جدید مرثیہ نگاری میں معتبر نام

علم و شعور کے بنا انسان انسان کہلانے کا مستحق بھی نہیں رہتا۔


نجمہ عالم September 29, 2017
[email protected]

LONDON: گزشتہ سال ایام عزا (عشرۂ محرم) میں ہم نے اپنے اظہاریے بعنوان ''مرثیہ دکن سے کراچی تک'' کے اختتام پر جناب کرار جونپوری اور ان کے صاحبزادے ید اللہ حیدر کا اجمالی تذکرہ کیا تھا، اس وقت تک جناب ید اللہ حیدر کا مجموعہ مراثی منصہ شہود پر نہیں آیا تھا۔ نو تصنیف مراثی کی محافل میں ان کے مرثیوں کے بارے میں ضرور تھوڑی بہت آگاہی تھی۔ فروری 2017 کو ان کا مجموعہ مراثی بنام ''نماز علم'' سامنے آیا جس میں ان کے چھ مرثیے علم و ارتقا، آسمان، انتقام، عقل و شعور، سبب و وجود اور تبلیغ شامل ہیں۔

یداللہ حیدر نے شاعری کا آغاز اگرچہ غزل گوئی سے کیا مگر بعد میں اپنے والد کے شاعرانہ ورثے ''مرثیہ'' کی جانب راغب ہوئے ہر سال نوتصنیف مراثی کی مجالس میں اپنا تازہ مرثیہ کافی عرصے سے پیش کرتے رہے جس سے خیال پیدا ہوتا ہے کہ اب تک خاصی تعداد میں مراثی کہہ چکے ہوں گے مگر مجموعہ میں صرف چھ مراثی شامل ہیں ہوسکتا ہے کہ باقی آیندہ اشاعت پذیر ہوں۔

ہم نہ تاریخ مرثیہ گوئی پر کوئی مقالہ تحریر کر رہے ہیں اور نہ مرثیہ گو شعرا کی طویل فہرست میں ید اللہ حیدر صاحب کے مقام کا تعین کرنے کی کوشش کریں گے۔ کیونکہ یہ کام تو نقادان مراثی کا ہے اور ہم محض ایک اظہاریہ نگار۔ جب یہ کتاب ''نماز علم'' ہم تک پہنچی تو ہم نے اسی وقت اس کے مطالعے کا آغاز کردیا، اپنے ذہن میں اس پر رائے یا تبصرہ لکھنے کا کوئی خاکہ بنائے بغیر ہی مختلف بندوں اور شعروں کو نشان زد کرتے چلے گئے کہ اس بند میں یہ خصوصیت اور اس بیت میں اس فکری جہت کو پیش کیا گیا ہے۔ غرض اچھا خاصا کام ہوگیا تھا کہ تبدیلی مکان کے باعث تمام کاغذات اور کتابیں، فائلیں اور مختلف تحریریں بحفاظت کارٹنز میں بند کرکے رکھ دیں۔ نئے گھر کو مکمل سیٹ کرنے کے بعد آخر میں کتابوں وغیرہ کو شیلف میں لگانا طے پایا۔ مختصر یہ کہ نہ اب تک گھر سیٹ ہو پایا نہ کتابوں کی باری آئی جو کچھ لکھا تھا (ادھورا) اس کے نقاط بھی اب ذہن میں نہیں لہٰذا ازسر نو ان مراثی کا مطالعہ کیا اور جو کچھ خصوصیات سامنے آئیں ان پر یہ اظہاریہ تحریر کیا ہے۔

قابِ قوسین جو قربت کی حدِ آخر ہے

ارتقائے بشریت کی حدِ آخر ہے

(علم و ارتقا)

مقام احسنِ تقوم ہے بشر کا مقام

(سبب و وجود)

گویا ید اللہ حیدر عظمت انسان کی اہمیت ہر مرثیے میں پیش کرتے ہیں مگر یہ بھی ہے کہ انسان کی عظمت بوجۂ علم ہی تسلیم کرتے ہیں جو ایک آفاقی حقیقت ہے:

علم گر نور نہ دے فکر کی پیشانی کو

ارتقا مل نہ سکے کاوشِ انسانی کو

(علم و ارتقا)

لیکن علم و شعور کے بنا انسان انسان کہلانے کا مستحق بھی نہیں رہتا۔ اگر انسان اپنا مقام مخلوقات عالم میں پہچانتا ہے تو وہ باشعور ہی ہوگا ورنہ علم و شعور کے بغیر انسان کہلانے کا حقدار ہی نہیں۔ یداللہ حیدر اس بات کی بھی وضاحت کرتے ہیں کہ عقل و علم شعور انسانی، آگاہی و معرفت کے ہی ذرایع ہیں۔

ہو باشعور ذہن تو انساں ہے آدمی

حاصل نہ ہو شعور تو حیواں ہے آدمی

(عقل و شعور)

شعر کی خوبی یہی تو ہے کہ اس میں دریا کو کوزے میں بند کیا جاسکتا ہے۔ یہی بات اگر نثر میں لکھی جائے تو کئی صفحے درکار ہوں۔ ذرا سی دیر کے لیے اپنے معاشرے بلکہ عالمی صورتحال پر نظر ڈالیے تو کتنے مناظر آپ کی نظروں کے سامنے آجائیں گے جو ''حاصل نہ ہو شعور تو حیواں ہے آدمی'' کی عکاسی کرتے ہوئے انسان کی حیوانیت کے باعث ملکی و بین الاقوامی سطح پر انسانیت کو داغ دار کر رہے ہیں۔

ان مراثی کے مطالعے میں ایک بات بطور خاص محسوس ہوئی کہ یداللہ حیدر کیونکہ خود ماہر تعمیرات ہیں، ماہر تعمیر ایک منظم فنکار ہوتا ہے وہ اپنے کام میں نظم و ضبط اور سلیقے کو ہمیشہ مد نظر رکھتا ہے، میں اپنے اس نقطے کی وضاحت میں کئی مثالیں پیش کرسکتی ہوں مگر اظہاریہ طوالت کا متحمل نہیں ہوتا تو اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ انھوں نے اپنے کلام میں بھی سلیقے، نظم و ضبط اور در و بست کا خیال رکھا ہے اس خوبی میں دوسری خوبی یہ بھی شامل کی جاسکتی ہے کہ حسن ترتیب کو پیش نظر رکھتے ہوئے مراثی کو بلاوجہ کی طوالت سے بچا کر (جیساکہ قدیم مراثی کئی کئی سو بندوں پر مشتمل ہوتے تھے) بلا احساس تشنگی اپنے موضوع کا مکمل اظہار کیا ہے یوں ان کے مراثی کو کفایت لفظی کا بہترین نمونہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔

یداللہ حیدر بنیادی اہمیت ابلاغ کو دیتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ جو ان کا خیال ہے وہ من و عن قاری تک منتقل ہوجائے اس مقصد کے لیے وہ نہ تو ادق اور نہ غیر مانوس الفاظ شامل کرکے اپنی لسانی و علمی برتری کا بلاجواز اظہار کرنے کے بجائے سادہ، شفاف الفاظ اور وہ زبان جو ہمارے درمیان عام طور پر مستعمل ہے میں ہی اپنے معنی الضمیر کو بخوبی اپنے قاری یا سامع تک پہنچانے میں بے حد کامیاب ہیں۔ موصوف مرثیے کی روایت سے دامن چھڑا کر کسی انجانی زمین یا گوشے کو آباد کرنے کی بجائے روایت سے وابستہ رہتے ہوئے جدید انداز کو اپنائے ہوئے کسی بھی موقع پر موضوع سے انحراف نہیں کرتے بلکہ آغاز سے انجام تک موضوع ہی پر گفتگو کرتے ہوئے اسے پائے تکمیل تک پہنچانے کے ہنر سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ایک اور اہم بات جس کا مجھے ابتدا ہی میں ذکر کرنا چاہیے تھا کہ کتاب کا سرورق بھی یداللہ صاحب کی فنکارانہ سادگی کے باوجود جاذب نظر مجموعہ مراثی کے عین مطابق ہے۔ سب باتیں ایک طرف کتاب کا عنوان یا نام ''نماز علم'' نے تو ذہن کے نہ جانے کتنے دریچے وا کردیے۔

نماز کے معنی پر آپ غور کرنا شروع کریں تو کتنے ہی زاویے سامنے آتے ہیں۔ اس کے معنی محدود بھی ہیں اور لامحدود بھی۔ نماز کے معنی اگر کسی برتر کے سامنے کم تر کا عجز و انکسار قرار دیے جائیں تو اس کی صورت تو کچھ ہمارے موجودہ معاشرے کی سی ہوگی، جہاں پر برتر (دولت، طاقت، منصب اور اقتدار کے لحاظ سے) کے آگے باقی افراد معاشرہ عاجزی و انکساری ہوگا جو انسان کی تذلیل کے سوا کچھ نہیں۔ ہاں اگر خالق کل کی خلاقیت کے پیش نظر یعنی معبود کے سامنے اظہار بندگی نماز ہے تو یہ بھی نماز کا محدود تصور ہے کہ اس معنی میں سوائے امت محمدیؐ کے اور کوئی یہ فریضہ ادا نہیں کرتا، مگر انسان کسی خطے، کسی مذہب، کسی عقیدے سے تعلق رکھتا ہو وہ علم کے آگے سر تسلیم خم ضرور کرتا ہے اور نماز دراصل ہے ہی علم کی عظمت کو تسلیم کرنے کا نام، جس کے لیے ہم نماز ادا کرتے ہیں وہی تو عالم الغیب، علم کل ہے اور اس کا حبیب شہر علم اور ان کا دست راست درِ شہر علم۔ اس تناظر میں اگر ''نماز علم'' کی ترکیب پر غور کیا جائے تو فضیلت علم کے ساتھ نماز کے واجب ہونے کا اصل مطلب بھی ذہن انسان پر واضح ہوجاتا ہے۔

اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اگر میں کہوں کہ یداللہ صاحب موقع محل اور حالات کے مدنظر الفاظ کا انتخاب بھی بے حد عمدگی سے کرتے ہیں تو ''نماز علم'' کے معنی کی وسعت ازخود سمجھ میں آجاتی ہے۔ الفاظ کے انتخاب کی کئی مثالیں ان کے کلام میں مل جائیں گی مگر صرف ایک پر اکتفا کر رہی ہوں ''خالق علم مجھے مرثیہ خوانی آجائے۔'' کیا یا الٰہی، یا رب العالمین، یا اللہ، اے رحمان مجھے مرثیہ آجائے لکھنے سے کوئی فرق پڑتا؟ مگر موقعہ ہے حصول علم کی خواہش کا کیونکہ مرثیہ علم کے سمندر کا ہی ایک قطرہ ہے تو بجائے دیگر اسمائے باری میں سے کسی اور کے خالق علم سے علم طلب کرنا کس قدر بامعنی اور برمحل ہے۔ اس پر غور کرنے سے اور بھی کئی در فکر وا ہوتے ہیں۔مرثیہ انتقام پر سیر حاصل گفتگو کی بہت گنجائش ہے مگر فی الحال اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ انتقام منفی جذبہ ہے مگر یہی جذبہ جب مثبت انداز اختیار کرتا ہے تو پھر وہ کردار محمدؐ و آل محمدؐ کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے کیونکہ اس ذات مقدسہ کا انتقام عفو و درگزر ، خطا اور بخشش ہے۔

یداللہ حیدر نے کچھ ایسے ہی انداز فکر کو اپنایا ہے۔ یداللہ صاحب نے کئی دلکش تراکیف بھی وضع کی ہیں صرف چند پر آپ کو دعوت فکر دیتی ہوں۔ مثلاً حرملۂ حرص، نماز علم، قرآن شہادت، کعبہ مؤدت، راہ مدحت، تطہیر فکر، جادہِ تحقیق، نمازِ مؤدت، لیلیٔ فکر اور تنقید حرد کو ظلم کے خلاف اور باطل سے ٹکرا جانے کا استعارہ کے طور پر پیش کیا ہے، اس طرح انسان کو عزم و ہمت جبر و ظلم اور استحصال کے خلاف سینہ سپر ہونے، اپنے حقوق کو ظالم و جابر سے حاصل کرنے کے قابل بناکر انسان کو شرف انسانیت اور توقیر ذات سے متعارف کرانا ہے۔ یداللہ حیدر کے کلام میں روایات کی پاسداری کے ساتھ ترقی پسندی بھی کارفرما ہے۔

آؤ پھر رشتۂ الفت میں دلوں کو جوڑیں

گزرے لمحات کی دیواروں سے کیوں سر پھوڑیں

یا

اختلاف کے بازو کو قلم کرکے چلیں

اصل مفہوم ترقی کا رقم کرکے چلیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں