نصابی تعلیم تشکیل نو کی ضرورت
یونیورسٹی کی تعلیم کو غیر ضروری علمی بوجھ سے آزاد کرکے اعلیٰ تحقیق کے نام سے موسوم کیا جائے۔
ہمارا معاشرہ دو طبقات میں تقسیم ہے ایک سیکولر اور لبرل قوتیں دوسری مذہبی و دینی۔ ان دونوں قوتوں کے مابین فکری ٹکراؤ ہے جس کی وجہ سے ہم زندگی کے دیگر معاملات کی طرح نظام تعلیم اور نصاب تعلیم میں اپنی کوئی سمت متعین نہیں کر سکے ہیں۔ ہم یہ تعین ہی نہیں کر سکے ہیں کہ ہمیں اپنے طالبعلم کوکیا پڑھانا چاہیے۔ بس اس معاملے میں ہم بے مقصد تجربات کیے جا رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں جامعات کا سب سے پہلا کردار معاشرے کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے، جامعات اپنی فکر اور تحقیق کے ذریعے معاشرے کے مسائل کا حل تلاش کرتی ہیں۔
ہمارے ملک میں جامعات میں تحقیق کے لیے ایسے موضوع دیے جاتے ہیں، جس کا پاکستان کی معیشت، سیاست اور سماج سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اس میں بھی کوئی نئی بات نہیں کی جاتی بلکہ پرانی تحقیق کو ہی نیا بناکر پیش کردیا جاتا ہے۔
سوچیے جس ملک کی بیشتر آبادی پینے کے صاف پانی کی بنیادی سہولت سے ہی محروم ہو اس ملک کی جامعات غالبؔ کے انداز بیان پر تحقیق کرکے نامعلوم کون سی خدمت انجام دے رہی ہیں۔ اس بے مقصد تعلیم کی بدولت ہم ہزاروں روایتی تعلیم یافتہ بیروزگار پیدا کر رہے ہیں جن کی ہماری معیشت میں کوئی جگہ نہیں۔
راقم الحروف کی تحریر سے قطعی یہ مطلب نہ لیا جائے کہ راقم التحریر سماجی اور عمرانی علوم کے خلاف ہے یا انھیں غیر ضروری تصور کرتا ہے ایسا ہرگز نہیں ہے۔ راقم کے نزدیک کالج اور یونیورسٹی میں پڑھائے جانے والے تمام مضامین اپنی اہمیت اور افادیت رکھتے ہیں مثلاً تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بحیثیت انسان ہم نے اپنا سفر کہاں سے شروع کیا اور اب ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اس سے ہمیں تاریخی شعور حاصل ہوتا ہے۔
اس شعور کے نتیجے میں ہم میں بحرانوں کا تجزیہ کرنے اور اس کے حل کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے (بشرطیکہ اس کا مطالعہ آزادی فکر کے ساتھ کیا جائے) نفسیات ہمیں بتاتی ہے کہ ہم کیا سوچتے ہیں۔ یعنی کسی عمل کے پیچھے اس کے محرکات کیا ہیں۔ فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں کس طرح سوچنا چاہیے یعنی مربوط انداز میں سوچنے کا عمل فلسفہ کہلاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں آدمی معاملے کی اصل وجوہات کی تہہ کا پتا لگانے کے قابل ہوجاتا ہے جب ہم تجربات کے عمل سے گزرتے ہیں تو ہمیں تجربات کی تجدید نو اور تشکیل نو کی ضرورت پیش آتی ہے یہ عمل ہمیں تعلیم سے حاصل ہوتا ہے۔
سائنس سوال اٹھاتی ہے اس کی مدد سے انسان نا معلوم سے معلوم کی طرف سفر کرتا ہے عمرانی علوم انسان میں سماجی شعور پیدا کرتے ہیں ۔ اس سے مل جل کر رہنے کا سلیقہ پیدا ہوتا ہے حالات سے صحیح طور پر واقفیت کا عمل بصیرت کہلاتا ہے۔ یہ بصیرت سیاست کے مطالعے سے حاصل ہوتی ہے۔ فوج کا سپہ سالار بہترین دفاعی حکمت عملی تیار کرکے دے سکتا ہے ایک ماہر معیشت غربت کے خاتمے کے لیے بہترین معاشی پالیسی دے سکتا ہے لیکن وطن پر قربان ہونے کا جذبہ غریبوں سے ہمدردی کا جذبہ ایک ادیب اور شاعر ہی پیدا کرسکتا ہے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ ادب انسان میں احساس کی قوت کو جگاتا ہے۔
فنون لطیفہ مثلاً شاعری، مصوری، موسیقی وغیرہ ہمارے خیالات کو خوبصورت بناتے ہیں اور یہ خوبصورت خیالات ہماری پرمسرت زندگی کے ضامن ہوتے ہیں۔ مذہب زندگی میں معنی پیدا کرتا ہے اور انسان کو یقین کی قوت عطا کرکے اسے فکری انتشار سے محفوظ کرتا ہے۔
ان باتوں کو سامنے رکھ کرکوئی ذی شعور شخص ان مضامین کی افادیت سے انکار نہیں کرسکتا لیکن نصاب تعلیم کے نام پر محدود مالی وسائل رکھنے کے باوجود پوری قوم کو ادب و سماج کے شعبے میں جھونک دینا کسی طرح مفید نہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہمارے نصاب تعلیم کس طرح کا ہونا چاہیے۔ وہائٹ ہیڈ کا مقولہ ہے علم زیادہ ہے زندگی چھوٹی اس لیے زیادہ مت پڑھائیے جو کچھ پڑھائیں بھرپور پڑھائیں۔ میری ذاتی رائے میں ہمارے نصاب کو اس مقولے کی روشنی میں ترتیب دیا جانا چاہیے۔ ایسے مضامین جو بچوں کی نظریاتی تربیت وطن سے محبت اور ماحول سے مطابقت پیدا کرنے میں معاون ہوں پرائمری سے میٹرک تک پڑھائیں جائیں۔ میٹرک کی تعلیم کو عمومی تعلیم (جنرل ایجوکیشن) سے منسوب کیا جائے۔
میٹرک کے بعد کی تعلیم کے بعد جنرل ایجوکیشن پر پابندی ہونی چاہیے یہ ایک اہم نکتہ ہے اس پر ہمیں غیر جذباتی اور سائنسی فکر اپنانے کی ضرورت ہے ایسے مضامین جو طالب علم کے منتخب کیے گئے شعبے سے غیر متعلق ہیں ان کو نصاب سے نکال دیا جائے یعنی انٹر کے بعد کی تعلیم کو پیشہ ورانہ تعلیم سے منسلک کیا جائے۔ بالخصوص انٹر آرٹ کے نصاب پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یہ المیہ ہے کہ ملک کے بیشتر کالجز میں انٹر آرٹس اور بی اے میں طالب علم کو انھی مضامین کا انتخاب کرنا ہوتا ہے جن مضامین کے اساتذہ کالج کو میسر ہوتے ہیں سوچیے ایسا طالب علم پیشہ ورانہ لحاظ سے کیا بن کر نکلے گا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی کا افلاطون ہونا ضروری نہیں ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انٹر آرٹ میں طالب علم کسی ایک پیشے کا انتخاب کرے وہ پہلے یہ طے کرے کہ وہ اپنی عملی زندگی میں کیا بننا چاہتا ہے۔ مثلاً وہ سیاست دان، قانون دان، ماہر تعلیم، ماہر معیشت، ماہر سماجیات، صحافت، ادیب، فلاسفر، ماہر نفسیات، تاریخ دان یا عالم دین میں سے کسی ایک پیشے کا انتخاب کرے پھر طالب علم کو انٹر کے نصاب میں اس شعبے سے متعلقہ مضامین ہی پڑھائے جائیں۔
تعلیمی نصاب سے بی اے، بی کام، بی ایس سی کی ڈگری ختم کرکے یعنی انٹر کے بعد ایم اے، ایم کام اور ایم ایس سی کرنے کا طالب علم کو اہل قرار دیا جائے اور اس کا دورانیہ دو سال سے بڑھا کر تین سال کردیا جائے۔ اس طرح تعلیم کے نام پر جو قومی وسائل کا ضیاع کیا جا رہا ہے اسے روکا جاسکے گا۔
یونیورسٹی کی تعلیم کو غیر ضروری علمی بوجھ سے آزاد کرکے اعلیٰ تحقیق کے نام سے موسوم کیا جائے۔ آخری بات کالج اور یونیورسٹی میں داخلے کے لیے عمر کی مقرر کردہ حد کو ختم کیا جائے تاکہ اس حدیث مبارکہ سے اس حکم ''علم حاصل کرو ماں کی گود سے لحد تک'' کے حکم کی تعمیل ہوسکے۔