سانحہ کوئٹہ مضمرات
بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال گزشتہ کئی سال سے مخدوش اور بدتر چلی آ رہی ہے۔
کوئٹہ ایک بار پھر خون میں نہا گیا اور شیعہ ہزارہ برادری کے لوگوں پر قیامت ٹوٹ پڑی، سانحہ کوئٹہ پر پورا ملک مغموم اور سوگوار ہے۔ 90 سے زائد قیمتی جانیں چلی گئیں اور 100 کے لگ بھگ لوگوں کے جسم زخموں سے چور چور ہیں اور نجانے کتنے ابھی جاں بہ لب ہیں۔ تقریباً ایک ہزار کلو وزنی بارود کو گاڑی میں بھر کے عین سڑک کے بیچ ریموٹ کنٹرول دھماکے سے اڑا دیا گیا اور قانون کے محافظ منہ دیکھتے رہ گئے۔ دھماکا دانستہ پر ہجوم مقام پر کیا گیا تھا تا کہ زیادہ سے زیادہ جانی نقصان ہو اور دہشت گردوں کو اطمینان ہو۔
ہر چند کہ کوئٹہ میں مختلف مسالک و برادریوں کے لوگ آباد ہیں لیکن گزشتہ چند سال سے محض ہزارہ شیعہ برادری کے لوگوں کو نشانہ بنائے جانے کا مقصد ملک میں مسلکی عدم برداشت کے تاثر اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینا ہے۔ بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال گزشتہ کئی سال سے مخدوش اور بدتر چلی آ رہی ہے۔ اغوا، ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکوں، خودکش حملوں اور دہشت گردی کی سفاکانہ کارروائیوں کے حوالے سے بلوچستان دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ حساس اور غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ میں بلوچستان بدامنی کیس زیر سماعت ہے، دوران کارروائی معزز ججز صاحبان کے ریمارکس اور قومی و عالمی میڈیا میں بلوچستان کے حوالے سے شایع ہونے والی خبروں اور ماہرین و مبصرین کے تجزیوں و تبصروں سے صوبے کے حالات کی سنگینی، پیچیدگی اور حساسیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، عدالت عظمیٰ نے کوئٹہ کے تازہ سانحے کا بھی از خود نوٹس لے لیا ہے۔
محض ایک ماہ قبل بلوچستان کے اسی شہر کوئٹہ میں ایسے ہی ایک دلخراش و خوں آشام بم دھماکے میں 80 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے، سانحے کے باعث پورا ملک سوگوار اور سراپا احتجاج تھا۔ دھماکے کے متاثرین نے بلوچستان میں تواتر سے ہونے والی دہشت گردی، بدامنی اور شورش کو صوبے کی سول حکومت کی ناکامی قرار دیا اور سخت سردی کے عالم میں لواحقین اپنے پیاروں کی میتوں کے ہمراہ چار روز تک دھرنا دیے بیٹھے رہے، ان کا مطالبہ تھا کہ سول حکومت کی برطرفی اور صوبے کو فوج کے حوالے کیے جانے تک وہ میتوں کی تدفین نہیں کریں گے۔ صورت حال کی نزاکت اور سنگینی کے پیش نظر وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف از خود کوئٹہ گئے اور لواحقین کے نمایندوں سے طویل مشاورت اور اعلیٰ سطح کے مذاکرات کے بعد صدر پاکستان آصف علی زرداری کی ہدایت کی روشنی میں لواحقین کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو معطل کر کے صوبے میں 60 روز کے لیے گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔
توقع یہ کی جا رہی تھی وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی کی برطرفی کے بعد گورنر بلوچستان ذوالفقار مگسی کی سربراہی میں صوبے کے معاملات چلائے جانے سے حالات میں تبدیلی آئے گی اور دہشت گردی، خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات سے عوام کو نجات مل جائے گی، لیکن وائے افسوس، پر نالہ وہیں کا وہیں رہا اور آج خود گورنر بلوچستان کو یہ اعتراف کرنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے سیکیورٹی کے ادارے شر پسند عناصر کا کھوج لگانے کی اہلیت نہیں رکھتے یا پھر اسی خوف سے ایسے عناصر کو بے نقاب کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ کل کلاں وہ بھی ٹارگٹ کلنگ کا شکار نہ ہو جائیں؟ جہاں امن کے قیام کے ضامنوں اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کے نگرانوں کی یہ حالت ہو وہاں امن کا قیام چہ معنی دارد!
آج پھر حکومت کو کم و بیش ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے، ہفتے کو ہونے والے کوئٹہ کے المناک سانحے میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین بھی اپنے پیاروں کی 90 نعشوں کے ہمراہ 3 دن تک دھرنا دیے بیٹھے رہے، ان کا بھی وہی مطالبہ تھا کہ جب تک کوئٹہ میں فوج تعینات نہیں کی جاتی وہ میتوں کی تدفین نہیں کریں گے، سانحہ کوئٹہ کے متاثرین سے اظہار ہمدردی و اظہار یکجہتی کے لیے پورے ملک کے بڑے شہروں میں اثناء عشری کے مختلف گروپ سڑکوں پر دھرنا دیے بیٹھے رہے، عام لوگوں کی ہمدردیاں بھی ہزارہ برادری کے ساتھ ہیں، وہ بھی ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ دہشت گردی صرف ہزارہ برادری یا بلوچستان کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے ملک میں امن و امان کی صورت حال تشویشناک حد تک بگڑتی جا رہی ہے۔ کراچی، کوئٹہ، پشاور اور دیگر شہروں میں آئے دن قتل، اغوا، ڈکیتی، ٹارگٹ کلنگ، خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں بچے، بوڑھے، جوان، ڈاکٹر، انجینئر، مذہبی رہنما، سیاسی ورکر اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار سب ہی نشانہ بن رہے ہیں۔ یہ حالات ارباب حل و عقد کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔
حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک میں قانون نافذ کرنے والے جملہ اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کے حد درجہ سینئر اور تجربہ کار افسران آج تک کوئی ایسا پلان یا میکنزم بنانے میں کامیاب نہ ہو سکے جس کے روبہ عمل آنے سے ملک بھر میں پھیلے ہوئے دہشت گرد عناصر اور ان کے سرپرستوں کا ٹھیک ٹھیک کھوج لگایا جا سکتا اور ایسے شر پسند عناصر کی گرفتاری اور انھیں کیفر کردار تک پہنچانے کا عمل ممکن ہو پاتا، بجٹ میں ہر سال قوم کے ٹیکسوں کے کروڑوں روپے قانون نافذ کرنے والے اداروں و ایجنسیوں پر خرچ کیے جاتے ہیں، لیکن افسوس کہ ان اداروں کی کارکردگی روز بہ روز روبہ زوال نظر آتی ہے۔ مثل مشہور ہے کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں، یعنی مجرم کتنا ہی چالاک و ہوشیار کیوں نہ ہو وہ قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتا، لیکن آج کے حالات میں یہ مثل بالکل الٹ ہو گئی ہے، آج دہشت گردوں کے ہاتھ اور پاؤں دونوں قانون کے ہاتھوں سے بھی لمبے ہو چکے ہیں، کیا یہ امر تعجب خیز نہیں کہ ہماری جان و مال کی حفاظت پر مامور نگہبان خود اپنی جان کا تحفظ کرنے میں ناکام ہوتے جا رہے ہیں، آپ گزشتہ دس برسوں کے اعداد و شمار دیکھ لیجیے، حساس اداروں کے اہلکار بھی دہشت گردوں کا نشانہ بنتے چلے آ رہے ہیں۔
شکار کرنے والے خود شکار بن جائیں تو عوام کا تحفظ کون کرے گا، آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا، کیا گورنر راج اور فوج کی شہروں میں تعیناتی سے امن قائم ہو جائے گا، کیا دہشت گردی، خودکش حملے، بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں رک جائیں گی، کیا ہمارے تمام حساس اڈے دہشت گردوں کی دسترس سے محفوظ ہو جائیں گے؟ جز وقتی اور سطحی اقدامات سے دہشت گردی کے عفریت کا سر نہیں کچلا جا سکتا اور نہ ہی حکمراں اکیلے یہ بار گراں اٹھا سکتے ہیں، یہ نہایت حساس اور سنجیدہ مسئلہ ہے جس کا پائیدار حل تلاش کرنے کے لیے حکمرانوں، اپوزیشن، تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں، تمام مکاتب فکر کے علما کرام، عسکری قیادت، ایجنسیوں کے سربراہان اور ملک کے سنجیدہ اور متاثرہ طبقات کے نمایندوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا، آگ و خون کے الاؤ کو بجھانے کے لیے باہمی مشاورت سے متفقہ لائحہ عمل طے کرنا ہو گا، اس ضمن میں صدر، وزیر اعظم اور آرمی کی تازہ ملاقات کے یقیناً مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔