اقتصادی تعاون تنظیم کا استحکام ناگزیر کیوں

ریلوے نیٹ ورک کے ذریعے بندرگاہوں تک رسائی حاصل ہوگی


اکرام سہگل September 23, 2017

عالمی طاقتوں کی باہمی کشمکش اور جیوپالیٹکس کی بدلتی صورت حال نے اس خطے کے ممالک کو ایک فطری معاشی اتحاد میں جمع کردیا ہے۔ تجارتی میدان، بشمول اشیا، خدمات اور سرمایہ کاری کے شعبوںمیں باہمی تعاون خطے میں معاشی شمولیت اور تعمیرو ترقی کی نئی راہیں کھولے گا۔ امریکا اور برطانیہ کی ایما پر ریجنل کوآپریشن ڈویلپمنٹ کی بنیاد رکھی گئی جس میں ایران، پاکستان اور ترکی شامل ہوئے، یہ تعاون سینٹو معاہدے کے تحت قائم ہوا تھا، جو کہ خطے میں کمیونسٹ مخالف بغداد پیکٹ کی اقتصادی شاخ تھی۔ 1985ء میں اسے اقتصادی تعاون تنظیم(ایکو) میں بدل دیا گیا۔ 1992ء میں ایکو میں سات ممالک، افغانستان، آذربائیجان قزاقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہوئے۔

ایکو میں شامل ممالک کام یاب ترین علاقائی تعاون تنظیم،یورپی یونین سے دوگنا زیادہ رقبہ رکھتے ہیں۔ اقتصادی تعاون تنظیم میں شامل ممالک کا کل رقبہ 80لاکھ مربع کلومیٹر ہے، (2013ء کے اعداد و شمار کے مطابق) ان ممالک کی آبادی 440ملین نفوس پر مشتمل ہے، جو کہ دنیا کی آبادی کا 6.2 فی صد بنتا ہے۔ ان ممالک کی سرحدیں روس، چین، بحر ہند، خلیج فارس اور کیسپئین باسن سے ملحق ہیں۔ ایکو کی مجموعی تجارت 2015ء میں 688ارب ڈالر رہی جب کہ مجموعی جی ڈی پی 1963ارب ڈالر تھا۔ ان کا فی کس جی ڈی پی 4303امریکی ڈالر بنتا ہے۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 2015ء میں 37.7ارب ڈالر رہی۔ چین اپنے ''ون بیلٹ، ون روڈ'' منصوبے کے بعد ایکو میں شامل ممالک کی معاشی سرگرمیوں میں اپنا مزید حصہ ملائے گا۔ سی پیک کے تحت صرف پاکستان میں چین نے 46ارب ڈالر کا معاہدہ کیا اور آیندہ تین چار برس میں یہ سرمایہ کاری مزید بڑھے گی۔

یورپی یونین کے نقش قدم پرچلتے ہوئے علاقائی سطح پر معیشت کے فروغ، تکنیکی اور ثقافتی روابط میں اضافے اور پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے زراعت، تجارت، نجکاری، خام مال، وسائل، ماحولیات، اور ثقافت کے شعبوں میں باہمی تعاون کا فروغ ایکو کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔ 2006ء سے نافذ العمل ٹرانزٹ ٹرانسپورٹ فریم ورک معاہدے کے اہداف حاصل کرنے کے لیے 1) اشیاء اور مسافروں کو نقل و حرکت میں سہولیات اور تحفظ کی فراہمی2) ٹرانزٹ ٹریفک میں ہونے والی غیر ضروری تاخیر کا خاتمہ3) ٹیکس چوری اور کسٹمز میں دھوکا دہی جیسے واقعات کی روک تھام کے لیے باہمی تعاون اور روابط میں اضافہ4) ٹرانزٹ سے متعلق انتظامی امور میں مطلوبہ ہم آہنگی و دیگر اقدامات ضروری ہیں۔

اقتصادی تعاون تنظیم کے رکن ممالک میں اس وقت 55ہزار کلومیٹر طویل ریلوے نیٹ ورک موجود ہے۔ اس میں ترکی، ایران اور پاکستان کا ٹرین نیٹ ورک ان ممالک کے سہ فریقی کنیکٹیویٹی نیٹ ورکس کا حصہ ہے، جس میں ریل، زمینی، فضائی راستے اور فائبر آپٹکس کے ذرایع بھی شامل ہیں۔ تہران کے ذریعے اسلام آباد سے استنبول کے (6566کلومیٹر طویل) سفر میں 14سے 16دن کا وقت لگتا ہے، اس کے مقابلے میں کراچی سے ترکی تک بندرگاہوں کے درمیان سفر میں 40سے 45دن لگتے ہیں۔ ایک معاہدے پر اتفاق ہوچکا ہے جس کے بعد تیز ترین ٹرین کے ذریعے اس مسافت کو 15سے دس دن تک کم کیا جاسکتا ہے۔

اس کا دوسرا حصہ ترکی، ایران، ترکمانستان، ازبکستان، قزاقستان کے مابین ریلوے نیٹ ورک ہے، جو خلیج فارس، خیلج عمان، ایشائی ممالک، چین، روس، ترکی اور یورپ کے لیے یکساں کارآمد ہوگا۔ ماضی میں یہ راستہ قزاقستان سے ترکمانستان اور ازبکستان سے ہوتا ہوا ایران تک 600کلو میٹر بنتا تھا۔ جو مزید مختصر ہوجائے گا اور مسافت میں دو دن کم ہوجائیں گے۔ قزاقستان، ترکمانستان اور ایران کا ریلوے کے ذریعے منسلک ہونا اس منصوبے میں شامل تمام فریقوں کے لیے تزویراتی اعتبار سے انتہائی موزوں ہے، کیونکہ اس کے نتیجے میں وسطی ایشیا براستہ ایران خلیج فارس سے منسلک ہوجائے گا اور ریلوے نیٹ ورک کے ذریعے بندرگاہوں تک رسائی حاصل ہوگی۔ ریلوے کا یہ نیٹ ورک (براہ راست راستے سے) خلیج فارس کی بندرگاہوں کے ذریعے یورپی ممالک تک رسائی دے گا۔

علاقائی اور خطے سے باہر تجارتی سرگرمیوں کے پھیلاؤ کے لیے ایکو ممالک میں زمینی راہداریوں کے منصوبوں پر کام کرنا بھی ناگزیر ہوچکا ہے۔ اس میں مجوزہ طور پر -1)ترکی،ایران،پاکستان-2)(ترکی،ایران، افغانستان، تاجکستان،کرغزستان-3)(ترکی، ایران، ترکمانستان، ازبکستان، قزاقستان، کرغزستان-4)( آذربائیجان، ایران( -5)قزاقستان، ترکمانستان، ایران6)( قزاقستان، کرغستان، ازبکستان، ترکمانستان، ایران-7) (قزاقستان، کرغزستان، تاجکستان، افغانستان، پاکستان اور( -8)کرغزستان، تاجکستان، افغانستان، ایران (کے راستوں پر راہداریوں کی تعمیر ضروری ہے۔

خطے میں معاشی ضروریات کے لیے معاون ماحول کی ٹھوس بنیادیں موجود ہیں، یہ ممالک مشترکہ ثقافتی ورثہ رکھتے ہیں، جغرافیائی قربت کے ساتھ ساتھ ان ممالک کے مابین کوئی غیر معمولی تنازعہ نہیں اور نہ ہی اس خطے کے ممالک میں بالادستی کے لیے کوئی مقابلہ ہے۔ رکن ممالک کے خارجہ تعلقات سازگار ہیں، جو عالمی مارکیٹ میں معاشی شمولیت کو لازم قرار دینے کے لیے کافی ہیں۔اس خطے میں تیل، قدرتی گیس اور معدنی وسائی کے سب سے زیادہ ذخائر موجود ہیں۔ علاوہ ازیں اس کا جغرافیائی محل وقوع یورپ اور افریقا سے جاملنے والے مختصرترین تجارتی راستے پر ہے۔ اس لیے یہ خطہ رسل و رسائل اور نقل و حمل کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے موزوں ترین ہے۔ گراں قدر توانائی کے ذرایع کی کثرت کے باعث ممکنہ طور پر ایکو ممالک دنیا کے معاشی ترقی کا انجن کہلائے جاسکتے ہیں۔

تجارت کے فروغ کے لیے انتہائی اہم اقدامات کرنا ہوں گے۔ غیر حل شدہ معاشی، سماجی اور سیاسی مسائل معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تو ثابت ہوتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ خطے کی معاشی قوت کے حقیقی ادراک سے غافل کرنے کا بھی باعث بنتے ہیں۔ ایکو کے ارکان کو ایسے تمام مسائل لازماً حل کرلینے چاہیں تاکہ یہ علاقائی تنظیم وہ اثر پیدا کرنے میں کام یاب ہوجائے جس کی توقع سارک سے کی جاتی تھی اور وہ اس میں افسوسناک حد تک ناکام رہی۔ ایکو کو یورپی یونین اور آسیان جیسے دیگر علاقائی بلاکس کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے چاہیں، اس کی مدد سے معلومات کے حصول اوران کے تجربات سے سیکھنے کے مواقع بھی ملیں گے۔ روابط کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ایکو کے اجلاس کا انعقاد پانچ سال کے بجائے سالانہ یا دو سال میں ایک مرتبہ ہونا چاہیے۔

فوج کشی سے اپنے وقت کی معلوم دنیا فتح کرنے والا سکندر اعظم، جو ارسطو کا شاگرد تھا اور اس کا استاد دو عظیم یونانی فلسفیوں سقراط اور افلاطون کا تلامذہ میں سے تھا، دراصل پہلی ''اقوام متحدہ'' کی بنیادیں استوار کررہا تھا۔ سکندر کی فوج 325قبل مسیح تک قدیم تجارتی راستوں پر پاپیادہ اور گھوڑوں پر سوار مشرق کی جانب یورپ سے وسطی ایشیا کا سفر طے کرچکی تھی۔ سکندر خواب و خیال میں بھی سوچ نہیں سکتا تھا کہ جن سلطنتوں کو وہ اپنے قدموں تلے روندتا ہوئے گزر گیا وہ ایکو کی شکل میں ایک جگہ جمع ہوں گی۔ پچیس صدیوں بعد یہ منفرد جغرافیائی محل وقوع، نقل و حرکت کے موزوں ترین راستے اور جدید ٹیکنالوجی، دوقریبی دوستوں پاکستان اور ترکی کے سمندروں کے باعث انتہائی اہم کناروں، سڑک اور ریل نظام کی وجہ سے ایکو اقتصادی طور پر انتہائی ہمہ جہت اور مضبوط اکائی بننے کے قوی ترین امکانات رکھتی ہے۔

(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں