خبر پر نظر
جس نے وہاں کام کرنے سے انکار کر دیا، اس کا فنی قد آپ کی نظروں میں کچھ بلند ہو گیا۔
KARACHI:
خبر سنی گئی کہ پاکستانی میڈیا امریکا کے ہاتھ فروخت ہو گیا، خبر کافی تشویشناک تھی پھر انٹرنیٹ کی دنیا سے کسی کو چھپانا اب آسان نہیں ہے نہ صرف خبر بلکہ کسی امریکی چینل سے باقاعدہ با تصویر خبر کی تصدیق کے حوالے ظہور پذیر ہوئے پھر ہمارے ٹی وی چینل کے ایک مشہور ٹاک شو میں اچھے بھلے بڑے نامور شوبز کے حضرات کی کچھ گفتگو بھی سنی، گفتگو کا موضوع اسی سے متعلق تھا، کسی بھی چینل سے اس قسم کے پروگرام کا آن ایئر جانا تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ سب اس خرید و فروخت میں شامل نہیں ہیں اور جو شامل تھے خدا جانے بے چاروں پر کیا افتاد پڑی ہو گی، خیر جانے بھی دیں کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنے؟
ہم اچھے بھلے باضمیر تھے، خدا جانے کہ ہمارا ضمیر کہاں سو گیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ہمارا ضمیر جاگ رہا تھا تو نہ دہشت گردی کی آگ تھی نہ کرپشن کا تناور درخت، ہاں اقربا پروری کے بیمار تو ہم سدا کے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کس جانب جا رہے ہیں؟ ہم اکثر اخبارات اور چینلز پر فنکاروں کی ایک بحث سنتے رہتے ہیں، مثلاً بھارت میں کام کرنے والے پاکستانی فنکار مقابلے کے رجحان اور اپنی پاکستانی شناخت کو اجاگر کرنے کی باتیں کرتے ہیں جب کہ وہ پاکستانی فنکار جو اپنے گھریلو ماحول یا کسی اور وجہ سے پڑوسی میڈیا میں کام کرنے کو انکار کر دیتے ہیں، فرماتے ہیں کہ وہ کسی قیمت پر بھی بھارت جا کر کام نہیں کریں گے اس لیے کہ انھیں اپنے ملک سے بہت محبت ہے، حب الوطنی کے تحت انھوں نے فلاں فلاں ڈائریکٹر کو انکار کر دیا یا ٹکا سا جواب دے دیا۔ یہ بحث آپ نے بھی اخبارات میں پڑھی ہو گی جس نے وہاں کام کرنے سے انکار کر دیا، اس کا فنی قد آپ کی نظروں میں کچھ بلند ہو گیا، ساتھ میں شہرت بھی ذرا بڑھ گئی کہ بھارت سے اسے آفر آئی تھی، اور جو وہاں کام کر رہے ہیں، یقین جانیے لوگوں کو ان سے بھی کوئی گلہ نہیں بلکہ اپنے تئیں خود وہ پاکستانی فن کاروں کا بھارتی فنکاروں کا موازنہ کر کر کے خوش ہوتے ہیں کہ واہ! کیا گایا عاطف اسلم نے اور کیا زبردست کامیڈی کی علی ظفر نے، باقی سب تو اس کے آگے ہیچ ہیں۔ دراصل یہ ہماری اپنی سوچ کا فرق ہے کہ ہم کس طرح سوچتے ہیں۔ کسی دوسرے ملک میں جا کر کام کرنا، کمانا، اپنے ملک کے لیے زر مبادلہ لانا کوئی برائی کی بات نہیں ہے، ہمارے جیسا غریب ملک اس بات کا متقاضی ہے، ہمیں زمانے کے ساتھ ساتھ چلنا چاہیے، لیکن اس ساتھ میں اپنی روایات سے ہاتھ نہیں چھڑانا چاہیے۔
بھارت 80 کی دہائی تک غربت کی چکی میں پس رہا تھا، گو اب بھی اس کی بڑی آبادی اسی حالت کا شکار ہے، لیکن جب اس نے اپنے لوگوں کو باہر ممالک جا کر کمانے کی پالیسی میں نرمی اختیار کی تو تب سے آج کے بھارت کی شکل سب کے سامنے ہے، یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے زمانے کے ساتھ چلنے میں اتنی تیزی دکھائی کہ اپنی روایات سے تعلق بالکل توڑ دیا۔ اس سے جو بے راہ روی کی لہر وہاں ابھری ہے اس نے حالیہ 23سالہ طالبہ دامنی جیسے حادثے کو جنم دیا، بھارت میں آج عورت جتنی غیر محفوظ ہے اس کا تصور ہم نہیں کر سکتے۔
بات خرید و فروخت سے شروع ہوئی تھی، یہ کیسی ڈیل تھی جس نے امریکی چینل پر دھڑلے سے ہماری قوم کو برہنہ کر دیا، اوباما جی کی کوئی بھی اسٹرٹیجی ہو، لیکن اتنے کھلے عام اس کے چہرے سے نقاب اٹھا دینا کیا ظاہر کرتا ہے؟ یہی کہ ہم اتنے غیر اہم ہیں کہ جس کے متعلق کسی کا بھی دل چاہے کہتا پھرے۔ ابھی ریمنڈ ڈیوس کے حادثے کو زیادہ عرصہ تو نہیں گزرا، کس بے باکی سے موصوف پاکستانی تفتیشی افسر کے سامنے سے اٹھ گئے تھے کیونکہ وہ ان کے سوالات کا جواب دینا نہیں چاہتے تھے پھر کیسا ویزہ، کیسا پاسپورٹ؟ وہ امریکا جا اڑے۔ ہم ایشیائی قوموں کے متعلق گورے کیسا سوچتے ہیں؟ شہزادہ ہیری نے افغانستان میں ہونے والی جنگ کو ویڈیو گیم سے تشبیہہ دی، گویا ایشیائی انسانی خون کا بہانا ان کو اذیت دینا یہ سب ان کے لیے ایک ویڈیو گیم ہے اور پھر اس کی حمایت میں افغانستان سے کرزئی صاحب فرماتے ہیں کہ شہزادے کو معاف کر دیا جائے، وہ ابھی بچے ہیں۔
ہم محب وطن پاکستانی ہیں، اپنے ملک کی شان میں کچھ سننا پسند نہیں کرتے، لیکن پھر بھی بہت کچھ برداشت کر جاتے ہیں۔ اکثر سننے میں آتا ہے کہ فلاں اینکر فلاں پارٹی سے پیسے لے کر کام کر رہا ہے، اسی لیے اس کے لیے زیادہ بولتا ہے، فلاں کو دھمکی ملی ہے، فلاں باہر سے پیسے لیتا ہے، ساری باتیں سب کے کانوں میں پڑتی رہتی ہیں، لیکن سب وہ دیکھتے ہیں جو نظر آتا ہے، حال ہی میں غیرملکی پروگراموں کا ٹی وی چینلز پر آن ایئر ہونا شروع ہوا تو ایک بحث چھڑ گئی، ویسے میری اپنی معلومات ناقص ہیں لیکن کیا ہمارے پروگرامز بھی ان ملکوں میں آن ایئر جاتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر ہم کیوں راگ الاپتے ہیں کہ اب بھی ہمارے پروگرامز، ڈرامے وغیرہ وہاں کی درسگاہوں میں کورس کی حیثیت سے شامل ہیں؟ جب یہ ٹی وی پر نشر ہوتے تھے تو وہاں سڑکیں سنسان ہو جاتی تھیں، بالکل درست، لیکن آج کیا صورت حال ہے، اتنے سارے چینلز کے اژدھام میں ناظرین کیا کچھ دیکھیں؟ لیکن ایک دوسری ثقافت جس طرح ہمارے گھروں میں آہستہ آہستہ سرائیت کر رہی ہے وہ درست ہے، اب بھی ہمارے فنکار بہت باصلاحیت ہیں، یہ ضرور ہے کہ انھیں بھی اپنا بڑا کھلا ہوا منہ ذرا چھوٹا کرنا ہو گا کیونکہ یہی زمانے کے ساتھ چلنے کی ریت ہے، ہم اپنی جڑوں کو اکھاڑ کر نہیں پھینک سکتے، کیونکہ یہی تو ہمارا اصل ہیں۔
ہمیں اپنے آپ کو ریفارم کرنے کی ضرورت ہے، انتہائی سختی انسان کو توڑ دیتی ہے اور انتہائی نرمی اسے زمین پر جھکا دیتی ہے، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ میانہ روی اختیار کریں، جس طرح سے پاکستان میں لوگوں کو ملازمتیں اور کاروبار فراہم ہو رہا ہے اسے خراب کر کے ہزاروں لوگوں کو بدحال کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ تقدیر تدبیر سے بھی بنتی ہے اور اﷲ نے بندوں کو عقل و شعور سے نوازا ہے، بہت کچھ وصول کرتے اپنی آنکھیں نہ بند کر لی جائیں، کیونکہ آنکھیں بند ہونے سے بہت کچھ چوری ہو جاتا ہے اور کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ایک بار چوری ہو جائیں تو پھر واپس نہیں آتیں۔ ہمیں بے حسی کے اس گہرے سمندر سے نکلنا ہو گا۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں کوئی بڑا حادثہ ہو جاتا تھا تو ٹی وی پر سنجیدہ پروگرام چلنا شروع ہو جاتے تھے، یہاں حال یہ ہے کہ کوئٹہ میں سو سے زائد زخمی اور پچاس سے زائد اپنی جان سے گئے ہیں، لیکن چینلز پر رقص و موسیقی کے پروگرام چل رہے ہیں، ویک اینڈ تو ہے لیکن کیا ہم اتنے ہی مردہ دل ہو چکے ہیں کہ ہم اپنے بھائیوں کے درد بھی محسوس نہیں کر سکتے، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان سے باہر بھی ایک دنیا ہے جو ہمارے متعلق سوچتی ہے، عمل کرتی ہے، ہمارا مذاق اڑاتی ہے، کیا ہم بھول جاتے ہیں؟