گھرکی صفائی بات کا بتنگڑ
دیکھا جائے تو یہ کوئی غیر مناسب بات بھی نہ تھی جس کا ہمارے یہاں اتنا بتنگڑ بنا دیا گیا۔
NEW DELHI:
چوہدری نثار کو وزیرِخارجہ، خواجہ آصف کی یہ بات شاید بہت ناگوار گزری جس میں انھوں اپنے اِس عزم کو دہرایا ہے کہ ''ہمیں پہلے اپنے گھرکی صفائی کرنا ہوگی۔'' دیکھا جائے تو یہ کوئی غیر مناسب بات بھی نہ تھی جس کا ہمارے یہاں اتنا بتنگڑ بنا دیا گیا۔
دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک اسکول میں ہونے والی بھیانک اور افسوناک واردات کے بعد ہماری عسکری اور سیاسی قیادت نے جب مل بیٹھ کر سارے ملک میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا تو یہ کیا تھا۔ یہ گھر کی صفائی نہیں تھی تو اورکیا تھی۔اُس وقت تو ہم نے اُس کا عالمی سطح پر بڑا ذکر اورچرچاکیا اورابھی تک کر بھی رہے ہیں۔ بلکہ یہ کہا جائے تو شاید غلط اوربے جا بھی نہ ہوگا کہ اُس کی کامیابیوں کاکریڈٹ سابق وزیرداخلہ بڑی شد ومد کے ساتھ اپنے ہی نام لکھاکرتے تھے۔
تماشہ نہ بنانے کا خیال ہمیں اُس وقت کیونکر نہ آیا۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت 'ضرب عضب' کے نام سے شروع کیا جانے والا آپریشن دیکھا جائے تو اپنے ملک سے دہشتگردی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے لیے ہی تو کیا گیا تھا اور جس کے بعد ساری دنیا نے دیکھا کہ ہماری قوم نے اپنی افواج کے ساتھ مل کر بڑی دلیری سے ایک نئے عزم اور ایک نئے حوصلے سے صرف دو سال کے مختصر عرصے میں دہشتگردوں کے سارے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کیا۔ ہمارے لوگ جواِس آپریشن سے پہلے سیکڑوں کی تعداد میں روزانہ مارے جارہے تھے۔
خود کش حملہ آور جب چاہتے ہماری املاک اور ہمارے لوگوں کو بم دھماکوں کا نشانہ بناکر ہم سے ہماری اُن مہربانیوں کو بدلہ چکا رہے ہوتے تھے جو تیس پینتیس سال پہلے جنرل ضیاء کے دور میں ہم نے اُن پر کی تھیں۔ ایک سپر طاقت کی ہمارے سمندروں تک رسائی کا خود ساختہ خوف پیدا کرکے افغانستان میں لڑنے کے لیے جو مجاہد اورگوریلا فورس ہم نے تیار کی تھی وہ وہاں فتح وکامرانی حاصل کرنے کے بعداب واپس اپنے بیرکوں میںجانے کو تیار نہ تھی۔ اُس نے اب ایک خوفناک مسلح دہشتگرد تنظیم کا روپ دھار لیاتھا اور تو اور ہم نے اپنے نو جوانوں کو بھی جہاد کا فلسفہ پڑھا کر اِس پرائی آگ میں جھونک ڈالا۔
کم عقل اور ناسمجھ لوگوں کے علاوہ اعلیٰ تعلیم یافتہ پڑھے لکھے نوجوانوں کی بھی کھیپ تیارکرکے ہم نے ایک جنرل کے دور میں پڑوسی ملک افغانستان بھیجا اور بدقسمتی سے پھر ایک دوسرے جنرل کے دور میں اُنہی نوجوانوں اوراُن کے رشتے داروں کو پکڑ پکڑکر نشانہ عبرت بنا دیا۔ ڈاکٹراکمل برادران اوراُن کی خاندان کے ساتھ جنرل پرویز مشرف کے دور میں کیا کچھ نہیں ہوا۔ افغانستان میں جہاد کرنے والے مجاہدین کی دیکھ بھال اور علاج کے لیے سرکار کی ایماء پر بھیجے جانے والے اِن ڈاکٹروں اوراُن کی فیمیلیوںکو بعد ازاں چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی کہانی بھی اِنہی ادوار کی بے رحمی اور بے حسی کی منہ بولتی تصویر ہے۔
ایک جنرل جہاد کی ترغیب دے کر انھیں لڑنے اور مرنے پر آمادہ کرتا ہے جب کہ دوسرا جنرل انھیں دہشتگرد قرار دے کر نہ صرف گرفتارکرلیتا ہے بلکہ دشمنوںکے ہاتھوں فروخت کرکے خود اپنے لیے ڈالرز بھی کماتا ہے۔ حکومتی سطح پر پالیسیوں میں اتنا بڑا تضاد اور فرق شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں پایا جاتا ہو جتنا ہمارے یہاں اب تک دیکھا گیا ہے۔ یہ ساری پالیسیاں اب تک کون بناتا آیا ہے اورکون اِن سب کاذمے دار ہے۔یہی بات ہماری قوم ہمارے احباب اور ہمارے دانشوروں کے سوچنے اور سمجھنے کی ہے۔
دوسروں کی لڑائی میں خود کو بلاوجہ اور زبردستی ملوث کرنے کا خمیارہ ہمیں اپنی تباہی کی شکل میں ملا۔ ہمارا امن وسکون تباہ وبرباد ہوگیا۔ ہماری مالی اورمعاشی حالت ابتر اور دگرگوں ہوگئی۔دنیا ہمیں ایک خطرناک ملک سمجھنے اور کہنے لگی۔ کرہ ارض پر جہاں کوئی دہشتگردی کے واردات ہوتی اُس کے تانے بانے ہمارے وطن عزیز سے جوڑے جانے لگے۔کوئی ملک یہاں سرمایہ کاری کو تیار نہ تھا۔ لوگ یہاں آتے ہوئے خوف کھانے لگے۔ سفارتی تنہائی ہمارا مقدر بن کررہ گئی۔ کرکٹ اور دیگر کھیلوں کا اپنے یہاں انعقاد ناممکن بن چکا تھا۔ دس بارہ سال اِسی کشمکش میں گزر گئے۔
دنیا ترقی کرتی رہی او ر ہم دہشتگردی کی آگ میں جھلستے رہے۔اب جب ہم نے صحیح معنوں میں اپنے گھر کی صفائی کا تہیہ کیا اور ضرب العضب اورردالفساد جیسے آپریشن شروع کیے تو اُس کے نتائج اورثمرات بھی سامنے آنے لگے۔ابھی بھی اکا دکا واقعات کبھی کبھی ہوجاتے ہیں۔اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ دہشتگردوں کی معاونت کرنے والی کچھ تنظیمیں ابھی تک قائم ودائم ہیں۔ہمارے کچھ مہرباں لوگ اُن پرہاتھ ڈالنے سے دانستہ وغیر دانستہ گریزاں ہیں۔
جس طرح ایک زمانے میں پسند اور ناپسند دہشتگردوں میں تفریق کے لیے گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی اصطلاح تخلیق کی گئی تھی اِسی طرح اب بھی کچھ پسندیدہ جہادی تنظیموں کی درپردہ حمایت اور سرپرستی کی جارہی ہے چہ جائیکہ ضرورت پڑنے پر شاید انھیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکے۔لاہور کے حلقہ 120کے حالیہ ضمنی الیکشن میں''ملی مسلم لیگ'' بناکراس کاچھوٹا سا تجربہ بھی کیا گیا لیکن خدا کی مہربانی اورعام لوگوں کی بصیرت اور دانشمندی سے یہ بیل کچھ زیادہ پروان نہیں چڑھ سکی۔
وطن عزیز کی خیر خواہی کاسوچنے اور سمجھنے والوں اورہمارے پالیسی سازوں کو اب یہ حتمی فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کیا واقعی اپنے ملک کو امن وآشتی کاگہوارہ بنانا چاہتے ہیں یا پھرہمیشہ کی طرح اِس ملک میں سانپ اورسیڑھی کا کھیل جاری وساری رکھنا چاہتے ہیں۔ سیاسی مصلحتوں اورمجبوریوں کے تحت کیے جانے والے فیصلے کبھی پائیدار اور سود مند نہیں ہواکرتے۔
امریکا اور اُ س کے حواریوں کی چھوڑیے وہ تو ہمیں ہمیشہ ڈومور کی تاکید اور تنبیہ کرتا رہتا ہے لیکن کیا یہ بات ہمارے لیے کسی فکر اور تشویش کا باعث نہیں بنتی کہ آج ہمارا سب سے اچھا اور پرخلوص دوست چین بھی اِس معاملے میں ہماری اندھی تقلید اور حمایت پر خود کو مجبور نہ کرسکا اور اپنے یہاں منعقد ہونے والی پانچ ملکی کانفرنس میں ہمارے یہاںکچھ کالعدم جہادی تنظیموں کی سرپرستی کیے جانے پر خاموش اورچپ نہ رہ سکا۔
کانفرنس کے اختتام پر جاری کیے جانے والی مذمتی قرارداد اور اعلامیہ پرچار وناچار اُس نے بھی دستخط کردیے۔اب اگر ہمارا وزیرِ خارجہ دنیا کے اِس بدلتے ہوئے رنگ اور مزاج کو بروقت بھانپتے ہوئے اپنے گھرکی صفائی کو اہمیت اور ترجیح دینے کا کہتا ہے تو اِس میں برائی اور حرج ہی کیا ہے۔ یہ صرف ایک شخص کا بیان نہیں تھا۔ اِس کی توثیق تو ہمارے وزیر اعظم اوروزیرداخلہ نے بھی کی ہے۔
ہوسکتا ہے خواجہ آصف سے کسی کی دشمنی اور ناچاکی بہت پرانی ہو اورشاید اِس لیے انھیں اُن کی کوئی ادااچھی نہ لگتی ہو۔لیکن کیا ہمارے نئے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی سوچ بھی ملک دشمنی اورغداری پر مبنی ہے۔ہم کب تک شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپا کر حقائق سے نظریں چراتے رہیں گے۔کالعدم تنظیموں کی درپردہ سرپرستی اور پرورش کرکے ہم اپنی نسلوں کو محفوظ بنانے کی بجائے اُسے کب تک مستقل خطروں میں گھرا رکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اب یہ جان لینا چاہیے کہ ضرب عضب اور رد الفساد جیسے آپریشن اُس وقت تک مکمل کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتے جب تک ساری کلعدم تنظیموں کا خاتمہ نہ کردیا جائے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ضرب عضب کے بعد رد الفساد نامی آپریشن کی ہمیں ضرورت اور حاجت ہی کیوں پیش آئی۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل کی سرپرستی میں کیا جانے والا آپریشن ضرب عضب اگر اپنے مقررہ ٹارگٹ اور اہداف پورے کرلیتا تو شاید ہمیں آج رد الفساد نامی آپریشن شروع کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ہم ہمیشہ سانپ کو زخمی کرکے اُسے زندہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اُسے مکمل جان سے نہیں مارتے اور یہی کمزوری ہمارے لیے دائمی مصیبت کاباعث بنی رہتی ہے۔