تاریخ کا سبق
سردار داؤد 1952ء میں شاہ کے ذاتی ایلچی کی حیثیت سے روس گئے اورپھر روسیوں کی آنکھ کا تارا بن گئے
کیفے ٹیریا میں یار دوستوں کی محفل گرم تھی۔ موسم قدرے ٹھنڈا تھا۔ ہوا کے ہلکے ہلکے تھپیڑوں میں گرما گرم کافی کی چسکیوں میں سیاست دانوں اور اربابِ اختیار وبست وکشاد کا ''پوسٹ مارٹم'' جاری تھا۔ میرے عزیز دوست کرنل(ر) احسان الرحمن باریک بینی سے حالات کی نزاکت پر تجزیہ کناں تھے۔ موصوف کو زعم تھا، کہ وہ نواز شریف ان کے خاندان اورقریبی رفقاء کابطور چیف انویسٹی گیشن آفیسر کی حیثیت سے تحقیقات کرچکے ہیں۔ پرویز مشرف دور میں ایک خفیہ ایجنسی میں انتہائی اہم ذمے داریوں کے دوران ان کے تجربات اورمعلومات ایک انمول خزانہ ہیں۔
لہٰذا ان کی باتوں کاوزن دوسروں پر بھاری ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے روبن فرانس اورپرویز رشید کے انگلینڈ میں بزنس پارٹنر افتخار کمبوہ کی باتوں نے محفل کو کشتِ زعفران بنارکھاتھا۔ یورپی ممالک کی جمہوریتوں اورپاکستان کی جمہوریت کاموازنہ کرتے ہوئے ایسی ایسی باتیں اور نکات پر بال کی کھال کھینچی جارہی تھی کہ اگر امیر المومنین حضرت جنرل محمدضیاء الحق کی روح عالمِ برزخ سے وہ باتیں سُن لیتی تو زمین پر آگرتی۔ قصہ مختصریہ کہ افتخار کمبوہ نے حلقہ این اے 120 کے انتخابات پر ووٹروں کے طرز عمل پر میاں محمد بخش ؒ کاایک شعرپڑھا۔
عاماں بے اخلاصاں اندر خاصاں دی گل کرنی
مٹھی کھیر پکا محمد، کتیاں اگے دھرنی
اورمحفل کے اختتام کابگل بجادیا۔ سب دوست کیفے ٹیریا سے اٹھے اوراپنے اپنے گھر کی راہ ہولیے۔ لیکن میرے ذہن میں ایک طوفان ، ایک تلاطم تھا جو تھمنے کانام ہی نہیں لے رہاتھا۔ میںنے لاشعوری انداز میں گیٹ سے باہر نکلتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی ۔ نگاہیں سڑک پر تھیں لیکن ذہن سوچوں میں گم تھا۔ میرے ذہن میںکئی لوگ، کئی نام آرہے تھے۔ گئے وقتوں میںفرعون کی کہانیاں، چنگیز خان سے امیر تیمور تک، محمدبن قاسم سے سلطنت عثمانیہ کے اختتام اور پہلی جنگ عظیم سے دوسری جنگ عظیم کی فلمیں میری آنکھوں کے آگے سے گذررہی تھیں۔
تاریخ کا پڑھاہوا ورق ورق اک فلم کی طرح گذر رہاتھا۔ تاجِ برطانیہ کے زوال اورنو آبادیاتی ریاستوں کی آزادی، برصغیر کی تقسیم میں مسلمانوں کی تقسیم اورہندؤوں کو متحد رکھنے کی برطانوی سازش ، مولانا ابوالکلام آزاد کی پیش گوئیاں، علامہ اقبالؒ کافلسفہ ، قائداعظم محمد علی جناح کا کردار اور پھر لیاقت علی خان کی شہادت سے بے نظیر بھٹو کے قتل تک کی پوری فلم ایسے گذررہی تھی کہ مجھے لگ رہاتھا۔ جیسے میں فلم'' گاڈفادر'' کاڈائریکٹر فرانس فورڈ ہوں یا پھر بھارتی فلم''راج نیتی'' کا رائٹر ''پرکاش جھا'' ہوں۔
مشرقِ وسطیٰ کے نامور ڈکٹیٹر کرنل قذافی کے بیٹے سیف السلام قذافی کی ایک ڈاکو منٹری بھی میری نظروں کے سامنے سے گذری۔ جب اسے ملکہ برطانیہ بطور خاص اپنی محفلوں میں مدعو کیاکرتی تھی۔ اورپھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ اِسے ڈھنگ کے برتنوں میں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں رہی۔ اسی طرح افغانستان کے بے تاج بادشاہ ظاہر شاہ کے بہنوئی سردار داؤد کا ایک قصہ بھی یاد آیا۔ ایک وقت عروج ملا تو سردار داؤد 1952ء میں شاہ کے ذاتی ایلچی کی حیثیت سے روس گئے اورپھر روسیوں کی آنکھ کا تارا بن گئے۔ 53ء میںوزیر اعظم بن گئے۔ ظاہر شاہ نے بغاوت کی بُوسونگھی اورسردار داؤد کو 3 مارچ1963ء کوتخت سے اتار دیا۔1973ء کو ظاہر شاہ کاتختہ الٹا کر سردار داؤد پھر اقتدار پر قابض ہوگیا۔ روشن خیال ہونے کی وجہ سے افغانستان میں شراب خانے، ڈسکو کلب بھی کُھل گئے۔ امریکیوں نے سازش کی اورپھر سردار داؤد کا تختہ الٹادیا۔ فوجی بغاوت میںسردار داؤد کی لاش کو جیپ کے ساتھ باندھ کر کابل کی گلیوں اورسڑکوں پر گھسیٹا گیا۔
یہ واقعہ مجھے اس لیے یاد آیا۔ کہ میں نے کسی جگہ پڑھا تھا کہ 2008ء میں کابل میں کھدائی کے دوران ایک اجتماعی قبر ملی۔ جس میں قریباً30لوگ دفن تھے۔ ان میں سردار داؤد کو اس کے بوٹوں سے پہچاناگیا ۔ جب وہ اقتدار کے نشے میں چور تھا۔ تب وہ سوئٹنررلینڈ کی ایک کمپنی سے ایسے جوتے بنواتا تھا جن کی پالش50سال تک برقرار رہتی تھی۔ جب سردار داؤد کی لاش نکالی گئی تو نیوزی لینڈ کی گائے کے نایاب سنہری چمڑے کے بوٹ ہاتھ لگتے ہی چمک اٹھے۔ صرف بوٹوں نے ہی بادشاہ کی شناخت کرائی۔ ورنہ باقی 30 لاشوں کی طرح اس کی لاش کا گوشت بھی کیڑے کھاچکے تھے اور صرف ہڈیوں کاایک ڈھانچہ ہی باقی بچاتھا۔ مجھے سردار داؤد کے بوٹوں سے اپنے کئی حکمرانوں کی کئی نشانیاں بھی یاد آنے لگیں۔
کبھی مجھے اپوزیشن کے جملے یاد آنے لگے۔ جومحترمہ بے نظیربھٹو کی قیمتی عینک پر کسے گئے تھے۔ کبھی مجھے میاں نوازشریف کی ملین پونڈ والی گھڑی کی تصاویر نظروں کے آگے گھومنے لگیں پھر ایک قیمتی ہار بھی یاد آیا جو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی بیگم کے گلے کی زینت بنا تھا۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب آصف زرداری کے گھوڑوں کومربے کھلانے کی تصاویر اخبارات میں چھپیں تو رولے پڑگئے۔ کئی ڈکٹیٹروں کی کہانیاں''قصہ پارینہ را' ' ہوچکیں۔ لیکن حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ میں جنرل یحییٰ کے پاس آنے اورجانیوالیوں کے اوقات کار محترم توصیف احمدخان نے اپنی کتاب'' سقوط ڈھاکہ'' میں جس انداز میں رقم کیے ہیں۔ اگران کے نام ہی پڑھ لیے جائیں تو بڑے بڑوں کی شرافت بیچ بازار میں ڈھولک کی تھاپ پر رقصاں نظر آئے گی۔
میری نظریں سڑک پرتھیں اوردماغ سوچوں میں گم تھا کہ اچانک مجھے خیال آیا کہ باتوں باتوں میں کچھ اہم خبریں ایسی ہیں جو رہ نا جائیں۔ قارئین کرام! ڈھیروں پیش گوئیوں میں سے ایک یہ ہے کہ شریف فیملی کی '' ڈیل'' کی تمام کوششیں اب رائیگاں جائیں گی اوربالآخر انھیں احتساب کے کڑے امتحان سے گذرنا ہے۔ مریم نواز کوسیاست میں لانے کے لیے نواز شریف کی تمام کوششیں بھی رد ہوچکی ہیں۔عسکری قیادت نے انتہائی واضح انداز میں پیغام دے دیا ہے کہ عدلیہ کے فیصلوں میں وہ بالکل غیر جانبدار ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ وہ عدالتوں میں مقدمات کاسامنا کریں۔