حیات انسانی کے لیے خطرے میں اضافہ

ماحولیات کو تباہ کرنے میں اس وقت چین کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔


Zamrad Naqvi September 25, 2017
www.facebook.com/shah Naqvi

ماہرین ماحولیات نے خبردار کیا ہے کہ اگر زمین کے درجہ حرارت میں مزید تین درجے اضافہ ہو گیا تو انسان کے لیے زمین پر زندگی گزارنا اجیرن ہو جائے گا۔ اور اگر یہ درجہ حرارت پانچ درجے تک بڑھتا ہے تو زمین پر انسانی زندگی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ یہ سب کچھ بہت زیادہ دور نہیں اس صدی کے آخر میں وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔ یہ وہ عفریت ہے جو آہستہ آہستہ نہیں بلکہ بڑی تیزی سے زمین اور نسل انسانی کو ہڑپ کرنے جا رہا ہے۔ اس حوالے سے صورت حال اتنی بدترین ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ خطرہ ہمارے سر پر منڈلا رہا ہے لیکن ہم بے خبر ہیں۔

ہم ہر سال ماحولیات کا دن تو ضرور مناتے ہیں اور ملکی و عالمی سطح پر اپنی ذمے داری سے عہدہ برا ہوجاتے ہیں۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ عام آدمی میں بھی ماحولیاتی بگاڑ کے حوالے سے کوئی شعور پیدا ہوا بھی ہے یا نہیں۔ پاکستان میں بیدردی سے جنگلات کا قتل عام ہو رہا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اگر ٹمبر مافیا کے خلاف کارروائی بھی ہوتی ہے تو نام نہاد۔ کیونکہ ان کے تعلقات حکمرانوں کی سطح پر ہے تو کوئی ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ میڈیا میں کچھ دیر شور شرابا ہوتا ہے اس کے بعد خاموشی۔ دنیا میں جنگلات کے سب سے بڑے ذخائر برازیل میں دریائے ایمزون کے ڈیلٹا اور مشرق بعید میں پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے برازیل کے جنگلات کو جو انتہائی وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں دنیا کا پھیپھڑا کہا جاتا ہے جو دنیا کے ماحول کو متوازن رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن ان جنگلات کے رقبے میں کمی واقع ہو رہی ہے وجہ تیز رفتاری صنعتی ترقی ہے۔

زہریلی گیسیں جنگلات کو تیزی سے ہڑپ کر رہی ہیں۔ خاص طور پر دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک صنعتی ترقی کے حصول کے لیے اندھے ہو گئے ہیں۔ اب جا کر انھیں ہوش آیا ہے تو اس وقت جب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 80ء کی دہائی میں ماحولیات کی بنیاد پر جرمنی میں گرین پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس مسئلے کو جرمن سیاست میں اس پارٹی نے اس طرح اجاگر کیا کہ وہ پارٹی کرسچین ڈیموکریٹ سوشل ڈیمو کریٹ اور لبرل ڈیموکریٹ جیسی بڑی پارٹیوں کے مقابلے میں پہلی تبدیلی بنڈس ٹاگ یعنی جرمن پارلیمنٹ میں پہنچ گئی۔ اس پارٹی نے پارلیمنٹ میں جا کر ایسے قوانین بنوائے جن سے صنعتوں سے زہریلی گیسوں سے سے نکلنے پر قابو پایا جا سکے۔ یہ ان کی اپنی سرزمین جنگلات اور اپنی قوم سے محبت ہی تھی جس نے بے لگام صنعتی ترقی پرماحولیات کی بہتری کو ترجیح دی۔

کوئلے سے بجلی پیدا کرنے پر یورپ امریکا سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک میں پابندی لگ چکی ہے۔ یہاں تک کہ چین میں بھی کوئلے کو بطور ایندھن استعمال کر کے بجلی استعمال کرنے پر پابندی لگ گئی ہے اور ہمارے حکمران چین سے درآمد شدہ کوئلہ پلانٹ حاصل کر کے بجلی بنا کر بجلی کے بحران پر قابو پانے کے دعوے کر رہے ہیں۔ ساہیوال کا کوئلہ پاور پلانٹ جب لگنا شروع ہوا تو ساہیوال کے بڑے زمیندار خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک باشعور خاتون نے فون کیا اور بتایا کہ اس پلانٹ کی تنصیب سے پورے ساہیوال کی فضا زہر آلود ہو جائے گی۔ جس کے نتیجے میں ساہیوال کی زرخیز ترین زمین ایک وقت کے بعد بنجر پن کا شکار ہو سکتی ہے۔

چین کے 30 فیصد رقبے پر تیزابی بارش ہوتی ہے۔ آخر اس کی وجہ؟ یہ کوئلہ پاور پلانٹ کی برکت ہے۔ چین اور امریکا کی صنعتی ترقی نے پوری دنیا کی ماحولیات کو تباہ کر دیا ہے۔ ماحولیات کو تباہ کرنے میں اس وقت چین کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ سیکڑوں ہزاروں لوگ اس ماحولیاتی تباہی کی نذر ہو رہے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی اور فضا میں زہریلی گیسوں کا تناسب اس قدر بڑھ گیا ہے کہ وہاں لوگ اپنے گھروں سے باہر ماسک لگائے بغیر نہیں نکل سکتے۔

امریکا جس کا ماحولیات کی تباہی میں بہت بڑا حصہ ہے اس کے صدر ٹرمپ نے ماحولیات کی تباہی کے پیرس معاہدے سے نکلنے کا اعلان کر دیا ہے جس کی دنیا بھر میں مذمت ہو رہی ہے۔ امریکی پروفیسر ڈینل رتھ مین نے، جس کا تعلق میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے ہے، کہا کہ اس صدی کے آخر میں کاربن کی مقدار سمندروں اور فضا میں اتنی زیادہ بڑھ جائے گی کہ زمین پر ہر قسم کی حیات سمیت نسل انسانی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ زمین پر ایسے حالات وقوع پذیر ہوں گے کہ زمین پہچانی نہیں جائے گی۔ ماحولیات کا بگاڑ اس درجہ پہنچ گیا ہے کہ پے در پے طوفانوں نے امریکا سمیت دنیا کے لاکھوں انسانوں کو تباہ برباد کر دیا ہے۔ امریکی پروفیسر کے مطابق یہ دنیا کی تاریخ میں چھٹی مرتبہ ہو گا کہ نسل انسانی معدومیت کے قریب پہنچ جائے گی۔

ماحولیات کی تباہی نے زلزلوں اور ان کی طاقت میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ انسانی ترقی کے ساتھ زلزلوں میں بھی ترقی ہوئی ہے پہلے کم طاقت کے زلزلے آتے تھے۔ اب سات درجے ریکٹر اسکیل سے بھی اوپر زلزلے آ رہے ہیں۔ حال ہی میں میکسیکو میں آنے والا زلزلہ اس کی مثال ہے۔ پاکستان میں سال بہ سال گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس دفعہ کی گرمی اور طویل حبس نے پاکستانیوں کی جان نکال دی ہے۔ بے تحاشا موٹر سائیکل کاریں صنعتی زہریلی گیسوں اور لکڑی کا بطور ایندھن استعمال اس کی وجہ ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے پہاڑوں پر برف پگھلنا لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابوں نے پاکستانی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ پچھلے دس سال میں ہزاروں ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ دوسری طرف پاکستانی عوام کی غربت میں اضافہ ان کی زمینوں گھروں کی تباہی۔ دہائیوں کی محنت کا لمحوں میں خاک میں ملنا۔ معاشی اور معاشرتی ابتری کا بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے۔ ضروری ہے کہ ہمارے تمام تعلیمی اداروں میں ماحولیات کے بگاڑ اور بہتری کو نصاب کا حصہ بنا کر قومی سطح پر اس شعور کو اجاگر کیا جائے۔

موسم میں تبدیلی کا عمل اس مہینے کی آخری تاریخوں سے شروع ہو جائے گا۔

سیل فون:۔ 0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں