رہوڈز آئی لینڈ اور بوسٹن
گزشتہ ماہ ہیوسٹن میں آنے والے طوفان کی تباہ کاریوں نے سارے ملک کو دہلا کے رکھ دیا ہے
جہاں تک شکاگو کی تقریب کا تعلق ہے وہ ہمیشہ کی طرح بہت بھر پور اور کامیاب رہی کہ ایک تو یہاں ہمارے لوگوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے اور دوسرے یہ علاقہ ادبی، قومی اور تہذیبی نوعیت کی تقریبات کے حوالے سے بہت منظم اور فعال ہے۔ سونے پر سہاگہ یہاں کی Helping Hand تنظیم کے نمائندے ہیں کہ جن میں جذبے اور سلیقے کا ایک ایسا خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔
یوں تو اپنی کمیونٹی کے حوالے سے نیویارک، ہیوسٹن اور لاس اینجلس بھی بڑے مراکز ہیں لیکن تسلسل اور ذوق و شوق کے حوالے سے شکاگو ہر اعتبار سے پہلے نمبر پر آتا ہے۔ پروگرام کے مطابق ہمیں یہاں سے ریاست فلوریڈا جانا تھا جہاں آرلینڈو اور فورٹ لاڈر ڈیلمیں دو تقریبات طے تھیں مگر عین ان ہی دنوں میں اس علاقے میں سمندری طوفان اور تباہ کن بارشوں کا پروگرام بن گیا جس کی تفصیلات اس قدر خوفناک تھیں کہ ٹی وی پر ان کو دیکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ نیلوفر سید نے فون پر بتایا کہ تقریباً ساٹھ لاکھ لوگوں کو وہاں سے دوسرے محفوظ علاقوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ ماہ ہیوسٹن میں آنے والے طوفان کی تباہ کاریوں نے سارے ملک کو دہلا کے رکھ دیا ہے۔ متعلقہ شعبے کے ماہرین کا اندازہ تو یہی ہے کہ سمندری ساحلوں سے قدرے فاصلے پر واقع علاقے اس کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہیں گے لیکن آبادیوں کے انخلاء، دہشت، ٹریفک جام اور ذہنی بے چینی کے باعث متوقع صورتحال کچھ ایسی تھی کہ منتظمین کے باہمی صلاح مشورے کے بعد یہاں کے پروگراموں کو کسی اور جگہ منتقل کرنے کا فیصلہ کر لیا مگر اب یہ مشکل آن پڑی کہ چار پانچ دن کے اندر کسی متبادل شہر کا انتخاب اور وہاں تقریب کا انعقاد اپنی جگہ پر ایک مسئلہ تھا کہ وہاں اس نوع کی تقریبات کی تیاری کے لیے کم سے کم دو مہینے درکار ہوتے ہیں۔
قرعہ فال رہوڈز آئی لینڈ اور بوسٹن کے نام نکلا جو ہیں تو قریب قریب مگر دونوں جگہوں پر کمیونٹی کے ساتھ رابطے کا سلسلہ بوجوہ کوئی بہت زیادہ منظم نہیں اور رہوڈز آئی لینڈ میں تو سرے سے ہیلپنگ ہینڈ کا کوئی باقاعدہ نمائندہ بھی موجود نہیں۔ سو وہاں کے انتظامات بھی بوسٹن والے ہمایوں کبیر صاحب ہی کے ذمہ ہوں گے۔ رہوڈز آئی لینڈ میں ہمارے میزبان گجرات سے تعلق رکھنے والے الیاس جاوید چوہدری صاحب تھے جو پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے مگر فی الوقت بزنس سے متعلق تھے۔ ان کا دل اور گھر دونوں خوبصورت تھے۔ معلوم ہوا کہ ان کی بیگم اور بڑا بیٹا گزشتہ ہفتے ہی حج سے واپس لوٹے ہیں۔ الیاس جاوید کا حافظہ اور ذوق دونوں بہت اچھے تھے، چنانچہ ان سے گفتگو کے دوران میں بہت سی بھولی ہوئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں۔
بوسٹن یوں تو نیویارک سے زیادہ فاصلے پر نہیں اور وہاں اپنی کمیونٹی بھی اچھی خاصی ہے مگر اتفاق سے اس سے پہلے کبھی وہاں جانے کا موقع نہیں نکل سکا تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں امریکا کی جنگ آزادی کے حوالے سے ''بوسٹن ٹی پارٹی'' کا ذکر نظر سے گزرا تھا سو اتنا پتہ تھا کہ یہ ایک ساحلی شہر ہے۔ ہماری فرمائش پر ہمایوں کبیر ہمیں ساحل سمندر پر لے تو گئے لیکن معلوم ہوا کہ بندرگاہ کا علاقہ (جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا) شہر کے دوسری جانب ہے۔ رہوڈز آئی لینڈ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ رقبے کے اعتبار سے ریاستہائے متحدہ امریکا کی سب سے چھوٹی ریاست ہے۔
یہاں کی یونیورسٹیاں بہت مشہور ہیں۔ ٹرمپ سے الیکشن ہارنے اور کلنٹن سے دل ہارنے والی ہیلری کلنٹن یہیں کی پڑھی ہوئی ہے۔ جب کہ بوسٹن کو چار امریکی صدور کی جائے پیدائش ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یہاں کی تقریب کا اہتمام ہلٹن ٹری ہوٹل میں کیا گیا تھا۔ حاضرین کی تعداد تو سو سے کچھ ہی زیادہ تھی۔ لیکن لوگ اچھے ذوق سخن کے مالک تھے۔ یہاں دو ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی جو اپنی اپنی وجہ سے یادگار تھی۔ ایک تو میرے مسلم ماڈل ہائی اسکول کی آٹھویں جماعت کے کلاس فیلو ''ڈاکٹر شوکت تھے جن کو یہاں آئے پچاس سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے۔ ان سے ماسٹر غلام نبی غیرت صاحب کا بہت تذکرہ رہا جو ہمارے سی سیکشن کے کلاس ٹیچر تھے۔ میں نے شوکت کو بتایا کہ ماسٹر صاحب کا ایک بیٹا مجھ سے فون پر رابطے میں ہی رہتا ہے۔ شوکت مزاج کے اعتبار سے ایک شرمیلا اور کم گو انسان ہے مگر بطور ڈاکٹر اس نے بہت عزت اور نام کمایا ہے۔ سو اس سے مل کر ذوق کا ایک سکہ بند قسم کا شعر بہت یاد آیا کہ
اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے
دوسرا ملاقاتی بلکہ ملاقاتن ادبی حلقوں کی جانی پہچانی ادیب نواز شخصیت بیگم سرفراز اقبال کی بڑی بیٹی ڈاکٹر غزالہ تھی جس سے گاہے گاہے ''اپنا'' کی کانفرنسوں میں تو ملاقات ہوجاتی ہے مگر یہ علم نہیں تھا کہ وہ بوسٹن میں رہتی ہے۔ اس سے باتوں میں پتہ چلا کہ اس کا بڑا بھائی غالب اقبال جو فرانس میں پاکستان کا سفیر تھا حال ہی میں ریٹائر ہوا ہے اور یہ کہ اس کے والد یعنی اقبال صاحب گاہے گاہے اس کے پاس امریکا اور چھوٹی بہن ثمینہ کے پاس پرتھ آسٹریلیا میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ صادقین، فیض صاحب، محمد طفیل (نقوش) احمد فراز اور کئی اور احباب کا ذکر بھی درمیان میں آیا کہ اسلام آباد میں ان کا گھر ادیبوں اور فن کاروں کا ایک طرح سے اڈا ہوا کرتا تھا کہ مرحومہ سرفراز اقبال کا حلقہ احباب وسیع بھی تھا اور منتخب بھی۔
اب ہمارا اگلا پڑاؤ سینٹ لوئس ہے جہاں پانچ برس قبل ''اپنا'' کی ایک کانفرنس کے حوالے سے جانا ہوا تھا اور جہاں عطاء الحق قاسمی نے تقریباً پچاس برس قبل اپنے دو سالہ قیام امریکا کا بیشتر حصہ گزارا تھا۔