استقبالِ محرم کا فلسفہ

ہمیں قرآن نے بار بار یہ توجہ دلائی کہ خوب غور کیا کرو جو کچھ پڑھو


Syed Mohsin Kazmi September 23, 2017
[email protected]

ہر سال ماہ ذوالحجہ میں مسلمان حج کے لیے جاتے ہیں، یہ وہ عبادت ہے جس میں اللہ اپنے بندوں کے تمام زندگی کے گناہ کو معاف کردیتا ہے گویا ابھی ابھی ماں کے شکم سے پیدا ہوا ہو۔اس حج میں خانہ کعبہ کا طواف بھی ہے حجراسود کا بوسہ بھی۔ صفا اور مروہ کی سعی بھی ہے اور عرفات، منیٰ اور مزدلفہ میں قیام الیل بھی ہے۔شیطان کوکنکریاں یعنی رجیم بھی کیا جاتا ہے۔اس سارے عمل کو انجام دینا ہی عبادت ہے۔

عبادت وہی ہے جو صرف اورصرف اللہ تعالیٰ کے لیے کی جائے۔اسی میں سب سے اہم کام یہ بھی ہے کہ جانورکی قربانی دی جائے۔یہ عمل حج کا رکن ہے یہ سارے حاجیوں کو انجام دینا ہوتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے یہ سارے مسلمانوں پر واجب کردیا یعنی عید الاضحی میں دس ذوالحجہ کو پوری دنیا کے مسلمان جانورکی قربانی دیتے ہیں، اگر ہم ذرا غورکریں تو حج کے اعمال میں طواف کرنا جو سنت انبیاء ہے پھر حجر اسود کو بوسہ دینا یہ بھی سنت انبیاء ہے۔ صفا اور مروہ میں سعی کرنا یعنی دوڑ لگانا یہ سنّت انبیاء نہیں بلکہ مادر نبی بی بی حاجرہ کی سنت ہے۔

جو اپنے بچے اسماعیل ؑ شیر خوارکو خانہ کعبہ کے پاس لٹا کر صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا کے طرف دوڑتی تھیں تاکہ کہیں پانی نظر آجائے اور اللہ نے اس نبی جو اسماعیل ؑ تھے شیر خوار تھے بے تابیٔ پیاس کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رہے تھے اللہ نے اسی ایڑی کے نیچے سے پانی جاری کیا جو مسلسل بہہ رہا تھا یہاں تک کے بی بی حاجرہ نے اس پانی کو کہا 'زم، زم' یعنی اے بہتے ہوئے پانی رک جا۔وہ تھم گیا۔ زم زم کے معنی ہیں تھم تھم۔آج تک وہ پانی جاری ہے اور زم زم کے نام سے ہے۔ ان عبادت کا فلسفہ یہ ہے کے جب اللہ تعالیٰ کو کسی کا عمل پسند آجائے اور اس کا تعلق معصوم سے ہو تو اس کو یادگار بنا دیتا ہے اوراس کو عبادت کا درجہ دیتا ہے اس حج میں سارا عمل بی بی حاجرہ، حضرت اسماعیلؑ اور حضرت ابراہیم ؑکا ہے۔

جب حضرت ابراہیم ؑنے خواب دیکھا کہ وہ اپنے کمسن لخت جگر اسماعیلؑ کو ذبح کر رہے ہیں تو یہ خواب انھوںنے اسماعیل ؑ کو بیان کیا تو اسماعیلؑ جو خود بھی نبی تھے کہا بابا آپ اللہ کے اس حکم کی تعمیل کریں اور مجھے آپ صابرین میں پائیں گے ابراہیمؑ، اسماعیلؑ کو لے کر منیٰ کی طرف جا رہے تھے تو شیطان نے حضرت ابراہیم ؑ کو ورغلانا شروع کیا کہ آپ ایک خواب کو حکم الٰہی سمجھ رہے ہیں تو حضرت ابراہیم ؑ نے اسے کنکر مارا وہ چلا گیا پھر وہ حضرت اسماعیل ؑ کو ورغلانے لگا کہ تمہیںذبح کرنے جارہے ہیں، اسماعیل ؑنے بھی اس شیطان کو پتھر مار کر بھگا دیا۔ پھر وہ بی بی حاجرہ کے پاس آیا کہا تم کیسی ماں ہو ابراہیم ؑاسماعیل کو ذبح کرنے جا رہے ہیں تو بی بی حاجرہ نے سوچا ابراہیم ؑ تو نبی اللہ اور رسول اللہ ہیں ان کا ہر عمل عین حکم الٰہی ہوگا یہ شیطان ہے جو مجھے ورغلانے آیا ہے اس لیے انھوں نے بھی اسے کنکرمارکر بھگا دیا آج جب حاجی ارکان حج ادا کرتا ہے تو اسے تین شیطانوں کو کنکریاں مارنی ہوتی ہیں۔

بڑا،چھوٹا اور درمیانہ۔یہ بھی حج کا فریضہ ہے۔حالانکہ وہاں شیطان نہیں ہے بلکہ ابلیس سے منصوب تین مینار ہیںحجاج اس پر کنکریاں مارتے ہیں۔اس طرح حج کے ارکان پر غور کریں تو سمجھ میں آجاتا ہے کے اللہ نے خود یہ اصول دیا اگر اصل یعنی شیطان نہ ہو تو اس کی نشانی بناسکتے ہو۔اسی طرح حجر اسود کو بوسہ دینا اطاعت خدا کا عمل ہے یعنی اللہ جسکی عزت اور توقیروعظمت عطا کرے اس کو منانا لازم ہے چاہے وہ پتھر ہی کیوں نہ ہو۔صفا اور مروہ پر دوڑنا بی بی حاجرہ کے عمل کی تائید ہے جو نبی نہ تھیں، مگر مادر معصوم تھیں اس پر عمل کرنا بھی ان کی عظمت اور توقیر کو دل سے ماننا ہے۔

اسی طرح جب ابراہیم ؑ نے جب اپنے لخت جگر اسماعیلؑ کو ذبح کرنے کے لیے منیٰ کے میدان میں لٹایا اور اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر چھری گردن پر پھیری جس کا ہلکا سا نشان بھی گردن پر آگیا مگر جب ذبح کر کے اپنی پٹی کھولی تو دیکھا اسماعیلؑ کی جگہ دنبہ ذبح پڑا ہے اور اسماعیل ؑ ایک طرف صحیح و سلامت کھڑے ہیں توحضرت ابراہیم ؑنے اللہ سے گڑگڑا کر مناجات کی پروردگار تو نے میری قربانی کو کیوں قبول نہ کی تو ندا آئی ''ہم نے اس فدیے کو عظیم فدیے میں بدل دیا۔'' یعنی ابراہیم ؑ تم نے میرے حکم کی تعمیل میں کوئی کسر نہ چھوڑی مگر میں نے اپنے دین کی بقا کے لیے اس قربانی کو عظیم قربانی میں بدل دیا ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ سے کئی امتحانات لیے جس میں نارِ نمرود میں بیٹھ جانا اور حضرت اسماعیل ؑ کو صرف خواب کے نتیجہ میں ذبح کرنا اور جب حضرت ابراہیم ؑ نے سارے امتحان میں مکمل کامیابی حاصل کرلی تو حکم ہوا ـ 'انی جاعلک للناس اماماً' ہم نے تمہیں لوگوں کا امام مقرر کردیا۔

اللہ نے جب ابراہیم ؑ کو نبی بنایا رسول بنایا تو کوئی امتحان نہیں لیا مگر جب امام بنایا تو امتحان لیا کیونکہ نبی مادر شکم میں بھی نبی ہوتا ہے۔جیسا کہ عیسیٰ ؑ ابن مریم گہوارے میں اپنی گواہی خود دے رہے تھے میں اللہ کا بندہ ہوں مجھے اللہ نے نبی قرار دیا اور مجھے کتاب عطا کی اس لیے نبی معصوم بھی ہوتا ہے اور علم لدنی لے کرآتا ہے دنیا میں آکر نہیں پڑھتا۔نبی کا پاک ہونا نبی کا معصوم ہونا نبی کا علم ہونا قرآن سے ثابت ہے۔چونکہ شکم مادر میں بھی نبی ہوتا ہے یعنی پاک ہوتا ہے تو لازمی ہے وہ شکم بھی پاک ہو۔اسی لیے کسی نبی کے ماں اور باپ کافر یا مشرک نہیں ہوتے کیونکہ کافر اور مشرک نجس ہوتا ہے اللہ اپنے پاک و پاکیزہ نبی کو نجس شکم میں نہیں رکھتا۔اسی لیے حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا ہم پاک صلبوں سے پاک رحموں کی طرف سفر کرتے رہے۔

تو حضرت ابراہیم ؑ کو امامت ملی تو اپنے کہا مِن ذریتی مطلب تھا کیا یہ امامت میری اولاد کو بھی ملے گی تو اللہ نے فرمایا ان میں جو ظالم ہوں گے انکو نہیں ملے گی۔اور یہ اصول قرار پایا جو ظالم ہوگا وہ اللہ کا بنایا ہوا حاکم نہ ہوگا اور سب سے بڑا ظلم شرک ہے۔جس نے ایک لمحے کے لیے بھی شرک کیا وہ امامت و خلافت کے استحقاق سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگیا۔ہمیں قرآن نے بار بار یہ توجہ دلائی کہ خوب غور کیا کرو جو کچھ پڑھو۔یہ قرآن وہ ہے جس میں ہر خشک و تر ہے۔اسمیں قصص ہوں یا امثال یہ سب دین کے اصولوں کو سمجھانے کے لیے ہیں اور جتنی حدیثیں حضور اکرم محمد مصطفیٰﷺ نے بیان کی وہ سب اس قرآن کی روشنی میں ہیں کوئی حدیث اللہ کے کلام کے مخالف نہیں ہے۔

یہ مشہور حدیث ہے حسین منی وانامن الحسین۔حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اس میں غور کریں تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ کوئی نانا یہ کہے کہ یہ میرا نواسہ مجھ سے ہے کیونکہ میرے وجود سے بیٹی کا وجود اور بیٹی کے وجود سے میرے نواسہ کا وجود مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ آپ ؐنے فرمایا 'اور میںاس سے ہوں'۔یہی وہ حکیمانہ بات ہے جس کو سمجھنا ضروری ہے۔ رسول خدا ﷺ ہوں یا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ ہوں، فاطمہ زہرا ہوں یا حسن مجتبیٰؓ ہوں یا حسین بن علی مرتضیٰؓ ہوں یہ سب حضرت ابراہیم ؑکے صلب سے اسماعیلؑ کے صلب میں منتقل ہوئے تھے۔اگر اسماعیلؑ ذبح ہوجاتے تو یہ سلسلہ صلب اظہار رک جاتا۔اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے کہا حسین منی و انا من الحسین اور اس حدیث مبارکہ کا یہ بھی مطلب ہے جو کچھ میری سیرت طیبہ تھی حسین(رضی تعالی عنہ) بھی اس سیرت طیبہ کا عملی نمونہ ہے اور جب میں نہ ہوں تو حسین ابن علی کا ہر عمل میری سیرت کا عمل قرار پائے گا۔ اسی وجہ سے امام حسین، ابن علیؓ کی اطاعت ہم پر واجب ہے۔

اطیعواللہ، اطیعوالرسول ﷺ کے اولوالامر کا حکم ہے قرآن حکیم میں اللہ کی اطاعت اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کے بعد ان کی اطاعت کرو جنہیں اولوالامر قرار دیا۔ہر امام اولوالامر ہے ہر زمانے میں ایک امام ضرور رہا ہے۔ا س لیے قرآن میں یہ حکم ہے 'ہم ایک دن سب کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔'' اُمت اور امام کا چولی اور دامن کا ساتھ ہے بس خیال یہ رکھنا حقیقی امام وہ ہے جسے ا للہ تعالیٰ نے خود منتخب کیا ہو۔کیونکہ اس کا منتخب کیا ہوا معصوم بھی ہوگا، علم لدنی والا بھی ہوگا، جنت کا مالک بھی ہوگا۔ اسی بنیاد پر دنیا بھر کے مسلمان واقعہ کربلا کی یاد مناتے ہیں۔ جس طرح اسماعیلؑ ذبح ہونے سے بچ گئے توخوشی منائی جاتی ہے اسی طرح رسول خد ا ﷺ کے نواسہ حسین ابن علیؓ ذبح ہوگئے تو غم منایا جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں