ڈاکٹر مبشر حسن کی چند تجاویز
اگر یہ مطالبات منظور ہوجاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایک ایسی پارلیمان وجود میں آجاتی ہے
ڈاکٹر مبشر حسن نے اپنے فیس بک کے دوستوں کے سامنے چند سوالات رکھے ہیں۔ انھوں نے سوال کیا کہ آیا زرعی اصلاحات اور اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کے بغیر جمہوری اداروں کا استحکام ممکن ہے؟ کیا ان مقاصد کے حصول کے لیے ہم خیال دوستوں کا ملک گیر کنونشن بلایا جائے؟ یا ہر شہر میں ہم خیال دوستوں کے فورمز منظم کر کے حکومت اور سیاسی جماعتوں پر دباؤ بڑھایا جائے ؟ یا ایک نئی سیاسی جماعت تشکیل دے کر ان اہداف کے حاصل کی کوشش کی جائے؟
ڈاکٹر صاحب پیپلزپارٹی کے وہ بانی رکن ہیں، جن کے گھر میں اس جماعت کا قیام عمل میں آیا ۔ وہ بھٹو کابینہ میں آخری وقت تک وزیر خزانہ رہے ہیں۔ انھیں صنعتوں کے قومیائے جانے اور مخلوط معیشت(Mixed Economy) کے نظریے کا خالق سمجھا جاتا ہے۔ بھٹو مرحوم کے عدالتی قتل کے بعد ڈاکٹر صاحب کچھ عرصہ خاموش رہے۔ جب مرتضیٰ بھٹو نے پیپلز پارٹی کا شہید بھٹو گروپ تشکیل دیا، تو اس میں شامل ہوگئے، لیکن جلد ہی بد دل ہوکر عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ دو دہائیوں سے علاقائی امن کے لیے کوششیں کرنے والی تنظیم میں فعال ہیں۔
ان کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات اہمیت کے حامل ہیں، لیکن ان کا تفصیلی جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ گزشتہ 70برسوں کے دوران پاکستان میں سیاسی اورغیر سیاسی قوتوں پر مشتمل ایک ایسی طاقتور اشرافیہ وجود میں آگئی ہے، جواقتدار و اختیار کی ہر سطح پر جونکوں کی طرح چمٹی ہوئی ہے۔ اس کے درمیان اختلافات کا محور نظام کی درستی نہیں بلکہ صرف اختیارات کی تقسیم ہوتا ہے۔ آئین و قانون کی بالادستی محض دکھاوے کی ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ ہر فرد اور ادارہ مادرپدر آزاد ہوچکا ہے ۔ قانون طاقتور کے گھر کی لونڈی اور غریب کے لیے سفاک جلاد ہے۔
اب جہاں تک جمہوریت اور جمہوری اداروں کی حالت زار کا تعلق ہے، تویہ زد پذیری Vulnerability کی آخری حدود کو چھو رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ وہ انتظامی خشت اول ہے جس نے گورننس کے ان گنت ابہام کو جنم دیا ہے۔ پاکستان کوانڈیا ایکٹ1935حکمرانی کی دستاویز کے طور پر تفویض ہوا۔ جس کی بنیاد پارلیمانی جمہوریت تھی، مگر ہمارے یہاں روز اول ہی سے پارلیمانی جمہوری روایات کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ جس کی مثال یہ ہے کہ انڈین نیشنل کانگریس کا صدر وزارت عظمیٰ قبول کرتا ہے، جب کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر گورنر جنرل بنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وزیر اعظم جو پارلیمانی جمہوریت میں ریاستی انتظامیہ کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے، پاکستان میں اس کی حیثیت شوکیس میں سجے مجسمے سے کبھی زیادہ نہیں رہی ہے۔ یہ صورتحال آج تک قائم ہے۔
قیام پاکستان کے پہلے برس ملک کا نظام گورنرجنرل ہاؤس اور جنرل سیکریٹری کے سیکریٹریٹ سے چلایا جاتا رہا ہے۔ ستمبر 1948سے اکتوبر1951تک انتظامی اختیارات کا محور جنرل سیکریٹری کا سیکریٹریٹ رہا، لیکن اکتوبر1951سے ایک بار پھر گورنرجنرل ہاؤس اور جنرل سیکریٹری کے سیکریٹریٹ سے چلایا جانے لگا۔ اس دوران وزرائے اعظم کی حیثیت کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں رہی۔ 1956میں آئین بن جانے کے باوجود وزرائے اعظم کو وہ اہمیت اور اختیارات نہیں مل سکے جو پارلیمانی جمہوریت میں اس کا حق اور اختیار ہوتے ہیں ۔ پہلے گورنر جنرل بعد میں صدر جب چاہتے وزیر اعظم کو چلتا کردیتے۔
پاکستان کی70برس کی سیاسی تاریخ میں اسٹبلشمنٹ کی مرضی کے برخلاف سوویت یونین جانے کے فیصلے پر لیاقت علی خان کو ایک ریاستی وظیفہ خوار سے قتل کرادیا جاتا ہے، پھر ایوب کے آنے تک ہر چند ماہ بعد وزیر اعظم تبدیل ہوتے رہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ذوالفقار علی بھٹومرحوم نے خود کوAssertکرنے کی کوشش کی۔ ان کا جس طرح عدالتی قتل کیا گیا، وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔1988 سے1999کے دوران جو کچھ ہوتا رہا ہے، وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ 2002 میںبننے والے وزیر اعظم ظفراللہ جمالی اور 2008سے تادم تحریر جو بھی برق گری ہے، وہ بیچارے ہر وزیر اعظم پر ہی گری ہے۔
اب جہاں تک جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مضبوط اور مستحکم بنانے کا معاملہ ہے، تو خرابی بسیار کی ذمے دار صرف غیر سیاسی قوتیں نہیں ہیں، بلکہ سیاسی قوتیں بھی اشرافیائی کلچر کے زیر اثر ہونے کے باعث اتنی ہی ذمے دار ہیں۔ یہ بھی طے ہے کہ جمہوریت اس وقت تک مضبوط اور مستحکم نہیں ہوسکتی، جب تک کہ پارلیمان خود کو Assert کرتے ہوئے مختلف ریاستی اداروں کو آئینی محدودات کے اندر رہنے پر مجبور نہیں کرتی۔ پارلیمان کو مضبوط بنانے میں سیاسی جماعتوں (حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں) کا کلیدی کردار بنتا ہے۔ اس کردار سے صرف نظر ہی دیگر ریاستی اداروں کو ماورائے آئین اقدامات پر اکساتا ہے۔ چنانچہ اسٹبلشمنٹ کو پالیسی سازی پر حاوی کرانے میں ابتدائی دورکے فیصلوں اور سیاسی جماعتوں کی کوتاہ بینی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پورا سیاسی نظام Status quoکی قوتوں کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے سیاسی جمود کا شکار ہے۔ اس میں شک نہیں ملک میں جمہوری نظام کے استحکام کے لیے اولین ترجیح زرعی اصلاحات اور اقتدار و اختیار کے ارتکاز کا توڑا جانا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ آیا قومی دھارے کی سیاسی جماعتیں (مسلم لیگ، نواز، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف) یہ فیصلے کرسکیں گی؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ کیونکہ جو جماعتیں موروثیت اور Electables کے بل بوتے پر انتخابی عمل کا حصہ بنتی ہوں، ان سے ایسی اصلاحات کی توقع نہیں کی جاسکتی، جو ان کی اقتدار پر گرفت کو کمزور کرنے کا باعث بنیں۔
اس لیے ایک عام سوچ یہ ہے کہ اولین ترجیح یہ ہونا چاہیے کہ سول سوسائٹی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کی جسامت کم کرنے کے لیے پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوں پر دباؤ ڈالے۔ ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کرے کہ نئی مردم شماری کے بعد نشستوں میں ہونے والے اضافے کے بعد مخصوص نشستوں کی تعداد کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں کل نشستوں کا نصف کردیا جائے۔ یعنی اگر قومی اسمبلی کی کل نشستیں نئے فارمولے کے تحت اگر 600 ہوجاتی ہیں ، تو نصف نشستوں پر براہ راست الیکشن کرایا جائے۔
جب کہ بقیہ نصف (300) نشستوں کو متناسب نمایندگی کی بنیاد پر پارٹی لسٹ کے ذریعے پر کیا جائے(جیساکہ فی الوقت خواتین اور غیر مسلموں کے لیے کیا جاتا ہے) ان نشستوں کو خواتین اور غیر مسلموں کے علاوہ محنت کشوں، پروفیشنلز اور صنعتکاروں (کاروباری حلقوں) کے لیے مخصوص کیا جائے۔ جب اس فارمولے کے تحت نئی پارلیمان قائم ہوجائے تو اس پارلیمان پر مقامی حکومتی نظام کو ریاستی کے تیسرے انتظامی درجہ (Tier)کے طور پر متعارف کرانے کے لیے دباؤ ڈالا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر مبشر حسن کی یہ تجویز بھی غور طلب ہے کہ اس سلسلے میں ہم خیال دوستوں کی ہر ضلع میں مشاورتی نشستوں کا اہتمام کرکے پریشر گروپس قائم کیے جائیں، لیکن ایک نئی جماعت کی تشکیل کے لیے یہ وقت نامناسب ہے۔ کیونکہ ضلع سطح پر مشاورت کا سلسلہ اگر اکتوبر میں شروع ہوتا ہے، تو یہ جنوری سے فروری تک مکمل ہوسکے گا۔ اس کے بعد جون سے قبل نئی پارٹی کی تشکیل جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ پھر یہ ضروری بھی نہیں کہ نئی جماعت قائم ہوتے ہیں عوامی قبولیت حاصل کرلے۔
لہٰذا نئی سیاسی جماعت کے قیام کا خیال فی الحال ذہن سے نکالتے ہوئے پوری توجہ سول سوسائٹی کے ذریعے پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوں پر انتخابی اصلاحات اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کی تعداد میں اضافے پر مرکوز کی جائے، اگر یہ مطالبات منظور ہوجاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایک ایسی پارلیمان وجود میں آجاتی ہے، جس میں تمام طبقات کی نمایندگی ہو، تو زرعی اصلاحات اور بااختیار مقامی حکومتی نظام کے لیے موبلائزیشن آسان ہوجائے گی۔ شاید یہی وہ صائب راستہ ہے، جس کے ذریعے معاملات کو Status quoسے نکال کر حقیقی جمہوریت کی طرف لے جایا جاسکتا ہے ۔