عاشق البدوی کچھ ان کہی باتیں
’اے گلاب کے پھول… تو کتنا خوبصورت لگتا ہے۔ مجھے تو بہت پیارا لگتا ہے۔ تجھے مسل کر… میں پھینک دینا نہیں چاہتا۔
یہ جان کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ ہمارے قارئین نہایت باشعور اور احساس ذمے داری رکھتے ہیں۔ کچھ عرصے پہلے جب ہم نے اپنے مرحوم کالم نگار عاشق حسین البدوی کی رحلت سے متعلق کالم لکھا تو ان کے معتقدین اور چاہنے والوں نے فوراً رابطہ کیا اور ہماری التماس کے جواب میں عاشق بدوی سے متعلق معلومات اور وہ خطوط و نسخہ جات ہمیں بھجوائے جو بدوی مرحوم نے انھیں ارسال کیے تھے۔ انشاء اﷲ آیندہ آنے والے کالموں میں ہم ان نسخوں اور خطوط کے اقتباسات پیش کریں گے، فی الحال عاشق بدوی مرحوم کے ایک مختصر تعارف کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔
عاشق البدوی 30 جون 1947 کو شکارپور سندھ میں پیدا ہوئے۔ عاشق بدوی کی بہن ڈاکٹر یاسمین ایڈووکیٹ نے بتایا کہ بدوی مرحوم کو بچپن سے ہی مطالعے کا شوق تھا، اور اپنے شوق کی تکمیل کے لیے وہ کتابوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے تھے۔ بقول ڈاکٹر یاسمین، عاشق بدوی نے دنیا جہان کی نادر و نایاب کتابوں کا ذخیرہ کیا ہوا تھا اور اپنی ذاتی لائبریری کے مالک تھے، ان کتابوں میں دنیا بھر کی زبانوں کا لٹریچر موجود تھا، اردو و سندھی ادب کے علاوہ انگریزی زبان کی معروف کتابیں بھی ان کی لائبریری میں شامل تھیں، (افسوس عاشق بدوی کے بعد یہ کتابیں صحیح قدردان سے محروم ہوگئیں)۔ عاشق بدوی نے لیاقت میڈیکل کالج جامشورو سے ایم بی بی ایس کیا جب کہ وہ ڈرماٹولوجی، رفیوجی میڈیسن، ایڈکشن اور ہولیسٹک میڈیسن کے اسپیشلسٹ تھے۔
عاشق حسین کو انگلش، فرینچ، عربی، سندھی، ہندی، پنجابی، سرائیکی، بلوچی اور اردو زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ وہ AMDA انٹرنیشنل جاپان اور Mensa انٹرنیشنل لندن کے ممبر بھی رہے اس کے علاوہ وہ اپنی سوشل تنظیم عنخ فائونڈیشن کے فائونڈر چیئرمین کے علاوہ اینٹی نارکوٹکس فورم اسلام آباد کے سابقہ جنرل سیکریٹری بھی رہے۔ عاشق حسین البدوی کی طبع شدہ کتابیں زیادہ تر سندھی زبان میں ہیں جن میں چونڈ شاہکار کہانیون (1982)، چمڑی جون بیماریوں (1987)، طواسین (منصور حلاج) ترجمہ و شرح، تصوف جون تجلیون، جب کہ ماہنامہ سوجھرو میں شایع ہونے والا قسط وار سفرنامہ کش باش شامل ہیں۔
اس کے علاوہ عاشق بدوی کا غیر مطبوعہ کام بھی قابل ذکر ہے جن میں مشہور کتابوں کا سندھی میں ترجمہ و شرح شامل ہے، ان کتابوں میں فصوص الحکم ابن عربی، شجرت الکون ابن عربی، گلشن راز محمود شبستری، لوائح عبدالرحمن جامی، Tao Ching، I Ching، رچرڈ ولیم کی کتاب دی سیکرٹ آف گولڈن فلاور، The Book of Chaung Tsu، دی اسٹوری آف چائنیز فلاسفی کے سندھی تراجم شامل ہیں۔
عاشق حسین البدوی نے نثر کے ساتھ شاعری کی صنف میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی ایک سندھی نظم کا ترجمہ جو ہمیں ج، ع منگھانی نے بھیجا ہے یہاں پیش خدمت ہے۔
''اے گلاب کے پھول... تو اپنی جگہ پر... کتنا خوبصورت لگتا ہے... ﷲ مجھے تو بہت پیارا لگتا ہے... تجھے توڑ، مسل کر... میں پھینک دینا نہیں چاہتا ہوں... یہ میں تمہاری توہین سمجھتا ہوں... تو جب مسکرا کر مجھے دیکھتا ہے... تو میرے دل میں، ایک ٹھنڈک سی... اتر جاتی ہے اور میں، اترانے لگتا ہوں... اب اگر ہم جدا ہو بھی جائیں!... تنہائیاں ہمارا مقدر بن بھی جائیں... تو اے جاناں!... یہ ہی لمحے، یہ ہی سب روح کے رشتے... یہ سارے حسن کے سمبندھ... یہ سب خوشبو بھرے پل... ہمیشہ ساتھ ہوں گے ، اور... جنم جنم میں، ہر اک راہ میں... یہ پیار کے شاہد اور محافظ رہیں گے۔''
عاشق البدوی مرحوم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہم نے ان کی جگہ نفسیات و مابعد نفسیات اور سری علوم کے حوالے سے یہ کالم شروع کیا ہے، آیندہ آپ بدوی صاحب کے تذکرے کے ساتھ کچھ نئی تحقیقات اور نفسیات کے حوالے سے کردار سازی سے متعلق بھی پڑھیں گے۔
''اگر انسان کی عظمت کو اس کی خوبیوں کے حوالے سے نام دیا جائے تو یہ اس کی جرأت، وسعت نظری اور فراخدلی میں ملے گی۔ یہ خوبیاں شاید ابتدا میں اتنی اہم نظر نہ آئیں لیکن ذرا غور کیجیے کہ ان میں کتنی گہرائی اور پروان چڑھنے کی صلاحیت ہے۔ ایک کشادہ ذہن کی تعلیم کبھی ختم نہیں ہوتی۔ پھر فراخدلی، اس کو اپنے قریب آنے والے لوگوں کے دل کی گہرائیوں میں جھانکنے کے قابل بناتی ہے۔ وہ ان کی دھڑکنوں کو محسوس کرسکتا ہے، ان کے دکھ درد کو سمجھنے کی صلاحیت کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کے دل میں ہمدردی کا جذبہ کتنا ہے۔ اس کے علاوہ اور کون سا جذبہ ہے جو ہمیں خودغرضی سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ اس کشادہ دلی میں جرأت کو اور شامل کردیجیے۔ اب آپ کے سامنے ایک ایسا انسان ہے جو ہر صورت میں خود پر قابو رکھ سکتا ہے، ہر آزمائش میں ثابت قدم رہ سکتا ہے، اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرسکتا ہے اور مختصراً وہ تمام صلاحیتیں بروئے کار لاسکتا ہے جو ہمدردی اور کشادہ ذہنی نے اس میں ودیعت کی ہیں۔''
سر آرتھر ہلیس نے اپنے اس خوبصورت پیغام میں ہمیں زندگی کی حقیقی عظمتوں سے روشناس کرایا ہے۔ بلاشبہ ہمدردی تمام مسائل کا حل ہے، اس کے بغیر نہ ہم کسی دوسرے کا درد محسوس کرسکتے ہیں اور نہ انسانی عظمت کی سیڑھیاں طے کرسکتے ہیں۔ حسد، غصہ، انتقام اور بغض، وہ منفی جذبات ہیں جو انسان کو تنگ نظر، تنگ دل اور بے رحم بنا دیتے ہیں۔ وہ ہر لمحہ ان کی آگ میں جلتا رہتا ہے، کسی کو خوش دیکھ کر حسد کرتا ہے تو کسی کی کامیابی پر اپنی محرومیوں کا غم کرتا ہے لیکن اپنی شخصیت اور حالات کو بہتر بنانے کے لیے کچھ نہیں کرتا۔ محبت، حسن سلوک، اخلاق، دوستی، نیکی اور خدا ترسی کا جذبہ صرف اس انسان میں ہوتا ہے جو ہمدردی کے احساس سے سرشار ہو، جس کا ذہن کشادہ اور دل فراخ ہو۔ ایسا انسان دوسروں کی کامیابی پر حسد نہیں کرتا، ان سے رہنمائی حاصل کرتا ہے ۔
کسی کی محرومی و ناکامی پر خوش نہیں ہوتا، اس کی مدد کرتا ہے۔ دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہوتا ہے اور ان کے دکھ درد کو بانٹتا ہے۔ خدمت اور سلوک کرکے مسرت محسوس کرتا ہے اور یہی خوبیاں اسے ہر دلعزیزی اور عظمت کے مرتبے سے ہمکنار کرتی ہیں۔ نفسیات ومابعد نفسیات کے کئی پہلو ہمیں انسانی جذبوں کو سمجھنے کا شعور عطا کرتے ہیں، زندگی کے تاریک اور بدنام گوشوں سے متعارف کروا کر کردار کے تاریک اور روشن پہلوئوں سے روشناس کراتے ہیں، منفی فکر و جذبوں سے نجات دلا کر زندگی کو تعمیری راہوں پر گامزن رکھنے اور ہر دلعزیزی، شادمانی اور کامرانی کی منزل سے ہمکنار کرنے کا درس دیتے ہیں۔ انشاء اﷲ اگلے کالم میں ہم نفسیات کے حوالے سے کردار سازی کی وہ مشقیں پیش کریں گے جو اس پرپیچ شاہراہ حیات پر آپ کو روشن خیالی کے ساتھ آگے بڑھنے میں مہمیز کا کردار ادا کریں گی اور انسانی عظمت کی اس منزل تک پہنچائیں گی جس کے ہم سب آرزو مند ہیں۔