بیمار معاشرہ بیمار معیشت

آپ ایک نہیں دس سی پیک بنا ڈالیے۔ شہر شہر تو کیا گاؤں گاؤں کے بیچ میں موٹروے پہ موٹروے بچھا دیجیے


سید معظم حئی September 24, 2017
[email protected]

آپ ایک نہیں دس سی پیک بنا ڈالیے۔ شہر شہر تو کیا گاؤں گاؤں کے بیچ میں موٹروے پہ موٹروے بچھا دیجیے۔ یہاں تک کہ لوڈ شیڈنگ تک مکمل ختم کردیے۔ آپ کچھ بھی کر لیجیے آپ کی قومی معیشت ترقی نہیں کرسکتی۔ جب تک آپ کے ملک کا معاشرہ اخلاقی طور پہ بیمار ہے تب تک آپ کے ملک کی معیشت تندرست و توانا نہیں ہوسکتی۔ اب آپ جو چاہیں مثال لے لیجیے مثلاً سی پیک جسے ہمارے حکمران ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی عظیم مثال کے طور پہ پیش کرتے نہیں تھکتے۔ سرمایہ کاری؟ چھ سے آٹھ فیصد سود اور اس کے اوپر دو فیصد عائد رسک چارجز والے قرضوں کو غالباً دنیا میں ایک ہم ہی سرمایہ کاری کہہ سکتے ہیں۔

پچھلے کئی برسوں سے جب کہ شرح سود کم سے کم ہوتی جا رہی ہے، اتنی کم کہ جاپان، بھارت میں احمد آباد سے ممبئی 310 میل طویل بلٹ ٹرین کا نظام 17 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے قائم کر رہا ہے اور شرح سود؟ نہ آٹھ نہ دس یہاں تک کہ ایک فیصد بھی نہیں، صرف اور صرف 0.1 فیصد ۔ ویسے کچھ سال پہلے جاپان نے بنا کسی سود کے قرضوں سے لاوارث شہر کراچی میں سرکلر ریلوے بحال کرنے کی پیشکش کی تھی، شرط جاپانیوں کی صرف یہ تھی کہ وہ ان قرضوں کو کرپشن سے بچانے کے لیے مالی معاملات اپنے ہاتھ میں رکھیں گے، ظاہر ہے کہ ایسی ''نامعقول'' شرط اخلاقی بیمار معاشرے کی پیداوار اخلاقی بیمار حکومتوں کو قبول نہیں تھی چنانچہ کئی سال انتظار کرنے کے بعد جاپانیوں نے تھک ہار کر اپنی پیشکش واپس لے لی۔

اور صرف حکمران کیا آپ کو اخلاقی بیمار معاشرے کا میڈیا بھی اخلاقی بیمار ہی ملے گا۔ چنانچہ آپ اپنے اپنے سیاسی گاڈ فادرز کی لائن پہ چلتے میڈیا کو کبھی ایسے موضوع نہیں اٹھاتے دیکھیں گے ۔ جیسے یہ سوال 2008 سے 2013 کے درمیان پاکستان پہ لادے گئے 8.136 کھرب روپوں کے قرضے کہاں گئے۔

یہ کتنے بڑے قرضے تھے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیے کہ 1947 سے 2008 تک یعنی 60 برسوں میں پاکستان پرکوئی چھ کھرب روپوں کا قرضہ چڑھا تھا جو 2008 سے 2013 تک بڑھ کر 14 کھرب روپوں سے بھی آگے نکل گیا یعنی صرف پانچ سالوں میں 60 سالوں سے بھی زیادہ، دگنے سے بھی زیادہ قرضہ لاد دیا گیا اور کسی کو بھی نہیں پتا کہ یہ کھربوں روپے گئے تو کہاں گئے، یہ بات موجودہ حکومت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بقلم خود 23 اگست 2013 کو موجودہ قومی اسمبلی کو بتائی اور یہ بھی کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت تحقیق کرے گی کہ یہ کھربوں کے قرضے کہاں خرچ کیے گئے اور صرف پانچ سالوں میں 60 سالوں سے بھی زیادہ ملک پہ لادے گئے قرضوں نے ملکی معیشت پہ کیا اثر ڈالا۔

آپ ذرا سوچیے کہ ساٹھ سالوں میں حاصل کردہ قرضوں سے بھی دوکھرب روپے زیادہ کے یہ قرضے اگر اس ملک میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی، سیوریج کے نظام کی بہتری اور پھیلاؤ، روایتی اور تکنیکی تعلیم میں اضافے، سرکاری اسپتالوں کی زبوں حالی دور کرنے، قوم کی اخلاقی تربیت کے پروگرامز چلانے، ماحول دوست توانائی کی پیداوار، بنجر زمینوں کی بحالی، آلودہ جھیلوں، دریاؤں اور ساحل سمندر کی صفائی، کراچی جیسے شہر میں ماس ٹرانزٹ نظام بنانے اور ملکی برآمدات بڑھانے پہ خرچ ہوئے ہوتے تو کیا ہماری معیشت بہتر نہ ہوئی ہوتی مگر بیمار معاشروں میں حکمران ملک کا پیسہ ملک کی نہیں اپنی معیشت بہتر کرنے پر لگاتے ہیں۔ بیمار معاشرے کا میڈیا اپنے اپنے سیاسی و معاشی آقاؤں کی ڈھول بجاتا ہے۔

ان سے ایسے سوال نہیں کرتا کہ جناب جب آپ پانچ برسوں میں ساٹھ برسوں سے بھی زیادہ قرضے لے کر ملک سنوارنے کے بجائے بگاڑ گئے یہاں تک کہ آپ کا محکوم شہر کراچی بین الاقوامی اداروں کے مطابق دنیا کا چھٹا ناقابل رہائش بدترین شہر بن گیا تو آپ آیندہ اور کیا کریں گے؟اب ایک اور مثال لیجیے پاکستان پہ بیرونی قرضے تیزی سے 90 ارب ڈالر کے خوفناک خطرے کے نشان کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں پہنچنے کے بعد ملک کو صرف اپنے بیرونی قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے ہر سال 20 ارب ڈالرز کی ضرورت پڑے گی۔ یہ ضرورت کیسے اور کہاں سے پوری ہوگی کیونکہ ملک کے پاس سے تو اب صرف چند ایف 16 طیارے امریکا سے نقد کی بنیاد پر خریدنے کے لیے 70 کروڑ ڈالر تک نہیں نکلے، ہمارے ایئرپورٹس، بندرگاہیں سب ہی کچھ گروی رکھوایا جاچکا ہے۔

ملکی برآمدات درآمدات کا نصف ہوتی جا رہی ہیں اور یہ ہے ہمارے ان ''تجربہ کار'' حکمرانوں کی ''تجربہ کار'' حکمرانی کی صورتحال کہ جن کے حامی ٹی وی اینکر و کالم نگار جنھیں اس ملک کے لیے واحد اور ناگزیر آپشن قرار دیتے ہیں۔ اس ساری صورتحال کا آپ ایک اور رخ دیکھیے کہ صرف سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں ہی پاکستان سے لوٹے گئے 200 ارب ڈالر پڑے ہیں جو ملک پہ لادے گئے بیرونی قرضوں کے دگنے سے بھی زیادہ ہیں مگر لوٹی ہوئی قومی دولت کیا واپس آئے گی الٹا پاکستان سے ہر سال 10 ارب ڈالر منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر بھیجے جا رہے ہیں اور یہ کسی اور نے نہیں بلکہ ہمارے ناقابل اصلاح کرپٹ حکمراں طبقے کے گاڈ فادر امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اس سال مارچ میں بتایا۔ ہمارے اخلاقی بیمار معاشرے کے اخلاقی بیمار کرپٹ حکمراں طبقے کا مسئلہ مگر یہ ہے کہ ان لوگوں کا پیٹ کسی صورت بھرنے کو نہیں آرہا۔ لکھ پتی سے کروڑ پتی، کروڑ پتی سے ارب پتی پھر کھرب پتی ان کی ہوس الٹا بڑھتی جا رہی ہے لگتا ہے کہ قبر میں پہنچنے کے بعد بھی ان کا ایک ہاتھ باہر ہوگا کہ اور مال پکڑ لیں۔مگر ذرا ٹھہریے کیا اس اخلاقی بیمار معاشرے کے عام آدمی کی لالچ اور ہوس بھی تو کچھ ایسی ہی نہیں ہے؟

آپ دودھ والے کی مثال لے لیجیے پہلے اس نے دودھ میں پانی ملایا منافع بڑھ گیا، پھر دودھ میں پکانے کا تیل ملایا، پھر سنگھاڑوں کا سفوف ملایا، پھر انسانی لاشوں کو سڑنے سے محفوظ رکھنے والا کیمیکل ملایا، پھر میلا مائن ملایا، پھر بال صفا پاؤڈر ملایا، پھر کپڑے دھونے والا ڈیٹرجنٹ ملایا، پھر شیمپو ملایا، پھر ہائیڈروجن پرآکسائیڈ ملایا، پھر گلوکوز ملایا، پھر کاغذ ملایا، پھر مالٹو ڈیکسٹرین ملایا، پھر اراروٹ ملایا، پھر یورک ایسڈ ملایا، پھر امونیم سلفیٹ ملایا، پھر نشاستہ ملایا، پھر بھینسوں کو حاملہ عورتوں کو لگائے جانے والے ہارمون انجکشن لگائے، منافع بڑھتا ہی گیا مگر دودھ والے کا پیٹ ہے کہ بھرتا ہی نہیں، اور کی ہوس ہے کہ ختم ہوتی ہی نہیں۔ یہ پورا معاشرہ ہی حکمرانوں اور دودھ والوں سے بھرا پڑا ہے۔ حکمران آئین سے صادق اور امین کی شرط نکالنا چاہتے ہیں اور عام آدمی صادق اور امین کا مطلب ہی نہیں جانتا۔ جھوٹ عام ایسا ہے کہ ایک خاندان میں لوگ ایک دوسرے پہ بھروسہ نہیں کرتے، دنیا ہم اور ہماری حکومت پہ اعتبار نہیں کرتی۔ یہ وہ معاشرہ ہے کہ جہاں حرام حلال ہوچکا ہے، آدمی کی اس کے شر کی بنا پہ عزت کی جاتی ہے، ایسے بیمار معاشرے کی معیشت بھی بیمار ہی رہے گی آپ چاہے کچھ بھی کرلیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں