سینٹ لوئیس اور نیو یارک آخری قسط
کچھ الفاظ یا جملوں کے ربط میں کچھ کمی بیشی رہ جاتی ہے جس کی تصحیح نظرثانی کے دوران کر دی جاتی ہے
سینٹ لوئیس کے ذکر اور وہاں سے براستہ نیویارک واپسی کے احوال سے پہلے ایک غلطی کی وضاحت ضروری ہے جس کا ارتکاب گزشتہ کالم لکھنے کے دوران ہوا اور وہ یہ کہ بوسٹن کے قیام کی روداد میں نظرثانی کا موقع نہ مل سکنے کی وجہ سے کچھ باتیں آپس میں خلط ملط ہو گئیں۔
صبح ناشتے پر گفتگو کے دوران وقاص بھائی نے بتایا کہ میں نے غلطی سے سینٹ لوئیس میں ملنے والے کچھ احباب اور واقعات کا ذکر بوسٹن کے حوالے سے کر دیا ہے مثلاً یہ کہ ڈاکٹر شوکت اور ڈاکٹر غزالہ سے ملاقات! سفر کے دوران تھوڑے عرصے میں زیادہ لوگوں سے ملاقات' مقامات اور واقعات کی ترتیب میں کبھی کبھار ایسا ہو جاتا ہے کہ کچھ باتیں آپس میں مکس اپ ہو جاتی ہیں یا کچھ الفاظ یا جملوں کے ربط میں کچھ کمی بیشی رہ جاتی ہے جس کی تصحیح نظرثانی کے دوران کر دی جاتی ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا اس روز جلد بازی میں اس کا موقع نہ مل سکا اور یوں شراب سیخ پہ اور کباب شیشے میں جا پڑے۔
تو اب صورت حال کچھ یوں ہے کہ بوسٹن میں ہمارے میزبان ہمایوں کبیر تھے۔ انھوں نے ہی وہاں کی تقریب کا بھرپور انعقاد کیا اور انھی کی معیت میں ہم نے بوسٹن کی سرسری سی سیر بھی کی اور وہاں سے ہم ساؤتھ ویسٹ ایئر لائن کی فلائٹ لے کر سینٹ لوئیس پہنچے جہاں آصف قریشی اور ان کی بیگم ساجدہ جبیں بے چینی سے ہمارے منتظر تھے کہ فلائٹ وہاں تقریباً پونے دو گھنٹے کی تاخیر سے پہنچی لیکن اس دوران میں ایئر لائن والوں نے مسافروں اور ان کے متعلقہ ''لواحقین'' کو مسلسل باخبر رکھا۔
یہی وجہ ہے کہ ہیلپنگ ہینڈ کے ہیوسٹن' ڈیٹرائٹ اور بوسٹن کے احباب کے معذرتی پیغام ہم تک مسلسل پہنچتے رہے۔ ہمارے میزبان اس اعتبار سے ایک قدرے ODD جوڑا تھے کہ یہ دونوں کی دوسری دوسری شادی تھی۔ آصف قریشی کا تعلق راولپنڈی سے تھا بہاولپور سے ایم اے انگریزی کرنے کے بعد وہ صحافت سے وابستہ رہے اور دنیا بھر کی خاک چھاننے کے بعد اب کچھ برسوں سے امریکا میں مقیم ہیں جب کہ ان کی پہلی بیوی اور بچے پاکستان میں ہی رہتے ہیں۔
ساجدہ جبیں کے شوہر میرے جی او آر III شاد مان کے ہمسائے شاہنواز بدر صاحب کے بڑے بھائی تھے جن کا انتقال ہو چکا ہے اور اب گزشتہ پانچ برس سے وہ آصف قریشی کے نکاح میں ہیں۔ پرواز میں غیر متوقع تاخیر کے باعث رات کے کھانے کا پروگرام تبدیل کرنا پڑا کہ امریکا میں رات نو بجے تک ریستوران وغیرہ بھی بقول شخصے شٹر گرا کر فارغ ہو جاتے ہیں، سو وہ لوگ ہمیں ہمارے ہوٹل کے بجائے پہلے اپنے گھر لے گئے تاکہ کچھ کھا پی لیا جائے۔
سارے راستے میں دونوں میاں بیوی ہم سے اپنے گھر کی صفائی اور بے ترتیبی کی معذرت کرتے رہے کہ دونوں کئی دن سے اس تقریب کے انتظامات میں دن رات مصروف تھے اور بقول ان کے انھیں یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ مہمان ان کے گھر پر بھی آئیں گے۔ وقاص جعفری نے بتایا کہ دو برس قبل بھی وہ یہاں ایک پروگرام انھی میاں بیوی کے ساتھ مل کر کر چکے ہیں فرق صرف یہ پڑا ہے کہ دو سال قبل گاڑی ساجدہ صاحبہ خود چلارہی تھیں اور اس بار ڈرائیونگ سیٹ میں آصف قریشی بیٹھے تھے جو غالباً ابھی تک راستوں کے بارے میں زیادہ باخبر نہیں تھے کیونکہ بی پی ایس کے باوجود ہر ہر موڑ پر انھیں اپنی بیگم سے رہنمائی حاصل کرنا پڑ رہی تھی۔
اس صورت حال پر میں نے ایک پرانا لطیفہ ان سے شیئر کیا جو انھیں سرے سے لطیفہ لگا ہی نہیں جو کچھ یوں تھا کہ ایک ٹریفک سارجنٹ نے ایک گاڑی کو روکا اور بتایا کہ وہ کافی دور سے ان کا تعاقب کرتا چلا آ رہا ہے اور اس دوران میں انھوں نے فلاں فلاں ٹریفک رول کی خلاف ورزی کی ہے اور ڈرائیور سے کہا کہ اپنا نام بتائیے۔ اس نے جواب دیا کہ مسز فینسی اسمتھ۔ آفیسر نے کہا کہ تم تو مرد ہو یہ مسز اسمتھ کون ہے؟ جواب ملا کہ یہ میری بیوی کا نام ہے جو میرے ساتھ بیٹھی ہے، افسر نے جھنجھلا کر کہا گاڑی تم چلا رہے ہو تو میں تمہاری بیوی کا چالان کیوں کاٹوں؟۔ ڈرائیور نے لمبا سانس لے کر کہا''تمہارا خیال ہی ہے کہ میں چلا رہا ہوں''
بعد میں خیال آیا کہ یہ لطیفہ اصل میں عزیزی نواز نیاز کو سنانے والا تھا کہ ''اینٹی بیگم'' لطیفوں کا اس جیسا ذخیرہ میں نے کسی اور کے پاس نہیں دیکھا۔ چونکہ میں یہ وضاحت کر چکا ہوں کہ سینٹ لوئیس کا بالواسطہ ذکر گزشتہ کالم میں ہو گیا تھا سو اب سیدھا اس سفر کے آخری حصے یعنی نیو یارک کے تین روزہ قیام کی طرف آتے ہیں جس میں 22ستمبر کا اسلامک سینٹر لانگ آئی لینڈ میں ہونے والا پروگرام بھی شامل ہے۔
اس بار ہمارے میزبان عادل شیخ تھے جنہوں نے حال ہی میں Helping hand کو جائن کیا ہے لیکن اپنے سینئر مامون سیف اللہ کے بنگلادیش جانے کے وجہ سے اب سب کچھ انھی کو دیکھنا پڑ رہا تھا اور حق بات یہ ہے کہ اس نوجوان نے حق ادا کر دیا۔اس کا احساس ذمے داری' اپنے کام میں لگن' ترتیب اور وقت کی پابندی بلاشبہ مثالی تھے اور ان سب پر بھاری اس کی وہ پر خلوص اور دوستانہ مسکراہٹ تھی جو ہمہ وقت اس کی آنکھوں اور چہرے پر موجود رہی، اس نے ہر کام بہت خندہ پیشانی اور خوش اسلوبی سے کیا اور ہماری روانگی کے لمحے تک سائے کی طرح ہمارے ساتھ ساتھ رہا۔
برادرم سعید نقوی اپنے داماد کے ایک اچانک آپریشن کی وجہ سے مصروف اور متفکر تھے، سو ان سے تو فون پر ہی ملاقات رہی البتہ ڈاکٹر سید مسعود' وکیل انصاری اور عزیزی اعجاز بھٹی سمیت کچھ نئے احباب کے ساتھ اچھا وقت گزرا جن میں سے ایک انور مسعود کے سسرالی عزیز اور میرے والد مرحوم کے دوست صولت صاحب کے چچا زاد بھائی اور دوسرے ایک بہت سلجھی ہوئی فیملی کے سربراہ اعجاز صاحب تھے جن سے بالترتیب روانگی کے روز ناشتے اور دوپہر کے کھانے پر ملاقات رہی۔
اس دوران میں وکیل انصاری بھائی نے ''سب رنگ'' ٹی وی کے لیے میرا اور انور مسعود کا ایک مشترکہ انٹرویو بھی کیا جو تقریباً ایک گھنٹے پر محیط تھا۔ ایئرپورٹ کے راستے میں اعجاز بھٹی اور اس کے دوست اویس سے ملاقات کے لیے ایک پاکستانی ریستوران میں رکے جس کا مالک انور مسعود کا ایک سابقہ شاگرد نکل آیا سو ایک بار پھر زمان و مکان آپس میں خلط ملط ہو گئے۔پی آئی اے کی پرواز پی کے 712ٹھیک وقت پر چلی اور مقررہ وقت سے آدھ گھنٹہ قبل نیویارک سے لاہور بغیر رکے پہنچی، اس بار ٹی وی مانیٹر بھی ٹھیک تھے اور گھر واپس لوٹنے کی طمانیت بھی ساتھ تھی۔ سو بارہ تیرہ گھنٹے نسبتاً آسانی سے گزر گئے۔