اسٹیٹ بینک میوزیم
اسٹیٹ بینک میوزیم پاکستان کا پہلا میوزیم ہے جو انٹرنیشنل کونسل آف میوزیم کا ممبر ہے۔
بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ دنیا کے تمام جھگڑے زن، زر اور زمین کی خاطر ہوتے ہیں اور یہ کھرا سچ بھی ہے مگر ہمارے خیال میں تو اس کی خاص الخاص وجہ زر ہی ہے کیونکہ زرکی وجہ سے ہی زیور بھی آتا ہے اور زن بھی۔ ہمارے قارئین کو یہ تو پتہ ہی ہے کہ آج کل ہم ایسے کورس کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں جس کی بدولت ہمیں تو بلیو وہیل گیم بھی کچھ ہلکا ہی معلوم ہو رہا ہے۔ پے در پے اسائنمنٹ کی بھرمار نے تو ہمیں لگتا ہے کہ دنیا کے سارے ٹاسک پورے کرنے کے قابل بنادیا ہے ایک بھی ختم ہونے نہیں پاتا کہ دوسرا نازل ہوجاتا ہے اور سلسلہ ہے کہ دراز ہی دراز ہو رہا ہے اور ہمیں تو لگنے لگا ہے کہ
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
ERDC کے سلمان آصف ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں، جن کے سائے تلے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے، ایک الوہی سی مسکراہٹ ہے جو ان کی شخصیت کا دائمی حصہ لگتی ہے مگر اس مسکراہٹ کے پردے میں وہ ایسے ایسے سوالات کا بار گراں ہمارے اوپر لاد دیتے ہیں کہ فرار ممکن ہی نہیں رہتا۔ اس دفعہ حکم ہوا کہ ایک فیلڈ ٹرپ تشکیل دیا جائے سب خوش ہو گئے کہ لوجی کچھ دیر تو ان اسائنمنٹ سے نجات ملے گی مگر یہ کیا چار سوالوں کا ایک سلسلہ ہمیں تھما دیا کہ جی جایے اور ان سوالوں کے جوابات ہمیں لاکر دیں۔
اب ہم نہ تو داستانوں کی شہزادی یا شہزادے تو تھے نہیں کہ ہمارے رونے دھونے پرکوئی امیر حمزہ کوئی حاتم طائی ہمارے سوالوں کے جوابات تلاش کرکے لاتا اور ہم سرخرو ہوتے جوکچھ کرنا تھا ہمیں ہی کرنا تھا۔ فرار اس سے ممکن نہ تھا اور واقعی جس جگہ ہمیں لے جایا گیا تو وہ جگہ ایسی تھی کہ یہاں بار بار خود بھی آئیں اور دوسروں کو بھی دعوت دیں۔ آج کا کالم ہم اس لیے اس جگہ کے نام کر رہے ہیں کہ ہمارے شہر کے بچے جوکہ گولیوں، حادثوں، ٹریفک جام، دہشتگردی تو روز کے معاملات ہیں جو ان کی نوک زباں پر رہتے ہیں، مگر تفریحی اور تحقیقی جگہوں پر جانا اب کالعدم اس لیے ہوچکا ہے کہ کچھ والدین کچھ علمی درسگاہوں کے مالکان اتنے خوفزدہ ہوچکے ہیں کہ بچوں کو تدریسی مواد کی بھرمار سے تو لب دم کر رہے ہیں مگر ایسی تفریحات سے محروم کر رہے ہیں جوکہ ان کے سیکھنے کے عمل کو دو چند کردے۔
آج کا دور صرف ایسی تعلیم فراہم کررہا ہے جوکہ صرف اور صرف امتحانی نکتہ نگاہ سے تو شاید بہتر ہو مگر باقی معاملات کی نشان دہی نہیں کر پارہا تو یہ فیلڈ ٹرپ جس میں ہم اور ہمارے ساتھی رواں دواں تھے یہ تھا اسٹیٹ بینک میوزیم۔ ایک تاریخی عمارت میں بنا ہوا ہے۔
اس میوزیم کی ڈائریکٹر ہما ابراہیم نے جس طرح سے اس کے نظم و نسق کو سنبھالا ہوا ہے وہ دیکھنے اور محسوس کرنے کی چیز ہے۔ عمارت میں داخل ہوتے ہی ایسی کیفیت کا شکار ہوجاتے ہیں جوکہ محسوس کی جاسکتی ہے بیان نہیں۔ اسٹیٹ بینک میوزیم پاکستان کا پہلا میوزیم ہے جو انٹرنیشنل کونسل آف میوزیم کا ممبر ہے۔
مرکزی ہال میں داخل ہوتے ہی سکوں اور بینکنگ کے ارتقا کی کہانی سمجھ میں آنی شروع ہوجاتی ہے کہ کس طرح انسان ترقی کرتے کرتے بینکنگ کے جدید نظام کی طرف آگیا ہے کہ پتھر کے دور میں چیزیں بارٹر سسٹم کے تحت ایکسچینج کی جاتی تھیں، تجارت اسی طرح ہوتی تھی کہ کچھ چیزیں ہمارے پاس موجود ہیں وہ ان لوگوں کو دے دی جاتی تھیں جن کو ضرورت ہوتی تھی اور ان سے وہ چیزیں لے لی جاتی تھیں جن کی ہمیں ضرورت ہوتی تھی۔
یہاں کرنسی کے بنانے کے طریقہ کار کو بھی واضح کیا گیا اور اس منظر کو ہم نے بھی بغور دیکھا کیا معلوم ہمیں کرنسی بنانا آجائے تو پھر پیسہ ہی پیسہ ہمارے چاروں طرف ہوگا مگر یہ اور بات کہ اس کی اہمیت کو شاید دنیا تسلیم نہ کرے۔ مرکزی ہال کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں مشہور آرٹسٹ آغا گل جی کا کیلی گرافی کا شاہکار پورا قرآن پاک موجود ہے جو یہ بات یاد دلانے کے لیے کافی ہے کہ رہے نام اللہ کا باقی ہر چیز فانی ہے۔
ایک اہم حصہ گورنرز گیلری ہے، اس میں سبکدوش گورنرز کے تصویری خاکے دیوار پر نصب ہیںجس میں ان کی معیاد ملازمت، دستخط اور تحریروں کو رکھا گیا ہے۔ یہ حصہ طلبا کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ اس میں اسٹیٹ بینک کے پہلے گورنر زاہد حسین کا ذاتی فرنیچر اور ان کا مجسمہ ہے۔ قائد اعظم سے متعلقہ چیزیں ہیں۔ اس کا افتتاح بابائے قوم محمد علی جناح نے یکم جولائی 1948ء کو کیا اور اہم بات یہ ہے کہ قائد اعظم کی زندگی کی یہ آخری تقریب تھی۔ طلبا کے لیے معلومات کا جاننا انتہائی ضروری ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ماضی کے جاننے سے ہی اس کی شاندار روایات کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ ہم تو یہاں آ کر یہی محسوس کر رہے تھے کہ کیسے کیسے لوگ یہاں کا حصہ ہیں۔ تاریخی بینک دولت پاکستان میں قائد اعظم کے باورچی کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک ڈائری ہے اس ڈائری کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کتنی عمدہ لکھائی میں روزمرہ کا حساب لکھا گیا تھا اور کتنے کم اخراجات میں روزانہ کی بنیاد پر مملکت پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کا گھر چلایا جاتا تھا۔
آج کے پاکستان کے حکمران اپنے تعیشات، رہن سہن کے انداز سے کہیں یہ نہیں لگتا کہ وہ کسی غریب ملک کے حکمران ہیں جوکہ قرضوں کے بوجھ تلے سسکیاں لے رہا ہے۔ آج اگر صرف وزیر اعظم ہاؤس کے روزانہ اخراجات کو ہی کم کر دیا جائے تو کتنے چھوٹے چھوٹے پروجیکٹ وجود میں آسکتے ہیں جن سے کتنے ہی گھرانوں کو روزگار میسر آسکتا ہے مگر ان باتوں پر عمل کرنے والے قائد اعظم، لیاقت علی خان جیسے لوگ منوں مٹی تلے جا سوئے ہیں۔
اس جگہ نے ہمیں تھوڑی دیر کے لیے اداس کردیا مگر پھر اس امید نے حوصلہ دیا کہ شاید ہماری نئی آنے والی نسل میں یہ شعور بیدار ہوجائے تو سفر رائیگاں نہ جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ طلبا کو ایسی تاریخی جگہوں کا دورہ ضرور کروایا جائے جن سے پتہ چلے کہ ہم کیا سے کیا ہوگئے ہیں اور اگر اب بھی ہم نے کچھ نہیں کیا اور پھر کیا ہوجائیں گے۔
ایسے ہی ایک جگہ وہ سکوں کی گیلری تھی جہاں اسلام کے آنے سے پہلے رقم کوڑیوں میں تھی۔ کوڑی کوڑی کا محتاج تو ہم نے سنا تھا، کوڑی کو پہلی بار دیکھ کر ایک سنسنی کا سا احساس ہوا کہ وقت اور حالات کس طرح انسانی زندگی کو مختلف ادوار میں لے جاتے ہیں۔ کس طرح سے چیزیں اپنے وقت پر اہم ہوتی ہیں مگر جب اس سے بہتر چیزیں وجود میں آجاتی ہیںتو ان کی حیثیت دو کوڑی کی ہوجاتی ہے۔
آخر میں چلتے چلتے جب میوزیم کے میزبان نے ہمیں ایک پیکٹ پکڑایا تو اکثریت کا خیال تھا کہ یہ سونف سپاری ہوگی یا چائے کا کوئی ساشے، مگر معلوم ہوا کہ یہ تلف شدہ نوٹوں کے ذرے ہیں۔ تو ہنسی بھی آئی اور اندازہ بھی ہوا کہ جس روپے کے لیے ہم جائز ناجائز سب حربے استعمال کرتے ہیں، جھوٹ فریب سے کام لیتے ہیں، اربوں روپے دوسروں کا حق مار کر بینکوں میں رکھ کر بھول جاتے ہیں، ان کی حقیقت تو کچھ نہیں۔ وقت آنے پر یہ بھی بے کار ہوجائیں گے جیسے کہ ڈالر نے روپے کی قدر و قیمت کو کچھ نہیں دیا بلکہ روپے نے اپنے آپ کو گرا لیا ہے یہ وہ نکتہ ہے جسے ہم سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔