اب کے ہم بچھڑے تو شاید آخری حصہ
’’چلو ٹھیک ہے آج ہم بھی آپ کے اور اشفاق کے ساتھ دودھ پتی کی چائے پئیں گے۔‘‘
احمد فرازؔ سے میری چند سرسری سی ملاقاتیں ہوئی تھیں اور وہ بھی مشاعروں کے دوران۔ میں ان دنوں ان کا ایک ادنیٰ سا پرستار تھا۔ میری خواہش تھی کہ کبھی ان سے کوئی ایسی ملاقات ہو جسے میں اپنی یادوں میں محفوظ رکھ سکوں، مگر مجھے ایسا کوئی موقعہ میسر نہ آسکا تھا۔ پھر وقت بدلا اور میں نے بھی کراچی کی فلموں میں گیت لکھنے شروع کیے اور پھر چند فلموں کے بعد میں کراچی چھوڑ کر لاہور چلا گیا اور وہاں پہلے فلمی صحافت کو بنیاد بنایا اور پھر چند سال میں بحیثیت نغمہ نگار اور مصنف فلم انڈسٹری سے بھی وابستہ ہو گیا۔ فلمی مصروفیات بڑھتی چلی گئیں اور میں اس طرح ادبی محفلوں اور مشاعروں سے بھی دور ہوتا چلا گیا۔
اور میں نے لاہورکی فلمی دنیا میں کم و بیش بارہ سال گزارے اور بیس بائیس فلمیں لکھیں،کہانی، مکالموں کے علاوہ زیادہ تر فلموں کے لیے گیت لکھے۔ پھر یوں ہوا کہ لاہورکی فلم انڈسٹری کو زوال آگیا اور لاہور کے فلم اسٹوڈیوز کی بہاریں خزاں رسید ہوتی چلی گئیں۔ تسلیم فاضلی بھی لاہور چھوڑ کر کراچی چلے گئے اور میں نے بھی لاہور کو خیرباد کہہ دیا۔ کراچی آ کر میں نے بحیثیت کمرشل پروڈیوسر، رائٹر اور براڈ کاسٹر کئی پروگرام شروع کیے جن میں ستاروں کے گیت، ایک گھر کی کہانی اور عدالت جیسے مشہور پروگرامز کئی سال تک ریڈیو سے پیش کرتا رہا اور ساتھ ہی کراچی کی ایڈورٹائزنگ کمپنیوں سے بھی بحیثیت اسکرپٹ رائٹر اور جنگل رائٹر وابستہ ہو گیا۔
اس پس منظرکو بیان کرنے کی وجہ میری احمد فرازؔ سے ایک بھرپور، دلچسپ اور یادگار ملاقات ہے۔ میرا ایک دیرینہ دوست سید اشفاق احمد، جو ان دنوں کاغذ کے بزنس سے تعلق رکھتے تھے اور وہ احمد فرازؔ کے بھی بے تکلف دوست اور ان کی گڈ بک میں تھے۔ ان دنوں احمد فراز نیشنل بک فاؤنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر تھے اور اپنے ادارے کے لیے کاغذ کی امپورٹ کی غرض سے اکثر ملائیشیا، انڈونیشیا اور سڈنی جایا کرتے تھے اور اشفاق احمد اکثر ان کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔ احمد فراز نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر نوٹ بکس کی فروخت کے لیے ایک میگا پلان بنایا تھا اور این جی ایف کے لوگو کے ساتھ انھوں نے ملائیشیا سے Bulk میں نوٹ بکس پرنٹ کرائے اور پاکستان میں ہر جگہ پھیلانے کا ایک وسیع پروگرام مرتب کیا اور ان کی فروخت کو بڑھانے کے لیے ایک اشتہاری فلم بنانے کا بھی پلان کیا۔ اس پلان کا تذکرہ فرازؔ نے اشفاق احمد سے بھی کیا۔
اشفاق احمد نے احمد فرازؔ سے میرا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ یونس ہمدم میرے دیرینہ دوست ہیں، فلمی نغمہ نگار بھی ہیں اور آج کل کراچی میں بحیثیت کمرشل اسکرپٹ رائٹر اور جنگل رائٹر (کمرشل سانگ) کام کر رہے ہیں، پھر اشفاق احمد نے فرازؔ کو حوالے کے طور پر میرے چند جنگلز بتائے۔ فرازؔ صاحب نے جب یہ جنگلز سنے تو کہنے لگے ارے بھئی! آپ یونس ہمدم کو جلد ہی ہمارے دفتر لے کر آئیں اور پھر میری ایک یادگار ملاقات لیاقت نیشنل لائبریری کی عمارت میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کے دفتر میں ہوئی تھی اور پھر اس ملاقات میں انھوں نے مجھے بریف کیا کہ وہ ایک 30 سیکنڈ کی کمرشل فلم بناکر سارے ملک میں ٹی وی پر چلانا چاہتے ہیں اور یہ فلم کمرشل سانگ کے ساتھ ہوگی تو مارکیٹنگ پر اچھا اثر ڈالے گی۔
اس بریفنگ کے بعد بولے ''کیا پیو گے۔ کیا چلے گا۔''
میں نے کہا ''صرف چائے۔''
وہ کہنے لگے ''چلو ٹھیک ہے آج ہم بھی آپ کے اور اشفاق کے ساتھ دودھ پتی کی چائے پئیں گے۔''
میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ''آپ اور چائے''
انھوں نے بھی ہنستے ہوئے کہا ''ہاں بھئی! ڈھلتی عمر میں کبھی کبھی دودھ پتی کی چائے بھی بڑا لطف دیتی ہے۔''
ان کے اس بے ساختہ جملے پر کمرے میں ہلکے ہلکے قہقہے بکھر گئے تھے۔ چائے پینے کے دوران ہی میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا پھر میں نے وہ آئیڈیا کاغذ پر لکھا۔ پھر اسی دوران اسے فائنل کرکے فراز صاحب کو سنایا۔فراز صاحب نے جب یہ جنگل سنا تو کہنے لگے اس کی کیا طرز ہونی چاہیے پھر میں نے ترنم سے دوبارہ جنگل سنانے کے بعد کہا اب میوزک ڈائریکٹر اس آئیڈیے کو اور خوبصورت کردے گا۔
فراز نے اسی وقت اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا یہ الفاظ بالکل پروڈکٹ پر اپنا اثر رکھتے ہیں اب اس جگل میں کسی اور لفظ کی گنجائش نہیں اس جگل کے ساتھ ادارے کا نام اور بس 30 سیکنڈ کی فلم تیار ہوسکتی ہے۔ میرے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات تھی کہ میں احمد فراز کے معیار پر پورا اترا اور انھوں نے میرے کمرشل گیت کو دل کھول کر سراہا پھر وہ جگل گلوکارہ مہ ناز کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا اور اس کی ایک خوبصورت اشتہاری فلم بنی جو ٹیلی ویژن پر چلائی گئی تھی۔ یہ تھی احمد فراز کے ساتھ ایک قیمتی ملاقات جو میری یادوں میں ہمیشہ محفوظ رہے گی۔
احمد فراز نے نیشنل بک فاؤنڈیشن کو بڑی لگن، محنت اور دیانت کے ساتھ عروج تک پہنچایا تھا۔ جب تک احمد فراز نیشنل بک فاؤنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر رہے یہ ادارہ خوب ترقی کرتا رہا اور مالی طور پر بھی اس کی ساکھ بنی رہی تھی۔
اب میں گزشتہ پندرہ سال سے امریکا کی ریاست نیوجرسی میں رہتا ہوں، دس سال تک خود کو گمنام رکھا۔ پھر اس کے بعد آہستہ آہستہ لائم لائٹ میں آیا۔ اسی دوران مجھے پتہ چلا کہ احمد فراز ایک مشاعرے میں شرکت کرنے کی غرض سے کینیڈا آئے تھے تو وہاں گر پڑے اور ان کے گھٹنوں میں شدید چوٹیں آئیں وہ مشاعرے میں شرکت نہ کرسکے پھر کینیڈا سے شکاگو چلے گئے وہاں بھی ایک جگہ گر پڑے اور ان کے سر پر چوٹ آئی اس دوران اتنے بیمار ہوئے کہ انھیں اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ ان کے بیٹے فراز شبلی ان کی تیمار داری میں مصروف تھے۔
احمد فراز نے اپنے بیٹے سے کہا ''بس اب مجھے یہاں سے پاکستان لے چلو۔ مجھے میرے وطن کی مٹی آواز دے رہی ہے۔ مجھے میرے وطن کی فضائیں بلا رہی ہیں۔''
فراز کی حالت روز بروز بگڑتی جا رہی تھی اور پھر اسی حالت میں انھیں شکاگو سے اسلام آباد لایا گیا۔ مقامی اسپتال میں داخل کرایا گیا مگر ان کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا اور پھر دبستان ادب کا یہ پھول 25 اگست 2008ء کو مرجھا گیا۔ موت زندگی پر غالب آگئی۔ دنیائے شاعری کا ایک سورج غروب ہوگیا تھا اور احمد فراز ہی کی ایک غزل کا مطلع فضاؤں میں گونج رہا تھا۔
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں