حوا کی بیٹی روز قتل ہوتی ہے
برطانیہ جیسا ترقی یافتہ ملک میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق 1929میں اور سوئٹزر لینڈ میں 1971میں ملا۔
دنیا میں جب سے طبقاتی نظام شروع ہوا ہے، اس وقت سے اس طبقاتی نظام میں خواتین بھی جنس کی طرح استعمال ہوتی آرہی ہیں، ہاں مگر ہر دور میں اس کی ہیت اور نوعیت بدلتی رہتی ہے ۔ جب طبقاتی نظام نہیں تھا اور لوگ امداد باہمی یا حقیقی پنچایتی نظام میں زندگی گذارتے تھے، اس وقت عورت اور مرد میں کوئی تفریق نہیں تھی اور نہ استحصال۔ پنچایتی نظام میں زیادہ تر شعبے کی نگراں اور منتظمین خواتین ہی ہوتی تھیں۔
اناج کا ذخیرہ،کھانا پکانا اور سب کو تقسیم کرنا، علاج معالجے کا انتظام ، حساب کتاب کی فہرست بنانا ، پھلوں اوراجناس کو اکٹھا کرنا ، بچوں کی پرورش، شعوری تربیت ، دفاع میں مردوں کے شانہ بشانہ حصہ لینا، رقص موسیقی کا انتظام ، غم اوردکھوں کا مداوا ، غلہ بانی اور ماہی گیری وغیرہ تقریبا سارا کا م خواتین ہی انجام دیتی تھیں۔
مرد صرف شکارکرکے لاتے تھے اور خونخوار جانوروں کے دفاع کے لیے پہل کرتے تھے، مگر جب طبقاتی نظام وجود میں آیا توخواتین بھی ایک جنس ٹہری ، جیسے دال ، چاول اورگندم وغیرہ کا استعمال ہوتا ہے ۔ وہ غلامانہ دور میں خرید وفروخت کی جانے لگی اورکھلونے کے طور پر استعمال ہونے لگی ۔ جاگیر داری میں چار دیواری یا کھیتوں تک محدود کردی گئی ۔ یوں کہہ لیں کہ نیم غلام ۔ سرمایہ داری میں اس کی غلامی کی شکل بدل گئی۔
برطانیہ جیسا ترقی یافتہ ملک میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق 1929میں اور سوئٹزر لینڈ میں 1971میں ملا ۔ ترکی جو اپنے آپ کو یورپین کہلوانے میں فخر محسوس کرتے تھے انھوں نے آج اپنے تعلیمی اسباق سے ڈارون کی تھیوری کو خارج کردیا ۔ یورپ میں اور امریکا میں ہر چندکہ خواتین اور مرد دونوں ملازمت کرنے کے باوجود گھر پہ آکر اکثر خواتین ہی کھانا پکاتی ہیں۔
صرف بلغاریہ،کینیڈا، فن لینڈ اور نیکارا گوا میں خواتین 50 فیصد ہر شعبے میں موجود ہیں بلکہ بلغاریہ میں تو 52 فیصد ہیں ۔ دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ خواتین کا استحصال چارملکوں میں ہوتا ہے جن میں افغانستان ، پاکستان ، بنگلہ دیش اور روانڈا ہیں ۔ ان میں سب سے زیادہ قتل پا کستان میں ہوتے ہیں۔
چند دن پیش تر ایک واقعہ رونما ہوا تانیہ خاصخیلی کے قتل کا ۔ اور وہ بھی اس لیے سامنے آیا کہ اس کا ذکر میڈیا پر ہوا ۔ جھنکارا ، دادو میں 22سا لہ دوشیزہ تانیہ خاصخیلی کو گھر میں گھس کرگو لی مارکر قتل کردیا کیونکہ دوشیزہ نے وڈیرے سے شادی کرنے سے انکارکردیا تھا ۔ یہ انکار اس کا جرم ثابت ہوا۔خیر میڈیا پر اس قتل کا چرچا ہونے کی وجہ سے قاتل پکڑا بھی گیا اور مقدمہ بھی درج ہوا۔ پرنٹ میڈیا میں درد انگیز مضامین شایع ہوئے،اب دیکھیے آ گے چل کر کیا ہوتا ہے ؟
دوسرا واقعہ کراچی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کا ہے ،کورنگی کی ایک 18سا لہ جواں سال ملازمہ فاطمہ کی لاش پنکھے سے لٹکی ہوئی ملی ۔ پتہ نہیں کیا ہوا مگر اکثر ہمارے ہاں لڑکیوں کو مارکر لٹکا دیتے ہیں ا ور کہتے ہیں کہ خود کشی کرلی ہے ۔ پنجاب میں ایک حوا کی بیٹی نے اپنی مرضی سے شادی کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو باپ نے اس کو گو لی مارکر قتل کردیا ۔ ابھی حال ہی کا ایک واقعہ رونما ہوا ہے کہ 15سالہ گھریلو ملازمہ کی پھندے لگی لاش بنگلے سے ملی ۔
سانگھڑکے باسی اس کے باپ کا کہنا ہے کہ میری بیٹی کو قتل کیا گیا ہے ۔ مقدمہ درج تو ہوا مگر کوئی گرفتا ری عمل میں نہیں آئی ۔ سانگھڑ شہر کے میمن محلے میں تاجر رتن کمار کے گھر پر 15سالہ اوھا بھیل بنت شکن 3600 رو پے تنخواہ پر کام کرتی تھی ۔ اس کے باپ کا کہنا ہے کہ دو سال سے وہ یہاں کام کرتی ہے ، میں روزانہ شام چھ بجے جاکر اسے گھر لاتا تھا۔ اچانک ایک روز سیٹھ نے بتایا کہ تمھاری بیٹی نے خودکشی کرلی ہے ۔ اس کے بارے میں میں اب زیادہ نہیں لکھ سکتا اس لیے کہ میں آب دیدہ ہوگیا ہوں ۔
سوچیں تو ذرا اگر یہ آپ کی یا میری اپنی بیٹی ہوتی ہم کیسا محسوس کرتے ؟ پاکستان میں کرپشن ، رشوت، بے روزگاری اور مہنگائی کی تو ہم بات کرتے ہیں لیکن ان معصوم بچیوں کی ناحق قتل پر سب خاموش نظر آتے ہیں ۔ خواتین کے حقوق کی بات تو سب ہی کرتے ہیں لیکن ان کے لیے عملی قدم کون اٹھا رہا ہے؟ کوئی بھی بورژوا پارٹی یا مذہبی جماعت ان لڑکیوں کے قتل پر احتجاج کرتی ہیں اور نہ کوئی جلوس نکالتا ہے ۔ صرف وہی جلوس نکالتے اور احتجاج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جو مقتول عورتوں کے ورثاء ہیں ۔
خواتین کا ووٹ لینے کے لیے اور جلسوں میں مجمع جمانے کے لیے تو سب ان کے پاس جا تے ہیں خواہ وہ غریب ہوں ، دلت ہوں یا ہاری ہوں لیکن جب ان کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے یا قتل کردی جاتی ہیں توکوئی ہڑتال کی کال نہیں دیتا ۔ شاید اس لیے کہ ظلم کرنے والوں کے ساتھ زیادہ لوگ آجاتے ہیں کہ ان کے پاس پیسے زیادہ ہوتے ہیں اور وہ ان پیسوں سے لو گوں کو خرید لیتے ہیں، اگر یہ سیا سی جماعتیں اٹھ کھڑی ہوں تو ان حیوان صفت انسانوں کو آیندہ ایسی حرکتیں کر نے کی جرات نہ ہو۔
پنجاب میں اکثریت پاکستان مسلم لیگ ن کی ہے تو پھر انھیں لڑکیوں کے قتل پر جلسہ جلوس اور ہڑتال کرنی چاہیے، اگر سندھ میں کسی لڑکی پر ظلم ہو اور قتل بھی ہو تو اس کے خلاف پا کستان پیپلزپارٹی کو بھی احتجاجاً ہڑتال کی کال دینی چاہیے۔ دوسری سیاسی جماعتوں کو شور مچانا چاہیے،ویسے تو سارے ملک میں ہی لڑکیوں کے ساتھ ظلم و زیادتی ہورہی ہے لیکن سندھ میں اور خاص کرکے اندرون سندھ میں کچھ زیادہ ہی قتل ہوتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ چاروں وزرائے اعلیٰ کو بھی مشترکہ اجلاس بلانا چاہیے اور فیصلہ لینا چا ہیے کہ خواتین ،گھریلو ملازماؤں اور لڑکیوں کے ساتھ زیادتیاں نہ ہو اور انھیں قتل نہ کیا جائے ،کہیں باپ بیٹی کو،کہیں سیٹھ ملا زماؤں کو،کہیں بھائی بہنوں کو اورکہیں گاؤں والے کاروکاری کے نام پر روز ایک دو لڑکیوںکو قتل کرتے ہیں ۔ یہ سلسلہ تب بند ہوگا جب پولیس، عدا لتیں ،اسمبلیاں اور میڈیا جاگتے رہیں گے ، اگر عوام حکمرانوں پر مسلسل دباؤ ڈالتے رہیں تو قتل کے ان واقعات میں ایک حد تک کمی واقع ہوسکتی ہے ۔