سانحات کا تسلسل
قتل، بھتہ، اغوا، تشدد، قہروجبر جیسی قبیح برائیاں پورے ملک میں پھیل چکی ہیں، ان کا خاتمہ کب ہوگا؟ کسی کو نہیں معلوم۔
پورے پاکستان میں حالات جوں کے توں ہیں بلکہ ہر روز جبروتشدد میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے، کسی بھی شخص کو تحفظ حاصل نہیں ہے، امیر ہو یا غریب، اعلیٰ عہدے پر فائز ہو یا ادنیٰ مقام پر، سیاست سے وابستگی ہو یا بے چارہ سیاست کی الف، ب سے بھی واقف نہ ہو، حال سب کا ایک سا ہی ہے، سب ہی خوف و ہراس کی دھوپ میں جھلس رہے ہیں، سفر ہو یا حضر خطرات دامن گیر ہوچکے ہیں، پورا شہر افراتفری اور بے چینی کی کیفیت میں مبتلا ہے۔
پچھلے دنوں سفر کے دوران میں نے ایسے چہرے دیکھے جن پر کرب اور اس بے یقینی کی کیفیت نمایاں تھی کہ کہیں موت ان کے تعاقب میں تو نہیں ہے، مجھے اپنے کسی عزیز کے انتقال کے موقع پر ان کے گھر جانا تھا، ناظم آباد کے پل پر تقریباً گھنٹہ بھر ٹریفک جام رہا۔ پل کے دونوں طرف گاڑیاں، رکشے، ٹیکسی، موٹرسائیکلیں کھڑی تھیں، تمام گاڑیاں اسٹارٹ ہونے کی وجہ سے قیمتی ترین شے پٹرول کا بھی زیاں ہو رہا تھا، سب کے چہرے ایک جیسے تھے، فائرنگ کا خوف، گولی لگ جانے کا خوف، ڈکیتی کا خوف، دہشت گردوں کے آنے کا خوف چہروں سے عیاں تھا۔
اس ٹریفک میں بے شمار بزرگ حضرات بھی تھے، نوبیاہتا جوڑے بھی تھے اور موٹرسائیکلوں پر وہ لوگ بھی سوار تھے، جن کی بائیک پر ماں، باپ کے ساتھ ان کا پورا کنبہ لدا ہوا تھا، کہیں چار بچے تو کہیں تین یا پانچ۔ سرد موسم ہونے کے باوجود انجن اسٹارٹ ہونے کے باعث تمازت میں اضافہ ہوچکا تھا۔ بہت سے لوگ چونک چونک کر ادھر ادھر دیکھ رہے تھے، چونکہ کہیں دور سے گولیوں کی تڑتڑاہٹ کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں، امن، چھیپا اور ایدھی کی ایمبولینسیں مسلسل سائرن بجارہی تھیں، لیکن ٹریفک تھا کہ کھلنے کا نام نہیں لے رہا تھا، نہ ٹریفک کانسٹیبل نہ کوئی اور وہ اشخاص جو راہ چلتے فلاحی کام کرتے ہیں اور فلاح پاتے ہیں، بے یارومددگار قافلہ منتظر تھا کہ کب ٹریفک چلے۔ نہ معلوم کس بات کی سزا عوام بھگت رہے ہیں۔
اس قسم کے حالات آئے دن، ہر سڑک اور شاہراہ پر رونما ہوتے ہیں، ایک طرف ٹریفک جام اور دوسری طرف برسات کا پانی جمع ہے، تیسری طرف موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈاکو آن دھمکتے ہیں اور ہر شخص سے اسلحے کے زور پر ان کا قیمتی اثاثہ ہتھیا لیتے ہیں۔ ان مواقعوں پر نہ رینجرز کا پتہ ہوتا ہے اور نہ پولیس کا، اسی لیے اپنی مدد آپ کے تحت چوروں اور ڈاکوؤں کی ٹھکائی کی جانے لگی ہے کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
موجودہ دور میں حالات عوام کے حق میں اس قدر کشیدہ ہوگئے ہیں کہ کہیں گوشہ عافیت نظر نہیں آتا ہے، چوروں، ڈاکوؤں، دہشتگردوں کا راج ہے جہاں نگاہ جاتی ہے وہاں تخریب کاری ہے، پرسوں ہی کی بات ہے کہ کورنگی میں ایک دو نہیں بلکہ ڈاکوؤں کی فوج جو تیس ڈاکوؤں پر مشتمل تھی رات کی تاریکی میں ڈاکا ڈالا گیا، واقعہ کچھ یوں ہے کہ کورنگی زمان ٹاؤن میں واقع ایک اینی میشن ہاؤس جہاں تیس ڈاکوؤں نے ملازمین سے نقدی و موبائل فون، سیکیورٹی گارڈ سے اسلحہ چھینا اور دفتر میں موجود لاکھوں روپے مالیت کے کمپیوٹر لوٹ کر بڑی آسانی کے ساتھ فرار ہوگئے۔ اس واردات میں ڈھائی گھنٹے لگے، اس عرصے میں اگر پولیس گشت پر ہوتی تو اتنی بڑی کامیابی ہرگز نہ ہوتی۔ لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ ڈاکوؤں کو ذرا برابر بھی فورسز کا خوف نہیں ہے۔ دہشت گرد کھلے بندوں گھوم رہے ہیں، کوئی انھیں گرفتار کرنے والا نہیں۔
سانحہ کوئٹہ کی یاد دہشت گردوں نے دوبارہ تازہ کردی۔ اتنے بڑے حادثے پر مسلمان تو مسلمان غیر مسلموں تک کے دل دہل گئے ہیں۔ سانحہ کوئٹہ پر روسی صدر ولادی میر پوتن نے صدر زرداری کو خط لکھا ہے جس میں دہشت گردی کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور اسے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کارروائی قرار دیا گیا ہے۔ روسی صدر نے کہا کہ ان کا ملک دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف پاکستان کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کی حمایت کرتا ہے، روسی صدر نے جاں بحق افراد کے لواحقین سے بھی بذریعہ تحریر اظہار تعزیت کیا۔ طاہر القادری، پرویز مشرف اور عمران خان نے کوئٹہ کو فوج کے حوالے کرنے کی حمایت کی ہے۔ آئے دن ہزارہ برادری کو خون میں نہلایا جاتا ہے۔ پچھلے حادثے میں مرنے والوں کا ابھی چالیسواں بھی نہیں ہوا کہ ایک تازہ غم پھر آگیا۔
اس کا مطلب کیا ہے؟ یہی کہ حکومت امن قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے اور حالات و واقعات کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ عوام کو درندوں کے آگے ڈال دیا گیا ہے، وہ بھی ہاتھ پیر باندھ کر، جیو یا مرو، حکومت کی بلا سے۔ اسی وجہ سے قاتلوں اور جرائم پیشہ افراد کے حوصلے بلند ہیں، وہ جب چاہتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں یا تو اغوا کرلیتے ہیں یا پھر موت کے گھاٹ اتاردیتے ہیں۔ کراچی کی سڑکیں خون سے آلودہ ہوچکی ہیں، روز باقاعدگی کے ساتھ ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے کوئی بھی اتنا بااختیار نہیں ہے جتنا کہ بااختیار دہشت گرد ہیں، انھیں نہ معاشی دکھ ہے اور نہ سزا کا خوف، ہر طرح سے ان کی امداد جاری رہتی ہے اور وہ تازہ دم رہتے ہیں، ان کے حوصلے پست نہیں ہوتے، ان سے اچھے تو وہ غیرمسلم سپاہی ہیں جو افغانستان اور کشمیر میں نہتے مسلمانوں کو مارتے مارتے تھک چکے ہیں۔ اسی لیے وہ ذہنی مریض بن گئے اور کچھ اس خونی کھیل سے اس قدر تنگ آگئے کہ انھوں نے خودکشی کرنا شروع کردی، بے شمار امریکی و ہندوستانی فوجی خودکشی کرچکے ہیں، وہ جانتے تھے وہ ظلم کر رہے ہیں، لمحہ بھر میں ہنستی کھیلتی زندگی کو بے دردی کے ساتھ موت کے کنوئیں میں دھکیل دیتے ہیں کہ ان کے باس کا یہ حکم ہے، لہٰذا اس سفاکی سے بچنے کے لیے انھوں نے خودکشی کو ترجیح دی کہ یہی واحد حل تھا۔
سانحہ کوئٹہ نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ، ہر جگہ دھرنے دینے والے غمزدہ لوگ سڑکوں پر بیٹھے رہے، اسی وجہ سے راستے بند ، اسکول بند، دفاتر بند، پورے ملک کا نظام درہم برہم ہوگیا تھا ، اب جو پرائیویٹ ملازمین ہیں وہ اپنی فیکٹری اور کارخانوں میں نہیں پہنچ پاتے ہیں، غیر حاضری کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قلیل تنخواہ میں سے بھی مالکان تنخواہ کاٹ لیتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ فیکٹری مالکان کو انسانیت کی بقا کے لیے نرم گوشہ رکھنا چاہیے، کیا انھیں نہیں معلوم کہ ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب ہوگئی تھی ، راستے بند تھے ؟ تو اس صورت میں وہ کس طرح سائٹ ایریا یا دوسری جگہوں کا رخ کریں؟ یہ ان کی بہت بڑی مجبوری ہے، ایک طرف مہنگائی اور بے روزگاری ہے تو دوسری طرف مالکان کا ظلم ہے۔ پرائیویٹ اداروں کے برعکس سرکاری ادارے ایسا نہیں کرتے ہیں، سرکاری محکموں میں نوکری سے نکالے جانے کا خطرہ اس وقت تک لاحق نہیں ہوتا جب تک کہ کوئی سنگین غلطی سامنے نہ آئے۔
بچیوں کا قتل بھی رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اسلام آباد میں بھی غریب محنت کشوں کی بچی کو اغوا کرکے قتل کردیا گیا اور ظلم کی حد ادھر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ ظالموں نے اس کی لاش کو (ثبوت مٹانے کے لیے ) جلا بھی دیا۔ چیف جسٹس نے اس کیس کا بھی نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی امیرزادی ہوتی تو سارا پولیس ڈیپارٹمنٹ ہل جاتا، لیکن ایک غریب کی بچی مری ہے، انھوں نے کہا کہ پولیس یہ دیکھے کہ اسلام آباد شہر کی بچی بے دردی سے قتل ہوئی ہے، اس کو ایک غریب بچی کا کیس نہ سمجھا جائے، بے شک سب انسان برابر ہیں۔ سانحات ہیں کہ رکنے کا نام نہیں لیتے، قتل، بھتہ، اغوا، تشدد، قہروجبر جیسی قبیح برائیاں پورے ملک میں پھیل چکی ہیں، ان کا خاتمہ کب ہوگا؟ کسی کو نہیں معلوم۔