگوں کے درمیان کھڑے ہوتے تو سب سے بلند نظر آتے اور ایسا معلوم ہوتا گویا آپؓ سواری پر سوار ہیں۔ آپ ؓ انتہائی بہادر اور طاقت ور تھے۔ اسلام لانے سے قبل جیسی شدت کفر میں تھی، اسلام لانے کے بعد ویسی ہی شدت اسلام میں بھی تھی۔ آپؓ خاندان قریش کے وجیہہ اور شریف ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ زمانۂ جاہلیت میں سفارت کاری آپ ؓ ہی کی ذمے داری تھی۔ آپؓ کے ایمان لانے کا واقعہ مشہور و معروف اور آپ ؓ کا اسلام لانا حضورؐ کی دعاؤں کا ثمر اور معجزہ تھا۔
آپؓ کے اسلام لانے کے اعلان سے صحابہ کرامؓ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور کفار پر رعب پڑگیا۔ آپ ؓ کے اسلام لانے سے بیت ﷲ میں اعلانیہ نماز ادا کی گئی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت سے قبل بیت ﷲ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا: میں ہجرت کرکے مدینہ جارہا ہوں، یہ نہ کہنا کہ میں نے چھپ کر ہجرت کی، جس نے اپنی بیوی کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کرانا ہو وہ مجھے ہجرت سے روکے۔ لیکن کفار میں سے کسی کو بھی آپؓ کا راستہ روکنے کی ہمت نہ ہوئی۔
آپؓ کے اسلام لانے سے دین اسلام بہت تیزی سے پھیلنے لگا۔ آپؓ نے خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور خلافت میں ان کے ساتھ مل کر اسلام کی اشاعت و غلبے کے لیے بہت کام کیا۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو اپنے دور خلافت میں اس بات کا تجربہ ہو چکا تھا کہ ان کے بعد منصب خلافت کے لیے سیدنا عمر فاروقؓ سے بہتر کوئی شخص نہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ کے انتخاب کے لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ''خفیہ رائے شماری'' کا طریقہ اختیار کیا۔ صحابہ کرامؓ کی اعلیٰ مشاورتی کونسل اور جلیل القدر صحابہ کرامؓ سے مشورے کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سیدنا عمر فاروقؓ کی جان نشینی کا اعلان کیا۔ بعض مورخین کے مطابق رائے شماری کے دوران چند صحابہ کرامؓ کا خیال تھا کہ حضرت عمرؓ کا مزاج سخت ہے، اگر وہ سختی پر قابو نہ پاسکے تو بڑا سانحہ ہوگا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جواب دیا کہ عمرؓ کی سختی میری نرمی کی وجہ سے ہے۔ جب تنہا ان پر ذمے داری عاید ہوگی تو یقینا جلال و جمال کا امتزاج قائم ہوجائے گا۔
حضرت عمر فاروقؓ نے خلیفہ بننے کے بعد مسلمانوں کو خطبہ دیا اور فرمایا، اے لوگو! میری سختی اس وقت تک تھی، جب تم لوگ حضورؐ اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی نرمی اور مہربانی سے فیض یاب تھے۔ میر ی سختی، نرمی کے ساتھ مل کر اعتدال کی کیفیت پیدا کر دیتی تھی۔ اب میں تم پر سختی نہیں کروں گا۔ اب میری سختی صرف ظالموں اور بدکاروں پر ہوگی۔ اسی خطبے میں آپؓ نے سوال کیا کہ اے لوگو! اگر میں احکامات نبویؐ کے خلاف حکم دوں تو تم کیا کروگے؟ لوگ کچھ نہ بولے اور خاموش رہے، پھر دوبارہ آپؓ نے یہی سوال دہرایا تو ایک نوجوان تلوار کھینچ کر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ اس تلوار سے سر کاٹ دیں گے۔ اس پر آپؓ بہت خوش ہوئے۔
عرب کے زورآور رئیس آپؓ کے نام اور تذکرے سے کانپ جاتے تھے۔ خلیفۃ المسلمین بننے کے بعد آپ ؓ منبر پر تشریف لائے تو اس سیڑھی پر بیٹھ گئے، جس پر حضرت ابو بکر صدیقؓ پاؤں رکھتے تھے۔ صحابہ کرام ؓ نے کہا کہ اوپر بیٹھ جائیں۔ تو فرمایا! میرے لیے یہی کافی ہے کہ مجھے اس مقام پر جگہ مل جائے جہاں صدیق اکبرؓ کے پاؤں رہتے ہوں۔
آپؓ کے زہد و تقویٰ کی یہ حالت تھی کہ بیت المال میں سے اپنا وظیفہ سب سے کم مقرر کیا، جو آپؓ کی ضرور ت کے لیے بہت کم تھا۔ بیت المال سے صرف دو ہی جوڑے کپڑے کے لیتے، وہ بھی کسی موٹے اور کھردرے کپڑے کے ہوتے، جب وہ پھٹ جاتے تو ان پر چمڑے اور ٹاٹ کے پیوند لگاتے۔ حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے لباس میں سترہ پیوند شمار کیے۔ خوفِ الٰہی کی یہ حالت تھی کہ نماز میں آیات قیامت و آخرت کی تلاوت پر بے ہوش ہوجاتے۔ صدقات بہت کثرت سے دیا کرتے تھے۔ عمر کے آخری حصے میں ہمیشہ روزے سے رہتے تھے۔ اپنی رعایا کی خبرگیری کے لیے راتوں کو جاگ کر گشت کیا کرتے۔ جو صحابہ کرامؓ جہاد پر گئے ہوتے ان کے گھروں کی ضروریات کا خیال رکھتے، بازار سے سامان خود خریدتے اور ان کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔
حضرت عمر فاروق ؓجب کسی صوبے یا علاقے میں کسی کو گورنر مقرر کرتے تو اس کی عدالت و امانت اور لوگوں کے ساتھ معاملات کے بارے میں خوب تحقیق کرتے اور پھر اس کو مقرر کرنے کے بعد اس کی مسلسل نگرانی بھی کراتے۔ رعایا کو حکم تھا کہ میرے حکام سے کسی کو بھی کوئی شکایت و تکلیف پہنچے تو وہ بے خوف و خطر مجھے اطلاع دیں۔ آپ ؓ اپنے حکام کی معمولی بات پر بھی گرفت کرتے اور ان کو مقرر کرتے وقت ایک کھلا خط لکھ کر دیتے، جس میں یہ ہدایات درج ہوتیں۔
'' باریک کپڑے نہ پہننا، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہ کھانا، اپنے مکان کا دروازہ بند نہ کرنا، کوئی دربان نہ رکھنا تاکہ جس وقت بھی کوئی حاجت مند تمہارے پاس آنا چاہے بلا روک ٹوک آجا سکے، بیماروں کی عیادت کو جانا اور جنازوں میں شرکت کرنا۔''
حضرت عمر فاروقؓ اپنی رعایا کی فلاح و بہبود اور ان کی خدمت و آرام کا بہت خیال رکھتے تھے۔ عوامی شکایات کو ہر ممکن دور کرنے کی کوشش کرتے۔ آپؓ کا یہ معمول تھا کہ ہر نماز کے بعد مسجد کے صحن میں بیٹھ جاتے اور لوگوں کی شکایات سنتے ہوئے موقعے پر احکامات جاری کرتے۔ راتوں کو گشت کرتے اور راہ چلتے لوگوں سے مسائل و حالات پوچھتے۔ دور دراز علاقوں کے لوگ وفود کی صورت میں حاضر ہوکر اپنے مسائل وغیرہ سے آگاہ کرتے اور بعض مرتبہ آپؓ مختلف علاقوں کا خود دورہ کرکے لوگوں کی شکایات کا ازالہ فرماتے۔
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں بیت المقدس کو فتح کرنے اور قیصر و کسری کو پیوند خاک کرکے اسلام کی عظمت کا پرچم لہرانے کے علاوہ شام، مصر، عراق، جزیرہ خوزستان، عجم، آرمینیا، آذر بائیجان، فارس، کرمان، خراسان اور مکران سمیت دیگر کئی علاقے فتح کیے۔ آپؓ کے دورِ خلافت میں3600 علاقے فتح ہوئے۔ 900 جامع مسجدیں اور 4000 عام مساجد تعمیر ہوئیں۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں خزانے کا محکمہ قائم کیا۔ عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر کیے۔ جیل خانہ اور پولیس کا محکمہ بھی آپؓ نے ہی قائم کیا۔ ''تاریخ سن ہجری'' قائم کیا، جو آج تک جاری ہے۔
امیرالمؤمنین کا لقب اختیار کیا۔ فوجی دفتر ترتیب دیا۔ ''دفترمال'' قائم کیا، پیمائش جاری کی، مردم شماری کرائی، نہریں کھدوائیں، شہر آباد کروائے، مقبوضہ ممالک کو صوبوں میں تقسیم کیا۔ اصلاح کے لیے دُرّے کا استعمال کیا۔ راتوں کو گشت کرکے رعایا کا حال دریافت کرنے کا طریقہ نکالا۔ فوجی چھاؤنیاں قائم کیں۔ رضاکاروں کی تن خواہیں مقرر کیں۔ پرچہ نویس مقرر کیے۔ مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک مسافروں کے آرام کے لیے مکانات تعمیر کرائے۔ گم شدہ بچوں کی پرورش کے لیے روزینے مقرر کیے۔ مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کرائے۔ مکاتب و مدارس قائم کیے۔ معلمین کے مشاہرے مقرر کیے۔ مفلوک الحال عیسائیوں اور یہودیوں کے وظیفے بھی آپؓ نے ہی مقرر کیے۔ نماز تراویح باجماعت قائم کی۔ شراب کی حد کے لیے 80 کوڑے مقرر کیے۔ تجارت کے گھوڑوں پر زکوٰۃ مقرر کی۔ وقف کا طریقہ ایجاد کیا۔ مساجد کے اماموں اور مؤذنوں کی تن خواہیں مقرر کیں۔ مساجد میں راتوں کو روشنی کا انتظام کیا۔ آپؓ نے اس کے علاوہ بھی بہت سے فلاحی و اصلاحی کام کیے۔
علامہ شبلی نعمانیؒ سیدنا عمر فاروقؓ کی سوانح عمری ''الفاروقؓ'' میں رقم طراز ہیں : '' تمام دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسا حکم ران دکھا سکتے ہو؟ جس کی معاشرت یہ ہو کہ قمیض میں دس دس پیوند لگے ہوں، کاندھے پر مشک رکھ کر غریب عورتوں کے ہاں پانی بھر آتا ہو، فرش خاک پر سو جاتا ہو، بازاروں میں پھرتا ہو، جہاں جاتا ہو جریدہ و تنہا جاتا ہو، اونٹوں کے بدن پر اپنے ہاتھ سے تیل ملتا ہو، دور دربار، نقیب و چاؤش، حشم و خدم کے نام سے آشنا نہ ہو، اور پھر یہ رعب و ادب ہو کہ عرب و عجم اس کے نام سے لرزتے ہوں اور جس طرف رخ کرتا ہو زمین دہل جاتی ہو، سکندر و تیمور تیس تیس ہزار فوج رکاب میں لے کر نکلتے تھے جب ان کا رعب قائم ہوتا تھا، عمر فاروقؓ کے سفر شام میں سواری کے اونٹ کے سوا اور کچھ نہ تھا، چاروں طرف غُل پڑا تھا کہ مرکز عالم جنبش میں آگیا ہے۔''
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی شان و شوکت اور فتوحات اسلامی سے باطل قوتیں پریشان تھیں۔ 27 ذوالحجہ 23 ھجری کو آپؓ حسب معمول نماز فجر کے لیے مسجد میں تشریف لائے اور نماز شروع کی، ابھی تکبیر تحریمہ ہی کہی تھی کہ ایک شخص ''ابولولو فیروز مجوسی'' جو پہلے سے ہی ایک زہر آلود خنجر لیے مسجد کی محراب میں چھپا ہوا تھا، نے خنجر کے تین وار آپؓ کے پیٹ پر کیے، جس سے آپؓ کو گہرے زخم آئے اور آپؓ بے ہوش ہو کر گرگئے۔ اس دوران قاتل کو پکڑنے کی کوشش میں مزید صحابہ کرامؓ زخمی ہوئے اور قاتل نے پکڑے جانے کے خوف سے فوری خودکشی کرلی۔
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے زخم مندمل نہ ہوئے اور یکم محرم الحرام کو دس سال چھے ماہ اور دس دن تک 22 لاکھ مربع میل زمین پر نظام خلافت راشدہ ؓ کو قائم کرنے کے بعد آپؓ نے 63 برس کی عمر میں جام شہادت نوش فرمالیا۔ حضرت صہیبؓ نے آپؓ کا جنازہ پڑھایا اور روضہ نبویؐ میں خلیفۂ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے پہلو میں تدفین کی گئی۔