دوسرے میاں صاحب کی واپسی
اگر جمہوری عمل کو جاری رکھنا ہے تو یہ سیاسی اختلاف جمہوریت کے لیے ضروری بھی ہیں
میاں نواز شریف سیاسی میدان میں ہمیشہ کامیاب ہی رہے اوروہ سیاسی میدان میں سیاسی داؤ پیچ استعمال کرتے ہوئے اپنے سیاسی حریفوں کو مات ہی دیتے آئے ہیں ۔ انھوں نے آج سے کئی دہائیاں پہلے جب سیاست کا آغاز کیا تھا تو اس وقت کے حکمرانوں کی آشیر باد اور ملک کے اعلیٰ ترین منصب بھی ان سے دور نہ رہے تھے پھر اس کے بعد انھوں نے سیاسی میدان میں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا بلکہ آگے سے اور آگے ہی چلتے گئے لیکن یہ بھی ہمارے ملک کے حالات کی بدقسمتی رہی کہ غیر جمہوری طاقتیں تو ملک میں جاری سیاسی عمل میں رخنہ اندازی کرتی رہیں اور جمہوریت اس طرح نہ پنپ سکی جس پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
ملک میں فوجی حکومتوں کی وجہ سے سیاستدان ان فوجی حکومتوں کے عتاب کا نشانہ بھی بنے اور ان کے پروردہ بھی رہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ غیر سیاسی اور غیر جمہوری حکومتوں کو سیاستدانوں نے ہی سہارا دیا اور ان مطلق العنان حکمرانوں کی حکمرانی کے دور کو طوالت بخشی۔
یہ بات بھی ایک کڑوا سچ ہی ہے کہ ہمارے کئی نامور سیاستدان فوج کی گود سے ہی براہ راست سیاسی میدان میں داخل ہوئے اور اگر آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں اور اپنے ذہن پر زور دیں تو ماضی کی فوجی حکومتوں میں یہی چہرے ہی آپ دیکھتے رہے اور جب ایک فوجی حکمران رخصت ہوتا ہے تو سیاست پھر اس کے زیر سایہ رہنے والے سیاست دانوں میں ہی گھری نظر آتی ہے۔
میاں نواز شریف کی سیاست بھی گو مارشل لاء کے دوران ہی شروع ہوئی اور آج تک وہ اس کا طعنہ بھی برداشت کرتے آرہے ہیں لیکن یہ بھی ایک زندہ حقیقت ہے کہ ان کو بطور وزیر اعظم کبھی اپنا معین وقت پورا نہیں کرنے دیا گیا اور مشرف کے مارشل لاء میں تو اگر ان کے غیر ملکی دوست ان کی مدد کو نہ آتے تو میاں نواز شریف کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا تھا لیکن قسمت کے دھنی نواز شریف نہ صرف محفوظ رہے بلکہ جلا وطنی کے بعد تیسری بار پھر ملک کے وزیر اعظم بن گئے لیکن اس دفعہ بھی ان کو اقتدار سے الگ کر دیا گیا مگر ان کی یہ خوش قسمتی رہی کہ وہ خود تو وزیر اعظم کے منصب سے الگ کر دیے گئے لیکن ان کی پارٹی ابھی تک بر سر اقتدار ہے اور میاں نواز شریف کا نامزد کردہ وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایات کے مطابق ہی ملک کی باگ دور سنبھالے ہوئے ہے اور میاں صاحب بالواسطہ حکمرانی کے مزے میں ہیں کہ ان کے وزیر اعظم شاہد خاقان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اصلی وزیر اعظم تو نواز شریف ہی ہیں۔
میاں نواز شریف کی سیاست سے ان کے سیاسی حریفوں کو لاکھ اختلافات ہوں گے کہ سیاست چلتی ہی اختلافات پر ہے اور اگر جمہوری عمل کو جاری رکھنا ہے تو یہ سیاسی اختلاف جمہوریت کے لیے ضروری بھی ہیں جس میں آج کے حلیف کل کے حریف بھی بن جاتے ہیں ۔ جب سے نواز شریف کے خلاف ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے پانامہ کیس کا فیصلہ آیا ہے اور سابق وزیر اعظم ہو گئے ہیں تب سے ان کا سیاسی لب و لہجہ تبدیل ہو گیا ہے اوروہ اب کھل کر ملک کے سیاسی حالات اور اپنی نااہلی کے خلاف اظہار خیال کر رہے ہیں اور اپنے سیاسی حریفوں کو جواب دے رہے ہیںاور ان کے اندازوں کو غلط ثابت کر رہے ہیں ۔
نواز شریف کی نااہلی کے بعد ایک عمومی تاثر بنایا گیا کہ نواز شریف کی سیاست کا اب ملکی سیاست میں عمل دخل ختم ہو گیا ہے، ان کو دباؤ میں رکھنے کے لیے ان کے خلاف نیب میں کیس بھی بنا دئے گئے اور ان کے خاندان میں سیاسی اختلافات کی خبریں بھی زبان زد عام رہیں اور یہ کہا جاتا رہا کہ وہ چونکہ اپنی اہلیہ محترمہ کے علاج کے سلسلے میں لندن میں ہی مقیم رہے اور ان کی پاکستان واپسی مشکل ہو گی۔
واپسی کی صورت میں ان کو پاکستان میں اپنے خلاف بنائے گئے کیسوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور ابھی یہ مناسب وقت نہیں کہ وہ واپس آئیں اور چند روز قبل لندن میں ہونے والے ان کی پارٹی اجلاس میں بھی ان کے قریبی رفقاء کار کا یہی مشورہ تھا کہ وہ اپنی اہلیہ کے علاج کے بعد ہی واپس وطن لوٹیں لیکن نواز شریف نے ان مشوروں کے باوجود وطن واپسی کا دلیرانہ سیاسی فیصلہ کیا کیونکہ وہ یہ بات بارہا کہتے آرہے ہیں کہ انھوں نے کچھ غلط کیا ہی نہیں تو پھر ڈر کس بات کا اور ان کے خلاف کرپشن کا کوئی الزام بھی ثابت نہیں ہو سکا۔
انھوں نے سب سے پہلے تو کامیاب سیاسی حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی سیاسی پسپائی کے متعلق سیاسی مبصروں کے اندازوں کو بے معنی لاجواب کر دیا ہے اور اب وہ اپنے خلاف کیسوں کا سامنے کرنے کو تیار نظر آرہے ہیں کہ ان کیسوں سے بریت کی صورت میں ہی ان کا سیاسی سفر مزید جاری رہ سکتا ہے۔ نواز شریف کی وطن واپسی پر ملکی سیاست کی کیا صورتحال بنے گی کیونکہ ان کی پارٹی کو آیندہ الیکشن میں ان کی اشد ضرورت ہے اور نواز شریف کے بغیر نواز لیگ ختم ہو جاتی ہے اور آنے والے الیکشن میں صرف کارکردگی کی بنیاد پر کامیابی مشکل ہو جائے گی۔
دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف نے اسلام آباد سے لاہور کے سفر کے دوران جس مزاحمتی سیاست کا آغاز کیا تھا کیا وہ اب پھر اس ٹوٹے سلسلے کو وہیں سے جوڑیں گے یا اب کی بار ان کی سیاست کا انداز مختلف ہو گا ۔ایک بات تو بڑی واضح ہو گئی ہے کہ میاں نواز شریف سیاسی میدان سے پیچھے ہٹنے کو بالکل بھی تیار نہیں ہیں، وہ سیاسی میدان میں رہ کر اپنے حریفوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ان کو وزیر اعظم کے عہدے سے تو ہٹایا دیا گیا لیکن ان کی سیاست ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ وہ زور وشور سے سیاسی میدان میں براجمان ہیں اور ان کی پارٹی بھی ان کی پشت پر کھڑی ان کو توانا ئیاںفراہم کررہی ہے۔ دیکھتے ہیں میاں صاحب کی پاکستان اچانک واپسی ملکی سیاست کا کیا رخ متعین کرتی ہیں ، آپ بھی انتظار کریں میں بھی انتظار میں ہوں۔