سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ہمارے ملکی اور معاشرتی حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں
تاریخ شاہد ہے کہ کسی بھی ملک و قوم کی تعمیروترقی میں نوجوانوں نے ہمیشہ کلیدی و مثبت کردار ادا کیا ہے، بشرط یہ کہ ان کی درست سمت میں رہ نمائی کی جائے۔ ہمارے ملک کا شمار دنیا کے ان خوش قسمت ترین ممالک میں ہوتا ہے جہاں آبادی کا بیشتر حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ کہنے کو تو یہ ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے نسل نو کی ہمت، بلند حوصلے اور غیر متزلزل جذبوں کی بدولت اقوام ترقی کا سفر برق رفتاری سے طے کرتے ہیں لیکن بد قسمتی ہی کہی جائے گی کہ ہمارے وطن عزیز میں نوجوانوں کی تعمیروترقی یا انھیں روزگار فراہم کرنے کے لیے ٹھوس سطح پر سنجیدہ اقدامات نہیں کیے جاتے۔
افسوس کے ساتھ یہ تحریر کرنا پڑ رہا ہے کہ جہاں اسکولوں کے بچے اور بچیاں عشق و محبت میں پڑ کر خودکشیاں کرنے لگیں وہاں تعلیم کی نہیں تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلاشبہ ہمارے اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں تعلیم اور ڈگریوں پر تو بڑا زور دیا جاتا ہے، رنگ برنگے کورس پڑھائے جارہے ہیں اور نئے نئے اسکول، کالج کھل رہے ہیں لیکن فکر کی بات یہ ہے کہ تربیت کا تعلق ہمارے نظام تعلیم سے ختم ہوچکا ہے ۔ کسی زمانے میں تعلیم کے ساتھ تربیت کو لازم و ملزوم سمجھا جاتا تھا بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ تعلیم کا مقصد ہی معاشرے کے لیے اچھے انسان پیدا کرنا ہوتا تھا لیکن اب اولادوں کی تربیت والدین کی ذمے داری رہی ہے اور نہ اساتذہ کو اس کی پرواہ ہے۔ الٹا اب تعلیم کے ساتھ تربیت کے بجائے جدیدیت اور روشن خیالی کے نام پر ناچ گانے نے جگہ لے لی ہے۔ '' شیشہ '' پینے کے کیفے بن گئے ہیں اور منشیات کا سب سے زیادہ استعمال اور کاروبار اسکولوں اور کالجوں میں ہونے لگا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے اسکولوں اورکالجوں کے پچاس فی صد بچے نشے کی لعنت میں مبتلا ہیں۔ دوسری طرف مخلوط نظام تعلیم کو ریاستی سطح پر بڑھاوا دیا جارہا ہے جس کی وجہ سے لڑکے، لڑکیوں کی دوستیاں اوائل عمری میں ہونا اور عشق و محبت کرنا اب تو عام سی بات سمجھی جاتی ہے ۔ ایک طرف اسکول و کالج کا روشن خیالی کا ماحول تو دوسری طرف گھروں میں بے رحم ریاست نے ٹی وی اور انٹرنیٹ کو بھی معاشرے میں بے ہودگی پھیلانے کے لیے کھلی چھٹی دے رکھی ہے جس کا سب سے بڑا شکار بچے ہی ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے جب ہمارا میڈیا اور انٹرنیٹ بچوں کو عشق و محبت کا سبق دیںگے، فحاشی و عریانیت کا پرچار کریںگے، اسکول وکالجز بھی اسی ماحول کی حوصلہ افزائی کریںگے اور درس گاہوں میں نشہ فروخت کرنے والوں کو بھی پوری آزادی حاصل ہوگی تو پھر سوچ لیں ہم کیسا معاشرہ بنانے جارہے ہیں اور یہ کہ ہماری نئی نسل کا مستقبل کیسا ہوگا؟
حال ہی میں رکن سندھ اسمبلی خواجہ اظہار الحسن پر ناکام قاتلانہ حملے میں ملوث الشریعہ نامی کالعدم تنظیم کے خلاف کارروائی کے دوران اس سے وابستہ جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کے پورے نیٹ ورک کا انکشاف بلاشبہ نہ صرف حکمرانوں بلکہ پوری قوم کے لیے نہایت سنجیدہ لمحہ فکریہ ہے۔ قاتلانہ حملے کے بعد فرار ہونے کی کوشش کے دوران موقعے پر موجود لوگوں کے ہاتھوں پکڑا اور ہلاک ہوجانے والا حسان اسرار اطلاعات کے مطابق پی ایچ ڈی کی ڈگری کا حامل تھا اور انجینئرنگ یونی ورسٹی میں پڑھاتا تھا۔
اس حملے کا ماسٹر مائنڈ 29 سالہ عبدالکریم سروش کراچی یونیورسٹی میں اپلائیڈ فزکس کا طالب رہ چکا ہے اس کے گھر پولیس نے چھاپا مارا لیکن وہ زخمی حالت میں فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا جب کہ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عبداﷲ ہاشمی کے نام سے معروف انصار الشریعہ کے سربراہ کی گرفتاری عمل میں آئی ہے جو اپلائیڈ فزکس میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ دس سے بارہ جدید تعلیم یافتہ افراد کا یہ نیٹ ورک جس کا ایک رکن برطانیہ کی یونیورسٹی میں بھی زیر تعلیم رہا ہے، انتہائی سائنٹیفک طریقے سے دہشت گردی کی کارروائیاں کرتا رہا ہے۔
ایک مدت تک مغربی ذرائع یہ تاثر عام کرتے رہے کہ دہشت گردی کے فروغ میں ہمارے دینی مدارس ملوث ہیں لیکن کچھ عرصے میں ایسے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں جن میں جدید جامعات کے وابستگان بھی شامل پائے گئے اور اب کراچی میں ایک پورا نیٹ ورک ہی ایسے نوجوانوں پر مشتمل نکلا ہے۔ جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں میں دہشت گرد تنظیموں سے عملی وابستگی کا یہ رجحان یقینا فوری روک تھام کا متقاضی ہے لیکن اس کے لیے محض طاقت کا استعمال ہرگز کافی نہیں۔
اس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہم نے معاشرتی سطح پر نوجوانوں سے ہمیشہ ہی شکوہ کیا ہے، اس کے آہنی، مثبت و تعمیری عزائم کو نہ کبھی ہم نے محسوس کیا اور نہ کبھی اس کی کمر ٹھونک کر ہمت بندھائی، یہی وجہ ہے کہ وہ بھی ہم سے شکوہ کناں رہا ہے کبھی طالب علم کی صورت میں ، کبھی بیٹے کی شکل میں، کبھی کسی ادارے یا کمپنی میں ڈگری یافتہ ہونے کے باوجود کلرک یا رسیپشنسٹ کے روپ میں جاب کرتے اور کبھی کسی سیاسی جماعتوں کا آلۂ کار بنتے ہی وہ ملا ہے۔ ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کہ اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والے یہ نوجوان عملاً کیوں مایوسی کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں اور آخر وہ کون سی وجوہ ہیں جن کی وجہ سے ان سے وابستہ توقعات پوری ہوتی ہوئی نظر نہیں آئیں۔اس ملک یا معاشرے کی برہنہ سچائی بہرطور یہی ہے کہ نوجوان نسل کو مایوسی اور نا امیدی کے اندھیرے میںدھکیلنے والے کوئی اور نہیں ہم اور آپ ہی ہیں۔
ہم نے اور ہمارے ریاستی اداروں یا ارباب اختیار نے ان کے لیے آخر کیا ہی کیا ہے جو ہر بات میں انھیں ذمے دار ٹھہرائیں، کون نہیں جانتا کہ تعلیم، صحت، روزگار ہمارے نوجوانوں کے بنیادی حقوق ہیں جنھیں پورا کرنا ریاست کی ذمے داری ہے لیکن اس ذمے داری کو کتنی خوش اسلوبی اور دیانت داری سے نبھایا جارہاہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے تعلیم کے میدان میں پرائمری اسکولوں سے لے کر جامعات تک بد ترین انحطاط کا شکار ہیں یہی نہیں بلکہ ہر شعبہ جات زوال پذیری کی عملی تصویر بنا ہوا ہے۔
آج بھی اس ملک کے سلجھے ہوئے نوجوان بلند ارادوں اور مضبوط یقین کے حامل ہیں (جی ہاں ان حالات میں بھی) جنھیں کسی بھی میدان میں اتاریں تو وہ وہاں سے کامیابیاں ہی سمیٹ کر لائیںگے بس انھیں صحیح رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ اقربا پروری اور آلودہ ماحول نے سب سے زیادہ نقصان نسل نو کو پہنچایا ہے اور ہر دور میں اس کا خمیازہ نوجوانوں نے ہی بھگتا ہے ایک عرصے تک نوجوان جب ڈگریوں کی فائل اٹھاکر دفاتر کی خاک چھان کر تھک جاتا ہے تو پھر یا تو وہ باغی ہوجاتا ہے یا اس سسٹم یا پھر سیاسی تنظیموں کا رکن بن جاتا ہے۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ہمارے ملکی اور معاشرتی حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں، کسی ایک خرابی کی طرف توجہ دی جاتی ہے تو کوئی دوسری خرابی سامنے آجاتی ہے، حکومت اور ریاست جن کو ہمارے معاشرے کی تنزلی کا سفر روکنے میں اپنا ٹھوس کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان پر کسی بات کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا حکومت اور ریاستی ادارے اپنی اپنی سیاست اور طاقت کے حصول کی لڑائی لڑنے میں مصروف ہیں نتیجے میں معاشرہ ہرگزرتے دن کے ساتھ بد سے بد تر ہوتا جا رہا ہے حکومت اور ریاست کی اس سنگ دلی کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ جس کی جو مرضی میں آئے وہ بلا روک ٹوک کرتا جا رہا ہے۔