جمہوری عمل جاری رہنا چاہیے
پارلیمنٹ عوام کے منتخب نمایندوں کا فورم ہے اور آئین کے تحت پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے
KARACHI:
توہین عدالت کیس میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی اور راجہ پرویز اشرف کے بطور وزیراعظم انتخاب کے بعد ملک کے سیاسی و صحافتی حلقوں اور آئینی و قانونی ماہرین کے درمیان یہ بحث کی جارہی تھی کہ کیا راجہ صاحب سوئس حکام کو خط لکھیں یا خط نہ لکھنے کی پاداش میں اپنے پیش رو یوسف رضا گیلانی کی طرح توہینِ عدالت کے مجرم قرار پا کر نااہل ہونے کو ترجیح دیں اور گیلانی صاحب کی طرح سیاسی شہید بننا پسند کریں گے۔
اکثریت کا خیال یہی تھا کہ راجہ پرویز اشرف کو خط نہ لکھنے کی صورت میں نااہلی اور وزارتِ عظمیٰ سے سبک دوشی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس حوالے سے راقم نے اپنے کالم (مورخہ 30 جون 2012) میں لکھا تھا کہ ''صدر نے اپنے اتحادیوں کی مشاورت سے افہام و تفہیم کا مظاہرہ کرتے ہوئے پی پی پی کے ایک اور رہنما راجہ پرویز اشرف کو وزیراعظم بنادیا اور جمہوریت کا کارواں آئینی طریقۂ کار کے مطابق پھر سے رواں دواں ہوگیا، لیکن اندیشے، خدشات، تحفظات اور امکانی خطرات اپنی جگہ موجود ہیں۔
بنیادی سوال تو وہی ہے کہ کیا نئے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سوئس حکام کو خط لکھیں گے؟ جواب یقیناً نفی میں ہے کیونکہ صدر زرداری یہ کہہ چکے ہیں کہ نیا وزیراعظم بھی بے نظیر بھٹو کی قبر کا ٹرائل نہیں ہونے دے گا، تو کیا راجہ صاحب کو بھی جانا پڑے گا اور کیا پھر ایک نیا وزیراعظم آئے گا اور اس کا انجام بھی اپنے پیش رو جیسا ہوگا؟ آخر بات کہاں جا کر ختم ہوگی؟ کیا عدلیہ اپنے طور پر کوئی قدم اٹھائے گی یا کسی آئینی ترمیم کے ذریعے صورت حال کو ''تبدیل'' کیا جائے گا۔
اس حوالے سے حکومتی حلقوں میں یقیناً سوچ بچار ہورہی ہوگی اور جلد صورت حال واضح ہوجائے گی۔''اب اہلِ وطن دیکھ رہے ہیں کہ توہینِ عدالت کیس کے ضمن میں عدالتی مختصر فیصلہ آجانے کے بعد حکومت اور عدلیہ ہر دو فورم پر واضح طور پر صورت حال ''تبدیل'' ہوتی نظر آرہی ہے۔ پہلے حکومت نے پارلیمنٹ سے توہینِ عدالت ترمیمی بل منظور کروایا، جس کا مقصود یہ ہے کہ صدر کے پہلو بہ پہلو وزیراعظم،
وزرائے اعلیٰ اور گورنر صاحبان کو استثنیٰ کا حق حاصل ہوجائے اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جیسے انجام سے بچایا جاسکے۔ توقع کے عین مطابق اس بل کو عدالتِ عظمیٰ میں چیلنج کردیا گیا، جہاں اس کی سماعت شروع ہوئی بعض آئینی و قانونی ماہرین کے مطابق عدالت ترمیمی بل کو مکمل طور پر کالعدم قرار دے گی(ایسا ہی ہوا) جب کہ بعض کا خیال تھا کہ عدالت بل کی بعض متنازع شقوں کو کالعدم کرسکتی ہے یا نظرثانی کے لیے دوبارہ پارلیمنٹ کو بھیج سکتی ہے، بل کو مکمل طور پر ختم نہیں کریگی کیونکہ قانون سازی پارلیمنٹ کا آئینی اختیار ہے۔
موخر الذکر رائے میں موجود وزن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا ۔بعض حلقوں کا یہ استدلال بھی تھا کہ چونکہ پارلیمنٹ عوام کے منتخب نمایندوں کا فورم ہے اور آئین کے تحت پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے، لہٰذا اس کے آئینی حق کو غصب نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں تو یہ بھی ہوا کہ ''فردِ واحد'' کو آئین میں ترمیم کرنے کے اختیارات دے دیے گئے تو کسی کو ملال نہ ہوا۔
آج عوام کے منتخب نمایندے اپنے آئینی اختیارات کے تحت قانون سازی کررہے ہیں تو بعض لوگوں کو پریشانی لاحق ہوگئی ہے کہ کہیں ان کے مفادات کو ٹھیس نہ پہنچے۔ بعض کا خیال ہے کہ پی پی پی اور اس کے اتحادیوں نے ترمیمی بل باقاعدہ پارلیمنٹ سے منظور کرایا ۔ عدالت کو آئین کی تشریح و تعبیر کا اختیار حاصل ہے، جس کے تحت عدالتِ عظمیٰ نے ترمیمی بل کی سماعت کی ۔
تاہم دورانِ سماعت فاضل ججز صاحبان کے ریمارکس پر مسلم لیگ (ن) کے چوہدری نثار علی خان کا جذباتی ردعمل باعثِ حیرت ہے۔ (ن) لیگ کے رہنما تو گلے پھاڑ پھاڑ کر پی پی پی کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں کہ وہ عدالتوں کا احترام نہیں کرتی، ان کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کرتی اور عدالتوں کی توہین و تضحیک کی مرتکب ہوتی ہے۔
لیکن اسی عدلیہ کے معزز ججز صاحبان کے ریمارکس پر چوہدری نثار کا اس قدر شدید اور تند و تیز لہجے میں ردعمل اس بات کی عکاسی کررہا ہے کہ اگر آج (ن) لیگ ''آزاد عدلیہ'' کے محترم ججز کے ریمارکس پر اس قدر آگ بگولہ ہورہی ہے تو اگر کل کسی کیس میں فیصلہ (ن) لیگ کے خلاف آگیا تو وہ کیا حشر برپا کریں گے۔
چوہدری نثار کی شعلہ نوائی کے بعد (ن) لیگ کے پاس عدلیہ کے حوالے سے پی پی پی پر تنقید کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے!دوسری تبدیلی توہینِ عدالت کیس میں سوئس حکام کو وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی جانب سے خط لکھنے اور اس ضمن میں صدر کو آئین کے تحت حاصل استثنیٰ کے حوالے سے عدالتی فورم پر نظر آئی ۔ گزشتہ سماعت کے موقعے پر عدالتی کارروائی کے دوران جسٹس آصف نواز کھوسہ نے اپنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ زرداری صاحب ہمارے بھی صدر ہیں اور اگر ان کو عالمی سطح پر استثنیٰ حاصل ہے تو عدالت اس ضمن میں تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔
انھوں نے مزید فرمایا کہ عدالت وزیراعظم کو گھر بھیجنا نہیں چاہتی اور ریاست کے دونوں ستونوں کے درمیان جو خلیج حائل ہوگئی ہے اس کو پُر کرنا ناممکن نہیں اور اُمید ہے کہ اگلی سماعت یعنی 8 اگست کو کوئی قابلِ عمل حل نکل آئے گا۔مگر اسی دوران مختصر فیصلہ آگیا۔ قبل ازیں اٹارنی جنرل آف پاکستان عرفان قادر نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ موجودہ مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں گے۔
اب تبدیل شدہ سیناریو میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ قانون سازی کے حق پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، توہین عدالت کا نیا بل لائے جانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ملک کے سیاسی و صحافتی حلقوں اور آئینی و قانونی ماہرین کی جانب سے مختلف آرا کا اظہار کیا جارہا ہے۔کاش کہ اس بات کا ادراک پہلے ہی کرلیا جاتا تو حالات اس نہج تک نہ پہنچتے۔
توقع کی جانی چاہیے کہ حکومت اور عدلیہ جمہوری نظام کے استحکام اور ملک کے عظیم تر مفاد کے پیش نظر ایسا حل نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے جس سے راجہ پرویز اشرف وزارتِ عظمیٰ کی ''قربانی'' سے بھی محفوظ رہ سکیں گے اور جمہوری عمل بھی نئے انتخابات کے انعقاد تک جاری رہیگا۔