چپکے سے بہار آگئی تھر کا نیا روپ

تھر کے ریتیلے ٹیلوں، بازاروں اور چوراہوں پر تھری ثقافتی گیتوں کی گونج سنائی دی رہی تھی۔


مزمل فیروزی September 26, 2017
نہروں سے پانی کا تیز بہاؤ ننگرپارکر میں زیر زمین پانی کی سطح کو اوپر لے آیا ہے جس سے دیہاتوں میں لوگوں نے کھیتی باڑی شروع کردی ہے۔ فوٹو: فائل

KARACHI: پاکستان بننے کے بعد کئی سال تک تھر میں بسنے والے بنیادی سہولیات سے محروم رہے مگر آج یہاں باقاعدہ سڑکیں بن چکی ہیں جو تھر کے اکثر بڑے قصبوں کو آپس میں ملاتی ہیں۔ تھر کی ریت پر سڑکیں بنانے اور ننگر پارکر کے پہاڑوں کے مشکل راستوں کو سہل بنانے میں سندھ کے سابق وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم کا اہم کردار ہے۔

تیسری بار تھر یاترا کیلئے نکلا تو ہر طرف پھیلی ہریالی اور سبزہ دیکھ کر دل شاد ہوگیا۔ سارا سفر ہی سبحان اللہ کہتے گزرا، کیونکہ ہمارے ذہن میں جو تصور تھا اس کے مطابق اڑتی ہوئی دھول مٹی، گرم ہوا کے تھپیڑوں، ریت کے اونچے نیچے بنتے بگڑتے ٹیلوں اور مٹی کے بگولوں کے بغیر ریگستانوں اور صحراﺅں کی منظرکشی نامکمل ہے۔



کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد ہم جب 'کنٹینر سٹی' پر اترے تو شہر کے کسی ریسٹ ہاﺅس کا گمان گزرا۔ مغربی ملبوسات میں ملبوس خواتین کو ادھر سے اُدھر جاتا دیکھ کر کسی طور بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ ہم تھر پہنچ چکے ہیں۔ رات کنٹینر سٹی میں گزارنے کے بعد صبح کی خاموشی کو توڑتی ہوئی تھری چاند بیلوں کے گلوں میں پڑی گھنٹیوں کی جلترنگ نے ایک زبردست سکون پرور احساس کے ساتھ نئے دن میں خوش آمدید کہا۔



ناشتے کے بعد باہر نکلنے پر صحرا میں نگاہیں جہاں دیکھتی ہیں وہاں ہریالی ہی ہریالی کا دلفریب نظارہ انسان کو شاد کردیتا۔ یہ نیا روپ نہ صرف اہلِ دل کو بلکہ ایک عام انسان کو بھی اپنے دلفریب نظاروں سے متاثر کئے بغیر نہیں چھوڑتا اور ایک نئی دنیا میں لے جاتا گویا جیسے رحمتوں اور ہریالی کی حسین وادی ہو۔



اسی خوبصورتی کا نظارہ کرنے کےلیے صوبہ سندھ کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد تھر کا رخ کررہے ہیں۔ میری ذاتی رائے تو یہ ہے کہ تھر ایک بھرپور تفریح گاہ ہے اور لوگوں کو یہاں ضرور گھومنے آنا چاہیے۔ الحمدللہ اس بار کنٹینر سٹی کو اس طرح آباد دیکھ کر اور تھر گھومنے پھرنے کےلیے آنے والے افراد کا ہجوم دیکھ کر جی خوش ہی ہوگیا۔

تھر کے لوگوں کوپانی کی قلت کی وجہ سے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر خوش آئند بات تو یہ ہے کہ تھر کی اِس بار کی موسلا دھار بارشوں نے 5 سال سے جاری غذائی قلت اور قحط کے اثرات ختم کردیئے ہیں۔ بارشوں کے سلسلوں کے بعد اِس علاقے کی خشک و پیاسی زمین ہریالی کا چوغا اوڑھے دکھائی دیتی ہے۔

اِس بار ابرِ رحمت کُھل کر برسنے کی وجہ سے مرجھائے ہوئے تھر باسیوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے ہیں۔ گھنگھور گھٹائیں چھائیں اور جم کر برسیں، جس کے بعد خشک تالاب بارش کے پانی سے بھر گئے ہیں۔ ننگرپارکر کے تاریخی پہاڑ کارونجھر سے زور و شور سے نہریں بہنا شروع ہوگئیں جو ایک حسین منظر پیش کر رہی ہیں۔



یہاں جو رنگینی اور دلکشی برسات نے پیدا کردی ہے وہ آپ کو دنیا کے کسی اور خطے میں نہیں ملے گی۔ اِس بار جس طرح تھر میں زندگی مسکرا اٹھی، وہ ہم نے پہلے تھر کے بارے میں تصور بھی نہیں کی تھی۔ تھر کے سینکڑوں دیہاتوں میں بارش نے نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے، جس سے کھیتوں کے تالاب اور چھوٹے بڑے گڑھے پانی سے بھرگئے۔ نہروں سے پانی کا تیز بہاؤ ننگرپارکر میں زیر زمین پانی کی سطح کو اوپر لے آیا ہے جس سے دیہاتوں میں لوگوں نے کھیتی باڑی شروع کردی ہے۔ اس بارش سے تھری کسان اپنے کھیتوں میں گوار، باجرہ، تل، مونگ سمیت دیگر فصلوں کی بوائی کریں گے۔



تھر کے ریتیلے ٹیلوں، بازاروں اور چوراہوں پر تھری ثقافتی گیتوں کی گونج سنائی دی رہی تھی۔ نقل مکانی کرنے والے تھر باسی بھی مال مویشیوں کے ہمراہ واپس لوٹ آئے ہیں۔ دورانِ سفر کہیں آپ کو برستی بارش میں پر پھیلائے مور رقص کرتے ملیں گے توکبھی بیچ سڑک پر سانپ، نیولے اور دوسرے جانور بھی نظر آسکتے ہیں۔ پاکستان کے بیشتر علاقوں میں گدھ کو نایاب ہوئے کئی برس گزر گئے مگر صحرائے تھر ملک کا وہ واحد علاقہ ہے جہاں آج بھی گدھ باقی ہیں۔ ضلع تھرپارکر کے صدر مقام مٹھی کے اطراف کی فضا میں جابجا آپ کو سفید اور بھورے مصری گدھ نظر آتے ہیں جن کی نسل دنیا بھر میں خطرے سے دوچار ہے۔



تھر کے قصبوں میں موبائل فون سگنل نے اِس خطے کے لوگوں کو نہ صرف ایک دوسرے سے بلکہ باقی دنیا سے بھی جوڑ دیا ہے اور یہ تبدیلیاں کسی انقلاب سے کم نہیں۔ تھر میں بجلی کے تار اور کھمبوں کا آج بھی فقدان ہے، لیکن سولر انرجی کے استعمال کو خاصا فروغ حاصل ہوا ہے۔ اب تھر کے علاقے میں سفر کرتے ہوئے آپ کو سڑک کے کنارے مقامی افراد چھوٹے چھوٹے سولر پینل کندھے پر اٹھائے نظر آجاتے ہیں جو کچھ پیسوں کے عوض آپ کا موبائل فون چارج کر دیتے ہیں۔ جب کہ پینے کے صاف پانی اور صحت کے بنیادی مراکز سمیت صحت و تعلیم اور دیگر شعبوں میں بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

تھرپارکر کے ساتوں تعلقوں میں راجستھانی رنگ لئے ہندو کمیونٹی صدیوں سے آباد ہے جہاں ہزاروں برس قدیم جین مذہب کے تہذیبی آثار بھی آپ کے منتظر ہیں۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ آپ پورے ماحول میں ہندو مسلم آبادی میں کوئی تفریق نہیں کرسکتے۔ نہ خواتین کے لباس سے نہ گھروں سے، بس اگر جھونپڑی کا اوپری حصہ گول ہے تو مسلمان کا گھر ہے اور اگر اِس گولائی پر ایک نوکیلا حصہ موجود ہے تو یہ ہندو فیملی کا جھونپڑا ہے۔ خوش آئند بات تو یہ ہے کہ عام تاثر پایا جاتا ہے جس علاقے میں غربت ہو وہاں جرائم کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے مگر حیران کن طور پر تھرپارکر میں جرائم کی شرح صفر ہے۔

تھر کول پروجیکٹ کی وجہ سے یہاں کئی ترقیاتی کام ہوئے ہیں۔ ہوٹل اور بڑے ڈھابے اچھی خاصی تعداد میں کُھل گئے ہیں۔ تھر کول منصوبے کےلیے ایک ہزار سے زائد خواتین نے بطور ڈمپر ڈرائیور ملازمت کےلیے درخواست جمع کرائی جن میں سے 16 لڑکیوں کو ملازمت پر رکھ لیا گیا۔ ابھی وزیراعلیٰ سندھ کے حالیہ دورے میں تھرکول پراجیکٹ کے جائزے کےلیے جس ڈمپر پر سائیں سرکار نے دورہ کیا وہ ڈمپر بھی ایک خاتون ڈرائیور ہی چلا رہی تھیں۔

سندھ ایگرو کی جانب سے تھر کے دو گاﺅں میں فری وائی فائی کی سروس بھی دی گئی ہے، جس سے وہاں کے لوگ بہ آسانی دنیا سے رابطے میں ہیں۔ خاص تھری سوغات کلفے کا ساگ اور تازہ مشروم ہیں۔ جگہ جگہ بچے مشروم بیچتے نظر آئے۔ سندھ حکومت کو زراعت بڑھانے کی جانب توجہ دینا چاہیے جس سے یقیناً مقامی آبادی کےلیے روزگار کے موقع بڑھیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔