اقبال حیدری
اقبال حیدری شاعروں کے اس قبیلے میں ہرگز شامل نہیں ہیں جو شاعر سے زیادہ کلاکار ہوتے ہیں
23 فروری کی تاریخ ہمارے قلب و ذہن پر ہمیشہ نقش رہے گی، سن 2000 کی یہ وہ ناقابل فراموش تاریخ ہے جب ہمارے انتہائی عزیز و محترم دوست اقبال حیدری ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے تھے، آج یہ کالم انہی کی نذر ہے بقول شاعر:
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
اقبال حیدری نے اجیّن کے ایک عالمی و ادبی خانوادے میں 1929 میں آنکھ کھولی۔ ان کا مولد اور ابتدائی وطن ''سی پی'' جو اب مدھیہ پردیش کے نام سے جانا جاتا ہے، تعلیمی اعتبار سے ہندوستان کا ممتاز صوبہ مانا جاتا ہے۔ پاکستان ہجرت کے بعد ان کی زندگی کے بہترین ماہ و سال شہر قائد اور عروس البلاد کراچی میں گزرے اور بالآخر وہ یہیں آسودہ خاک ہوئے۔اقبال حیدری ہمہ صفت اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ انگریزی اور اردو پر مکمل عبور ہونے کے علاوہ فارسی سے بھی انھیں بڑا گہرا شغف تھا جس کا جیتا جاگتا ثبوت جواں مرگ ایرانی شاعرہ فروغ فرخ زاد کی شاعری کے رواں منظوم تراجم پر مبنی ان کی شاہکار کتاب ''فروغ فرخ زاد۔ زندگی اور شاعری'' کی صورت میں موجود ہے۔ کسی تخلیق کار کے تعارف کے لیے اس کی تخلیق سے زیادہ کوئی اور چیز اتنی زیادہ معتبر نہیں ہوتی، سو اس اعتبار سے اقبال حیدری کی شاعری ہی ان کے تعارف کے لیے بہت کافی ہے۔ کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے
تاہم کسی بھی تخلیق کار کا عرفان ذات اولاً اس کی ذاتی صفات کے ساتھ وابستہ و پیوستہ ہوتا ہے۔ انتہائی ملنسار، دوست نواز اور مرنجان مرنج اقبال حیدری کی پہلودار شخصیت کا احاطہ کرنا بڑا مشکل کام ہے کیونکہ اس کے بے شمار گوشے ہیں جن میں علم و ادب، شعر و شاعری، ترجمہ نگاری، تحقیق، تصنیف و تالیف، قلمی و نشری صحافت، ملکی اور غیرملکی اہم مجلسوں سے قلمی تعاون اور سخن و ادب پروری سمیت تمام پہلو شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ تقریباً 25 برس کے طویل عرصے پر محیط ماہانہ انگریزی رسالے ''اکنامک ریویو'' کی تادم آخر ادارت کرتے رہے۔ اسی ادارے کے تحت ایک ریسرچ سینٹر بھی قائم کیا تھا جو مختلف مالیاتی اداروں کے لیے تحقیقاتی خدمات بھی انجام دیا کرتا تھا۔ علاوہ ازیں اندرون ملک اور بیرون ملک بہت سے ریسرچ اسکالرز نے اقبال حیدری صاحب کی رہنمائی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حصول کے لیے اپنے تحقیقاتی مقالات بھی تیار کیے۔ انھیں دیگر اردو ماہناموں کے علاوہ 1955 سے 1980 تک ''جام نو'' جیسے معروف اردو ماہنامے کی مسلسل ادارت کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ان کی ادبی خدمات میں معروف روسی ادیب دوستووسکی کے شہرہ آفاق ناول ''جرم و سزا'' کا اردو ترجمہ بہ طور خاص شامل ہے۔ ان کا اپنا کلام بھی ساقی ، افکار، امروز اور جام نو جیسے موقر اخبارات و رسائل میں مدت دراز تک شائع ہوتا رہا۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ''شہر بے نوا'' جو اپریل 1983 میں چھپ کر منظر عام پر آیا ان کی منفرد اور خوبصورت شاعری کا آئینہ دار ہے۔
اقبال حیدری شاعروں کے اس قبیلے میں ہرگز شامل نہیں ہیں جو شاعر سے زیادہ کلاکار ہوتے ہیں اور اسی بنا پر ہر جگہ اپنی شاعری کا سکہ جماتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے کسی لابی میں شمولیت اختیار کرکے یا محض پروپیگنڈے کی بنا پر مقبولیت حاصل کرنے سے ہمیشہ گریز کیا۔ وہ بڑے سنجیدہ، خوددار اور انتہائی شریف النفس انسان تھے جن کے مزاج میں بلا کی کسر نفسی اور انکساری شامل تھی۔ سستی شہرت سے انھوں نے ہمیشہ گریز ہی کیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عام مشاعروں میں بھی زیادہ شرکت سے پرہیز ہی کیا کرتے تھے۔ البتہ مخصوص نشستوں میں وہ نہ صرف شوق سے شریک ہوتے تھے بلکہ خود اپنے دولت خانے پر بھی ادبی محفلوں کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ اس طرح کی شاید ہی کوئی محفل ہو جس میں انھوں نے ہمیں بھی مدعو نہ کیا ہو۔ اپنے سینئرز کا احترام اور اپنے ہم جلیسوں سے محبت ان کا طرہ امتیاز تھا۔ وہ محض سخن ور ہی نہیں بلکہ ادب و سخن پرور بھی تھے۔ یہ ان کی ادب و سخن پروری ہی تھی کہ ہمارے انگریزی شاعری کے مجموعے "Shadows" کی اشاعت میں انھوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ بلند پایہ شاعر پروفیسر منظور حسین شورؔ کے دو شعری مجموعوں ''صلیب انقلاب'' اور ''ذہن و ضمیر'' بھی انہی نے چھپوائے اور سخن شناسوں میں تقسیم بھی کیے۔ اقبال حیدری اور دیگرشعراء میں سب سے بڑا فرق کم سوادی اور دانشوری کا ہے ، یہ وہی فرق ہے جیسے مرزا غالب نے مدت دراز قبل اپنے اور اپنے زمانے کے دیگر شعراء کے درمیان محسوس کرتے ہوئے کہا تھا ۔
خویش را چوں من مرا ، چوں خویشتن دانستہ اند
(ترجمہ ۔ دیکھو ان لوگوں کو ، انھوں نے اپنے آپ کو مجھ جیسا اور مجھے اپنے جیسا سمجھ رکھا ہے؟)
اقبال حیدری کی شاعری اور عشق اس دنیا سے وابستہ ہے جو سسکتی ہوئی انسانیت اور خون تھوکتی ہوئی تہذیب سے عبارت ہے، وہ کہتے ہیں:
یا ہم سے گھڑی بھر کی جدائی تھی قیامت
یا ہم سے گھڑی بھر بھی نہ اب بات کرو ہو
اس کوچہ سے گزرو ہو نہ تم اس سے ملو ہو
اس شہر میں کیسے گزر اوقات کرو ہو
اقبال حیدری کی شاعری واردات قلب کی آئینہ دار ہے۔ اقبال حیدری انسان سوز مزاریت کے نہیں بلکہ زندگی کی نبض پر ہاتھ رکھ کر سوچنے اور اظہار کرنے کے قائل ہیں۔ ایک وسیع النظر اور وسیع المطالعہ دانشور ہونے کے ناطے ان کے ذہن کے افق میں صرف قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی گہرائی اور گیرائی نظر آتی ہے۔ اقبال حیدری کی نظموں اور غزلوں میں آپ کو ایک ایسے شدید درد کی کسک محسوس ہوگی جسے الفاظ بیان کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ مثلاً ان کی نظم ''مجرم'' کا یہ آخری بند:
فتنہ سامان یہ دیوانگی عقل و خرد
آدمیت کا حسیں جسم بھی مجروح جذام
مردہ احساس کے دنیا میں ہیں شمشیر و قلم
اور سقراط کی قسمت میں فقط زہر کا جام
اقبال حیدری کی شاعری نام نہاد ترقی پسندی کے دعوؤں اور ملک و قوم کی اصلاح کے کھوکھلے نعروں سے بلند و بالاتر ہے۔ وہ جھوٹی سیاسی بازی اور سستے قسم کے پروپیگنڈے سے قطعی بے نیاز ہیں۔ اسی لیے انھیں نہ کبھی ادبی گروہ بندیوں کی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ کبھی ادبی انعامات کی خواہش۔ محمد علی صدیقی نے ان کی شاعری کو رومان پرستی سے حقیقت پرستی کی جانب ایک سفر قرار دیا ہے۔ ان ہی کے بہ قول ''ان کی شاعری میں رومان بھی ہے اور انقلاب بھی۔ رومان اور انقلاب میں دوئی کی گنجائش بھی کیا ہے۔ یہ ایک ہی شخصیت کی داخلی اور خارجی زندگی کے دو رخ ہیں اور اقبال حیدری کی شاعری میں ان ہر دو اجزا نے کچھ اس طرح گھر بنایا ہے کہ حساس طبع قارئین بجا طور پر خوش ہوں گے''
صدیقی صاحب نے اقبال حیدری کو بہ یک وقت ''روایت اور درایت کا شاعر'' قرار دیا ہے۔ اقبال حیدری کی غزلوں کے بعض اشعار میں نظموں کے بنیادی وصف کا عکس بہت نمایاں نظر آتا ہے، مثلاً ذیل کے یہ اشعار:
منظر ہے آج بھی وہ نگاہوں کے سامنے
دیوار و در اداس تھے سورج چھپا نہ تھا
.........
شہروں میں محو رقص بگولے ہیں ان دنوں
صحرا کی کچھ خبر کو وہاں کا ہے حال کیا
اور آخر میں حسب حال غزل کے یہ اشعار پڑھتے جائیے اور اقبال حیدری کو داد پر داد دیتے جائیے:
سارے دوست تمہارے یوں تو پھرتے ہیں ہمدرد بنے
کوئی تمہاری غم خواری کو تم سے ملنے آیا بھی
وہ بھی سب انجان بنے جو جان نچھاور کرتے تھے
مان تھا تم کو دنیا کا، سو دیکھ لی تم نے دنیا بھی
.........
تم پہ جو گزری ہے اس دشت بلا میں تنہا
کون سمجھے گا یہاں تم کسے سمجھاؤ گے
جلد ہی تم کو بھلادے گی یہ دنیا اقبالؔ
اور پھر تم نے کیا کیا ہے جو یاد آؤ گے